تحریر: عفت کچرے ڈھیر سے بدبو کے بھبھوکے اٹھ رھے تھے اس پہ گرمی کا حبس زدہ موسم جس نے گلے سڑے کچرے کو اور آلودہ کر دیا تھا۔ ہر گزرنے والا وہاں سے گزرتے ہوئے ناک پہ کپڑا یا رومال ضرور رکھ لیتا اور اس طرح پائوں بچا کر چلتا گویا وہ آلودگی آگے بڑھ کر ان کا دامن داغدار کر دے گی۔ایک طرف چند بچے بڑے بڑے شاپر ہاتھ میں پکڑے پلاسٹک کی بوتلیں کچرے کے ڈھیر اکٹھی کرنے میں مشغول تھے وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے اور گالیوں کا تبادلہ کرتے، چیزوں کی چھینا جھپٹی کرتے، دنیا کے سب ہی غموں سے بے نیاز دیکھائی دے رہے تھے۔ نہ انہیں غلاظت کی پرواہ تھی نہ بد بو کی ، کچڑا کنڈی کے ساتھ اونچی عمارتیں تھیں اور دوسری طرف غریب بستی۔
عمارتوں کی پشت گویا غریبوں سے نفرت اور حکارت سے منہ پھیر کے کھڑی تھیں ۔ تیسری منزل کی کھڑکی کھولی اور ایک نیلا پھولا ہوا شاپر زمین پر دھڑام سے آ گرا۔ بچوں نے چونک کر دیکھا اور شاپر کی طرف لپکے اس سے پہلے کے وہ اس تک پہنچ پاتے ڈھیر کے پیچھے سے ایک مفلوک الحال شخص بڑھی داڑھی الجھے بال پاگلوں کا سا حلیہ لیے نمودار ہوا اور بچوں کو ڈانٹ کر بھگا دیا۔ لڑکے ہنستے ہوئے چلے گئے۔ ادھر اُدھر دیکھنے کے بعد اس نے شاپر اٹھا لیا اور دوبارہ کچرے کے ڈھیر کی دوسری طرف غائب ہو گیا۔
ٹوٹی دیوار کے سائے میں بیٹھتے ہوئے اُس نے بیتابی سے شاپر کھولا۔ چند پھپھوندی لگے ڈبل روٹی کے ٹکڑے۔ سیب اور کھیرے کے چھلکے باسی سالن۔ اس نے بڑے دھیاں اور احتیاط سے انہیں اپنے دامن میں انڈیلا اور بیتابی سے کھانا شروع کر دیا۔ کھا کر اُس نے پھٹی آستین سے منہ صاف کیا ور اپنی جیب سے ایک مُڑی تڑی بیٹری اور ماچس نکالی۔ بیڑی سلگا کر ایک طویل کش لیا اور پر سکون انداز میں آنکھیں موند لیں۔ جیسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہو۔ آدھی بیڑی پینے کے بعد اُس نے باقی بُجھا کر اس طرح جیب میں ڈال لی۔
Accident
انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور کچرا کنڈی سے باہر آگیا۔ اُس کی نظر زمین پر پڑی ایک سرنج پر پڑی اُس کی دھنسی ہوئی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی سرنج اٹھا کر دامن سے صاف کی اور جیب میں ڈال لی۔ گلیوں سے گزر کر بڑی سڑک پر آگیا۔ وہ شخص بے دھیانی میں چلا جا رہا تھا جیسے بہت مگن ہویا نشے میں ہو۔ زور دار بریک کے چر چرانے کی آواز آئی اور گاڑی کی ٹکرنے اُسے دس فٹ دور اچھال دیا۔اُس کے سر میں دھمک کے ساتھ تاریکی چھا گئی۔ ارے مار دیا کسی غریب کو۔ اٹھائو ہسپتال لے جائو کئی آواز میں گڈ مڈ ہو گئیں۔ نعمت اللہ جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور اس کی نظر اس مفلوک الحال شخص پر پڑی۔ لوگوں کی ملامتی نظر یں اور اس کی گھبراہٹ اُسے کچھ سمجھائی نہیں دے رہا تھا۔
کسی من چلے کا فقرہ اس کے کان میں پڑا۔ گاڑی میں بیٹھ کر دوسروں کو جانور سمجھتے ہیں۔ جسے چاہا مار دیا۔ اس کی پیشانی عرق آلود ہو گئی۔ اس نے امدادی نظروں سے اردگرد دیکھا اور تھوک نگل کر بہت ہمت کا مظاہرہ کیا۔ پلیز اسے گاڑی میں ڈال دیں میں ہسپتال لے جاتا ہوں۔ دو نوجوان آگے بڑھے اور خون میں لت پت شخص کو گاڑی میں لٹا دیا۔ نعمت اللہ نے جلدی سے گاڑی کا رخ سول ہسپتال کی طرف موڑ دیا۔ ایمرجنسی تک جاتے جاتے وہ ڈاکٹر ارشدکو تمام صورتحال بتا چکا تھا۔ لہذا اسے کسی مشکل کا سامنہ نہ کرنا پڑا۔ اگرچہ سیدھا سادا پولیس کیس تھا۔
ڈاکٹر ارشد کے ساتھ ہی وہ اندر داخل ہوا ڈاکٹر ارشد نے مریض کا معائنہ کیا اور اس کی جیب سے سامان نکال کر نعمت کو پکڑا یا اور مریض کو آپریشن تھیٹر لے گیا۔ نعمت اللہ کا دل گھبرا رہا تھا۔ وہ دل میں دعائیں کر رہا تھا کہ اجنبی کی جان بچ جائے۔ بے خیالی میں ہاتھ میں پکڑے سامان کو دیکھا ایک ادھ جلی بیڑی ایک پرانی ماچس جس میں چند تیلیاں تھیں۔ ایک ٹوٹی سرنج اور ایک پرانا خستہ حال بٹوا اس نے بٹوا کھولا تو اندر سے ایک کارڈ برآمد ہوا۔ایک خوش پوش نوجوان کی تصویر تھی۔ پروفیسر ڈاکٹر سعد حسن۔ ایم ۔اے۔ایم فل۔ پی ایچ ڈی ان فلاسفی۔ نعمت کی آنکھیں حسرت سے پھٹی ہوئی تھیں تصویر والا نوجوان ، مفلوک الحال نوجوان سے کافی مشابہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