تحریر : انجینئر افتخار چودھری کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ٢٠١٥ میں پاکستان کی یہ صورت ہو گی ہر محکمہ شتر بے مہار اور ہرادارہ بے لگام۔اللہ کی ذات کا وجود اور اس پر ایمان پختہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ پاکستان ہے چل رہا ہے دوڑ رہا ہے۔اس بات پر ایمان کامل ہے کہ ضرور اولیاء اللہ کی دعائیں اس ملک کے کام آ رہی ہیں ورنہ ہم جانتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہم نے کیا کیا ہے۔٦٨ سالوں سے اسے توڑنے کی کوشش جاری ہے اسے توڑا بھی گیا مگر وہاں بھی بینس کے درخت کی طرح شاخ ہری ہے وہاں بھی عشاق کو پھانسیوں پر چڑھایا جا رہا ہے۔
چلئے مزے کی بات سناتے ہیں بہت چھوٹے تھے گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گجرانوالہ کے محلے باغبانپورہ سے نلہ جایا کرتے تھے نلہ ہری پور میں فال کرتا ہے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے ایوب خان کے دور میں شروع ہونے والی سڑک ان کے پوتوں کے دور میں پیر سوہاوہ ٹاپ سے ہوتی ہوئی ہرو کنارے اس جنت نظیر وادی میں پہنچی ہے یہ وہ راستہ تھا جہاں ہمارے بزرگ خچروں گھوڑوں کی پشتوں پر سوار ہو کر پہنچا کرتے تھے غالبا ١٩٦٧ کی بات ہے ہم گائوں پہنچے ان دنوں موسم گرما تھا پچھواڑے میں ایک انجیر کا درخت ہوا کرتا جسے ہم پھگاڑی کہا کرتے تھے ہر صبح تازہ انجیر ہمارے شکم کی آگ بنتے میں ایک بار بڑا رویا کہ سارے پھگاڑے بڑے بھائی کھا گئے ہیں۔ماں جی ہماری دادی اماں نے پیار سے کہا بیٹا یہ درخت ہے انسان نہیں جو ایک بار کسی کا حق مارتا ہے تو دوسری بار اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتا۔
کل صبح نیا پھل ہو گا کل صبح جب اللہ تعالی ہمیں اٹھائے گا تو تازہ انجیر بھی آ جائیں گے ساتویں جماعت کے ایک طالب علم کو اس سوچ نے ساری رات جگائے رکھا کہ ہم تو اٹھیں گے لیکن ہو سکتا ہے یہ درخت اپنے وعدے کے مطابق نئے پھل کے ساتھ نہ اٹھے،درخت پھل مکان کی چھت تازہ پھگاڑے میرا خواب تھے صبح دادی اماں نے مجھے کہا آئو چلیں تازہ پھگاڑے کھاتے ہیں کچے چھت پر آہستہ آہستہ بڑتے بوڑھے اور تازہ دم قدم ایک ساتھ بڑھے میں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ انجیر کے درخت نے اپنا وعدہ پورا کر دیا تھاماں جی کی ساری باتیں سچی ثابت ہوئیں۔کٹورے میں تازہ پھگاڑے بھر لئے چشمے کے ٹھنڈے پانی سے دھویا نمک لگایا اور خوب سیر ہو کر کھائے۔جب بہت مایوس ہوتا ہوں تو سوچتا ہوں اللہ تعالی کی مہربانیاں اتنی ہیں کہ جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ایک انجیر نہیں آم سیب آلوچے آلو بخارے سارے ہی تو لٹنے کے بعد نئے پھلوں کے ساتھ ہمارے سامنے آ جاتے ہیں بلکل پاکستان ان جیسا ہے جسے سب نے لوٹا سب نے نوچا مگر ہر بار خوبصورت پھلوں کے ساتھ۔
Pakistan
ذرا سوچئے جب پاکستان ہمیں ملا تو کیا تھا بلکل نوچا ہوا کسی پھل کے بغیر اس پاکستان کو ہمیں عطا کیا گیا اور جس نے عطا کیا اس نے اس پر جلد پھل لگانے شروع کر دیے۔ کہتے ہیں قاید اعظم نے یہ تک بھی کہا کہ رومال کے برابر بھی پاکستان ملا تو لوں گا ادھر پاکستان کا نام دینے والے چودھری رحمت علی دریائوں کے سوتوں سمیت اسے حاصل کرنا چاہتے تھے ۔سوچ دونوں کی ٹھیک تھی ایک کو فکر یہ تھا کہ ملک آزاد مل جائے ورنہ ہم مارے جائیں گے دوسرے نے کسی اور تناظر میں سوچا۔خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔مرحوم غلام حیدر وائیں کہا کرتے تھے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو میں وزیر اعلی کی بجائے وہاں اس ہائوس کا ایک چپڑاسی ہوتا۔
