تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری جعلی اور زائدالمیعاد ادویات کھانے سے پورے پاکستان میں مریض اس طرح جائے عدم کی طرف روانہ ہو رہے اور موت کے منہ میں مسلسل جا رہے ہیں کہ جس کا شمار کرنا مشکل ہو رہا ہے اس کی بنیادی جڑ کہاں ہےَ؟اور ایسا کیوں کر ہو رہا ہے؟دراصل تو یہودو ہنود اور غیر مسلم سامراجی طاقتوںکی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ امت مسلمہ کی تعداد ایک حد سے زیادہ نہ بڑھنے پائے اسکے نوجوان نہ تو صحت مند ہوں اور نہ ہی طاقتور بن سکیںاور وہ کبھی جدوجہد اور جہاد و قتال کے قابل ہی نہ رہ سکیں تاکہ کافرانہ طاقتیں 56اسلامی ممالک اور انکے تمام وسائل پر با آسانی قابض ہو سکیں۔ اسی لئے نشہ آور کیپسول ،ادویات،شربت وغیرہ دھڑا دھڑ بنا کر اسلامی ممالک میں انبار لگا رہے ہیں بلکہ مفت بھی مہیا کر رہے ہیں جیسا کہ لاہور کے ایک بڑے ہسپتال کے سٹور پر چھاپے کے دوران اربوں روپے کی جعلی اور زائدالمیعاد بیرون ملک سے مفت بھجوائی گئی ادویات سے ظاہر ہو گیا ہے اور مسلمان ممالک میں سے غداران کو لالچ دیکر خریدنا اور ان سے اپنے مذموم مقاصد کا حصول سامراجی ممالک کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے تمام ادویات بنانے والی کمپنیاں ادویات فروش ،میڈیکل سٹورز کے مالکان عملاً موت کے سوداگر بن چکے ہیں انکی بلا سے کہ دوائی زائد المعیاد ہے کہ اصلی ہے یا کہ نقلی ان پر صرف منافع کمانے کی دھن سوار ہے۔
معاشرے کے یہ کریہہ الذہن افراد انسانوں کو صحت افزا ادویات نہیں موت کے پروانے تقسیم کر رہے ہیں تمام اسلامی ممالک اور باالخصوص پاکستان کی مارکیٹوں میں نشہ آور ادویات،دو نمبر جعلی ادویات اور زائد المعیاد ادویات کی بھر مار ہو چکی ہے کف سیرپ ،گولیاںاور کیپسول اور مختلف ناموں کے نشہ آور سیرپ نوجوان ہی نہیں بلکہ عمر رسیدہ افراد بھی مسلسل استعمال کر رہے ہیں اور زائد المعیاد اور دو نمبر ادویات کھا کر اپنی موت کو قریب تر کر رہے ہیں Death Rate زیادہ ا ور اوسط عمر 41سال رہ گئی ہے پرانے زمانے کے بڑے بوڑھے تو 100سال کی عمر تک پہنچ جاتے تھے مگر آج کا نوجوان 40سال کی عمرکو پہنچتے پہنچتے ہی ذہنی بے سکونی ،تھکاوٹ ،نیند نہ آناجیسی خود ساختہ بیماریوں میںمبتلا ہو چکا ہے جو کہ انہی ادویات کے اثرات ہیں جبکہ میڈیکل سٹو رکے مالکان اورادویات بنانے والے افراد ایسی ادویات بیچ بیچ کر کروڑ پتی بن چکے ہیں
ادویات کی قیمتیں اتنی زیادہ کہ الاامان والحفیظ وزارت صحت اور محکمہ صحت کے دیگر کرپٹ بیورکریٹوں کو منتھلیاں باقاعدگی سے پہنچ رہی ہیںاس لئے وہ جان بوجھ کر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں وگرنہ” گلشن” کا کاروبا ر اس طرح سے قطعا ً نہیں چل سکتا نشہ آور او رسکون پہنچانے والی ادویات کی زیادہ مقدار استعمال کر کے سکون حاصل کرنے کے خواہش مند نوجوانوںکے جگر،گردے اور معدے بری طرح متاثر ہو جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف عملاً نقاہت ،سستی ان پر اثرا نداز رہتی ہے اور وہ کسی کام کو کئے بغیر لاکھوں کمانے کے چکر میں دو نمبر دھندوں چوری ،ڈکیتی،اغواء برائے تاوان جیسے “احسن کاموں “میں مصروف ہو جاتے ہیں اور معاشرے کیلئے ناسور کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ نوجوان ہی نہیں کالج کی لڑکیوں اور نوجوان خواتین میں بھی ان ادویات سے نشہ حاصل کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔لمبی کمائیوں کے چکر میں دو نمبر کمپنیاں اپنی غیر معیاری پروڈکٹس بنا کرمارکیٹوںمیںفروخت کررہی ہیںنوجوان نسل مارکیٹ میںدستیاب کف سیرپ،ٹینکچر، کپیاں،گولیاں اور کیپسول استعمال کر رہے ہیں مارکیٹ میں دستیاب تھری ہارس کف سیرپ ،زیب کف سیرپ ،رونڈک کف سیرپ اور ریٹا مالین کف سیرپ کی بوتلیں بطور نشہ کے استعمال کی جارہی ہیںان سیرپس میں ایسے کیمیکل شامل ہوتے ہیں جن سے نشہ تو ہو جاتا ہے مگر صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں کف سیرپس میں عموماً کوڈین فاسفیٹ کی مقدار 55فیصد سے 80فیصد تک ڈال دی جاتی ہے
Codeine
کوڈین فاسفیٹ جگر،معدہ اور گردوں پر انتہائی مضر اثرات مرتب کر تا ہے اور بالآخر انہیں مکمل طور پر ناکارہ بنا ڈالتا ہے صرف ٹینکچرکاخالص حالت میںاستعمال انتہائی زہریلے اثرات مرتب کر تا ہے معدہ ،جگر ،گردے مکمل طور پر تباہ ہو جاتے ہیں اور صرف اسی نے لاکھوں گھروں کے نوجوانوں کو قبرستان میں پہنچایا ہے۔جبکہ دیگر نشوں کیلئے نشئی حضرات ڈارون (Darvin) ،ویلیم (Valium) ،زینکس (Xanax) ،پراز (Prayz) گولیاں اور رسٹورل (Restoril) ،فلوکسٹین (Flouxetine) کیپسول بھی استعمال کرتے ہیں۔ مردانہ قوت باہ بڑھانے والے کیپسول اور گولیوں کی تو سینکڑوں قسمیں بازاروں میں دستیاب ہیں اور کیانوجوان اور کیا بوڑھے ان کے مستقل گاہک بنے ہوئے ہیں جو کہ معدہ،گردوں اور جگرکو مکمل تباہ کر ڈالتے ہیں بعض دو نمبر ادویات بنانے والی کمپنیوں نے ایسی ادویات کے اپنے اپنے برانڈ تیا ر کر رکھے ہیں ان تمام کاموں کے پیچھے یہودی ذہن کار فرما ہے جسکا اوپرذکر کیا جا چکا ہے تاکہ اسلامی ممالک میں نوجوان نسل بے حس ،کام چور اور سستی و کاہلی کا شکار ہو کر کسی کام کے قابل نہ رہے اور وہ آسانی سے قبضہ جما سکیں اس قسم کے کیپسول اور گولیاں میڈیکل سٹوروں کے مالکان بغیر کسی ڈاکٹر کے نسخہ بھاری مقدار میں لوگوں کو کھلم کھلا فروخت کررہے ہیں نیچرل پراڈکٹس ،آیورویدک پراڈکٹس وغیرہ کے نام سے سینکٹروں غیر رجسٹرڈ اور جعلی ادویا ت کی تو سرکاری ہسپتالوں کے گردونواح میں دھڑلے سے فروخت جاری ہے۔جعلی ادویات میںبھاری پانی شامل ہونے کی وجہ سے نکل،سکہ اور مرکری کے زہریلے ذرات بھی شامل ہوجاتے ہیں ۔ ان میں جو مخصو ص رنگ استعمال کیاجاتا ہے وہ بھی سخت نقصان دہ ہے ۔ وہ مردوں میں جگر ،آنت اور پراسٹیٹ (Prostate) کے کینسر کا باعث بن رہے ہیں ۔جبکہ ان کے لگاتار استعمال سے عورتوںمیں بھی بریسٹ(Breast) کینسر اور بچہ دانی کے کینسر ہو رہے ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک بھر میں ڈاکٹری نسخہ کے بغیر نوے فیصد سے زائد ادویات فروخت کی جارہی ہیں بیرونی ممالک میں ایک اسپرین کی گولی بھی بغیرڈاکٹر کے نسخہ کے فروخت کیے جانے کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔
غلط ادویات کے استعمال سے لاکھوں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اسطرح سے راتوں رات نہیںتو ہفتوں ،مہینوںمیں ہی نشہ آور اور زائد المیعاد ادویات اور دو نمبر ادویات بنانے اور بیچنے والے یہ موت کے سوداگر کروڑپتی بن چکے ہیں یہ کریہہ کاروبار محکمہ ہیلتھ کی بیور وکریسی ،سول بیوروکریسی ،پولیس اور حکومتی افراد کی ملی بھگت کے بغیر نہیں چل سکتا یہ لوگ مریضوں کیلئے ہی نہیں بلکہ عام افراد کیلئے بھی صحت کے پیامبروں کی جگہ موت کے سوداگر بن چکے ہیں.اس سلسلہ میں اضلاع اور تحصیلوں میں خاص اس مقصد کیلئے تعینات ڈرگ انسپکٹر ان موت کے سوداگروں کے معاون بنے ہوئے ہیں۔ جو کہ ماہانہ لاکھوں روپے منتھلیاں لے کر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ اور ان رقوم کا بڑاحصہ نیچے سے اوپر تک میڈیکل بیوروکریسی میں بندر بانٹ کے طور پر حصہ بقدرِ جثہ کے طور پر پہنچایا جاتا ہے۔ انکے تعاون ہی سے ایسے سیرپ بطور نشہ استعمال کئے جارہے ہیں جنکی گھروں کے اند ر خود ساختہ فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں۔ 8تا 12 روپے میں تیا ر کر کے 60سے 95روپے تک کی قیمت پر میڈیکل سٹوروں اور ڈاکٹروں کا روپ دھارے ہوئے عطائیوں کی دکانوں پر ہر وقت دستیاب ہیں۔وزارت صحت و میڈیکل بیوروکریسی کے افراد آج تک اربوں ڈالر رشوت وصول کر چکے ہیں ۔حالانکہ موجودہ حکومت نے ڈسٹرکٹ ایگزیکٹیو آفیسر زمحکمہ صحت کو سختی سے احکامات جاری کئے ہیں۔ کہ جعلی اور غیر معیاری ادویات کی فروخت اور جانوروں پر استعمال ہونے والی ادویات کا انسانوں پر استعمال کرنے والے نام نہاد ڈاکٹروں (عطائیوں) کا محاسبہ کیا جائے اور ڈرگ انسپکٹرز ہر ماہ کم از کم ایک سو مختلف ادویات کے نمونے ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریوں کو بھجوائیں۔ جو ڈاکٹرز کا روپ دھارے ہوئے عطائی جو کہ زیادہ سے زیادہ کوئی ویکسی نیٹر( ٹیکے لگانے والا) سرکاری ملازم یا اسسٹنٹ لیبارٹری ٹیکنیشن ٹائپ فر د ہی ہوتے ہیں انکے کلینک سیل کئے جائیں۔
یہ لوگ جانوروں پر استعمال ہونے والی سستی ترین ادویات لوگوں پر استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ڈرگ انسپکٹرز اس بات کے بھی پابند ہیں کہ وہ روزانہ جتنے چالان کریں اور ادویات کے نمونے حاصل کریں انکی روزانہ رپورٹس وزیر اعظم کو براہ راست ارسال کریں مگر کون عملدرآمدکرتا ہے اور” کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک “کے مصداق ایسے حکم یا احکامات کو بیوروکریسی پرِکاہ کے برابر ویلیو نہیں دیتی اور مال کمائو ڈنگ ٹپائو پر مسلسل عملدرآمدکرتی رہتی ہے اِنہیں ڈرگ انسپکٹرز کی زیر سرپرستی نان کوالیفائیڈ نام نہا د ڈاکٹرز عطائی مافیا مسلسل کھلے میدانوں میں کام کر رہے ہیں ۔