اس ملک کے پھلوں کو سب نے لوٹا ۔ہمارے بھائی اقبال مرحوم نے بتایا کہ میں چڑیالہ نلہ میں ایک ہندو دست کے گھر کھیل رہا تھا کھیل ہی کھیل میں ان کے باورچی خانے میں چلا گیا ایک شور مچ گیا کہ مسلے نے ہمارا چوکہ پلید کر دیا ہے۔بھائی پریشان ہو گئے اور گھر چلے آئے بعض اوقات سوچتا ہوں کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ پاکستان تو اسی وقت بن گیا تھا جب کسی شخص نے کلمہ ء طیبہ پہلی بار پڑھا تھا۔نہیں رہ سکتے تھے ہم ان کے ساتھ۔اپنے خوبصورت موسموں ٹھنڈے پانی کے چشموں آسمان کو چوتے چیڑھ کے درختوں کے درمیان میرا گائوں پاکستان کے گن گاتا رہتا ہے۔آفرین ہے اس دھرتی پر جہاں سو لہجوں میں قرآن پڑھا جاتا ہے۔پہاڑی دھن میں پہاڑی لئے میں درود شریف کی بلند آوازوں میں ڈھیری کے بلند سپیکروں سے ازانیں اور ازان سے پہلے درود شریف پڑھتے لوگ ہوا کے دوش پر نلہ سے مدینہ پیار کا پیغام پھیلاتے ہیں۔کاش اے حمید کا لہجہ ملتا تو اس کالم کو بارش سماوار اور خوشبو کا رنگ دے دیتا مگر قلم کا وہ حسن نصیب والوں کو ملتا ہے
میں ایوب خان کی کتاب جس رزق سے آتی پرواز میں کوتاہی بار بار پڑھی شہاب نامہ یاد کر لیا۔ضرور جنرل غلام محمد اور ان سے پہلے والوں سے غلطیاں ہوئیں مشرقی اور مغربی پاکستان میں نفرتیں ابھرنا شروع ہوئیں لیاقت علی خان شہید ہوئے قائد اعظم ماری پورڑوڈ پر پانچ گھنٹے کسی گاڑی کے منتظر رہے سب کچھ ہوا مگر یہ سبق ایوب خان کو کس نے پڑھایا کہ کہ فوجی نظام نافذ کرو۔پاکستان کے درخت سے سب کچھ نوچ لیا گیا نئے آنے والے کے ہاتھوں ڈھاکہ لٹا پاکستان دو لخت ہوا صرف الزام بھٹو یحیی اور مجیب الرحمان پر لگا نا زیادتی ہو گی۔بقول شاعر چوبیس برس کی فرد عمل ہر گھر زخمی ہر گھر مقتل اے ارض وطن تیرے غم کی قسم تیرے دشمن ہم تیرے قاتل ہم
ALLAH
اس درخت کو نوچنے والے سب بڑے تھے ۔کرنل شفیق الرحمن نے لکھا تھا پاکستانی بچے بڑے اچھے ہوتے ہیں لیکن ان میں خرابی یہ ہے کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔ہم معصوم پوپلی باتیں کرنے والے جن کے بارے میں پیارے نبی نے فرمایا کہ بچوں کی ایک بات بہت اچھی ہوتی ہے وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں دوست بن جاتے ہیں۔کبھی میاں نواز شریف آصف علی زرداری مولانا فضل الرحمن اور دیگر اکابرین ملت اسلامیہ پاکستان بھی بچے ہوتے ہوں گے میرا نہیں خیال کہ انہوں نے کبھی سوچا ہو گا کہ ہم بڑے ہو کر اس ملک کے وسائل کو لوٹیں گے ہڑپ کر جائیں گے۔ہر کوئی مٹھی بھر آسمان چاہتا ہے لیکن پتہ نہیں یہ لوگ آسمان اور زمین پر پھیلی الہی نعمتوں کے اکیلے وارث کیوں بننا چاہتے ہیں؟
پچھلی بار سعودی عرب جانا ہوا عمرے کے بعد جو دعائیں مانگیں ان میں یہ بھی دعا تھی کہ اللہ پاک ان اصحاب کو قناعت بخشے جو مل گیا اسی پر اکتفا کریں۔ یہ سب کچھ ہمارا ہے وادیاں آبشاریں انجیر کے درخت میرا گائوں نلہ میرا وطن پاکستان بس تقاضہ ہے امانتیں اسی طرح لوٹائیں جس طرح حقدار کو حق ملتا ہے اس بار انجیر کے درخت کو لدا بھرا اپنی آنے والی نسل کو دینا ہے اسے رونا نہ پڑے اسے چلانا نہ پڑے ایک صاف ستھرا پاکستان تعصبات سے پاک پاکستان میرے وطن تیرے دامن صد چاک میں بھی روشنی ہے
ساون کی گھنگور گھٹائیں اس ارض پاک پر برسنے کے بعد اسے پتوں سے ٹپ ٹپ گرتے پانیوں اور ان کا ایک باریک سی لکیر میں اتر کر چھوٹے سے کٹھے اور پھر ندی دریا اور سمندر میں گرنے کے اس عمل میں مٹھاس سے کڑواہٹ میں بدلنا ہی پاکستان چاہتا ہے۔ان پہاڑوں کی چوٹیوں مترنم بکوال کی بانسری کی دھن بحیرہ عرب کے کراچی سے پیار کی متقاضی ہے۔بارش سما وار خوشبو