ہر پکی سٹرک کے چوک اور موڑ پر انکی دکانیں کھلی ہوتی ہیں اور نشہ آور ادویات اور کپیاں دھڑلے سے فروخت کی جاتی ہیں ۔یہ لوگ علاج تو کیا کریں گے الٹا لوگوں میں ہیپا ٹا ئیٹس ،ایڈز،کینسر،السر،،خونی پیچش،جگر گردے کی بیماریوں کا مسلسل موجب بن رہے ہیں بہر حال دیہاتوں،چکوں پر تو یہی لوگ غریبوں کے ڈاکٹر ہیںاورکوالیفائیڈ ڈاکٹرزہی مانے جاتے ہیں۔ کاش کوئی حکمران پروفیسروں، سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی پرائیوٹ پریکٹس پر پابندی لگانے کی جرأت کر سکتا کہ ان کے کلینک بھی گھی فیکٹریوں اور چینی کے کارخانوں کی طرح کمائیوں کے گڑھ ہیں ۔تمام ڈرگ انسپکٹروں کی موجوگی میں غیر معیاری جعلی ادویات کی فروخت سے اگر کوئی عطائی کسی مریض کو مارڈالے تو متعلقہ ایس ایچ او کو رپورٹ ملتے ہی قتل عمد کا مقدمہ جعلی دوا فروش اور متعلقہ ڈرگ انسپکٹرپر درج کر ڈالنا چاہیے۔ سچ تو یہ ہے کہ میڈیکل پروفیشن میں کمائو سیٹ ڈرگ انسپکٹر کی اور پولیس میں ایس ایچ او کی ہے جس طرح سے عام مجرم چور،ڈاکو،راہزن،جیب کترے پولیس کے ایس ایچ او کی زیر نگرانی پرورش پاتے ہیں۔اسی طرح عام جعلی ڈاکٹرز یعنی انسانوں کیلئے موت کے پروانے باٹنے والے ڈرگ انسپکٹرز کی زیر نگرانی ہی پرورش پاتے ہیںدونوںطرف سے کرپشن کرکے لاکھوں کی منتھلیاں باقاعدہ وصول کرانے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے ۔ حالانکہ یہ بات ببانگ دہل کہی جاسکتی ہے کہ کسی بھی ایماندار ایس ایچ او اور ڈرگ انسپکٹر کے علاقے میں کسی واردات کا امکان نہیں ہو سکتا مگر موجودہ مادی دور میں ایماندار کی تلاش جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔جعلی اور زائد المعیا د ادویات کی فروخت کا سلسلہ دھڑلے سے جاری ہے ۔جس کے مریضوں پر مرتب برے اثرات بڑے ہوش ربا اور اذیت ناک ہیں عام آدمی کیلئے قیمتی ادویات خریدنا ویسے ہی ایک پرابلم ہے پر مستزاد یہ کہ جوں توں کر کے جب دوائیں خرید ی جاتی ہیں تووہ یاتو جعلی ہوتی ہیں اور اصلی ہوتی ہیں تووہ بھی زائد المعیاد۔
Fake Medicine Market
دو نمبر ادویات بھی ببانگ دہل فروخت کی جارہی ہیں اور ناخواندہ مریضوں کے سر زائد المیاد ادویات بھی تھونپ دی جاتی ہیںان نام نہاو کلینکوں میں ڈاکٹروں کے علاوہ پیرا میڈیکل سٹاف بھی اس طرح کی زائدالمیعاددوائیں استعمال کرتے ہیں جو کہ فائدے کے بجائے سخت نقصان پہنچاتی ہیں۔جیسا کہ موجودہ چھاپوں سے واضح بھی ہو چکا ہے۔ غیر رجسٹرڈ اور جعلی ادویات کی بھر مار ہے اور بدقماش ادویات ساز کمپنیوں اور جعلی ادویات فروخت کرنے والے افراد کی جڑیں بہت گہری ہیں اور ان کی گردن ناپنے کا کوئی موثر انتظا م نہیں ہے اوزون نامی جعلی انجکشن کی تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم سے تصدیق بھی ہو چکی ہے مگر فاضل تین رکنی بنچ کا بڑا دقیع اور غیر معمولی سابقہ حکم کہ زائد المیعاد اور جعلی ادویات پندرہ دن کے اندر اندر تلف کر دی جائیں صدابا صحرا ہی ثابت ہوا ہے اور شوگر مافیا کی طرح ڈرگ مافیانے بھی برسراقتدار راہزنوں کی صفوں میں گھس بیٹھیئے کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کے خلاف تمام کاروائیوں کو روک رکھا ہے ۔ اوپر سے نیچے تک منتھلیوں کا کاروبار اس کی عملدرآمدگی میں رکاوٹ بنا رہے گا اگر صوبائی حکومتیںکمر باندھ لیں تو انسانی جانوں سے کھیلنے اور مریضوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ناممکن نہیں مگر کون سنتا ہے۔” اب ہماری جنگ آخری مورچہ چھوڑ نہ جائے کوئی ” کے فارمولے کے تحت احکامات کی عملدرآمد کے لئے اشد ضروری ہے کہ ای ڈی او ہیلتھ، سیکرٹری ہیلتھ بالخصوص ڈرگ انسپکٹرز کہ جنہوںنے بھاری رشوتیں لیکر آگے جعلی ،دو نمبر ،زائدالمیعادادویات کی فروختگی کے کھوکھے نہیںبلکہ پلازے کھول رکھے ہیںمیںسے کسی کو بڑے شہر کے چوکوں پر لٹکایا جائے ،
تختہ دار نصب کئے جائیں تواوپر سے نیچے تک گھنٹی بج جائیگی خالی احکامات پر تو پہلے کبھی عملدرآمد ہوا ہے نہ ہوگا لاتوں کے بھوت کبھی باتوں سے مانا کرتے ہیں ؟ حکومت کو چاہیے کہ پورے ملک میں بارہ گھنٹے کیلئے کریک ڈائون کے ذریعے ایک ہی دفعہ تمام میڈیکل سٹور ز ،گوداموں اور کمپنیوں کے دفاتر پر چھاپے مارے جائیںایمرجنسی طور پرزائدالمیعاد،جعلی،نشہ آور ادویات تیار کردہ کیپسول ،گولیاں اور سیرپ ضبط کئے جائیں اور بیرونی ملک کی طرح بغیر ڈاکٹروں کے نسخہ کے ادویات کی فروخت کرنے والوںکو قرار واقعی سزائیں دی جائیں جو کہ ہماری نوجوان نسل کی صحت اور قیمتی جانوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو سالانہ تقریبا 35لاکھ نوجوان نشہ آور ادویات کھا کر ہلاک ہوتے رہیں گے جیسے پولیس اسٹیشن سے وقت سے پہلے ہی “اپنوں”کو آگاہ کر دیا جاتا ہے کہ ہم اتنے وقت پر چھاپہ ماریں گے آپ یہ مال بھی اِدھر اُدھر کر دو اور خود بھی وہاں موجود نہ ہونا ۔اس طرح ڈرگ انسپکٹر اپنے کمائو پوتروں کو جو کہ انہیں لاکھوں روپے منتھلی ادا کر رہے ہیں وقت سے پہلے بتادیں گے اور وہ جعلی مال اِدھر اُدھر کر دیویں گے۔ اور اس مہم کا بھی وہی حشر ہو گا جو کہ اسلامی حدود کے آرڈیننس کا تھانیداروں نے کیا تھا کہ رشوت کا ریٹ چار گنا بڑھ گیا تھا کہ تھانوں کے انچارج اسلامی دفعات نہ لگانے کے عوض زیادہ مال مانگنے لگے تھے۔
ویسے بھی وزارت صحت و میڈیکل بیوروکریسی صرف ایک دوائی کی قیمت جتنے پیسے بڑھاتی ہے اتنے ہی لاکھ روپے رشوت کا ریٹ مقرر ہے۔ اگر ایک دوائی کی قیمت 75پیسے بڑھائی تو رشوت 75لاکھ ہو گی اور ایک پیسہ کم بھی وزارت صحت اور اس کے بیوروکریٹ نہ لیں گے جان بچانے والی ادویات تو انتہائی مہنگی ہیں اور ان کے استعمال کئے بغیر مریض جانبرہو ہی نہیں سکتا ان کو ضروری آئٹم سمجھ کر ان کی قیمتیں بڑھانے اور رشوت لینے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے ہمار ے ملک میں تو ایسی ادویات انتہائی مہنگی ہیں اور انڈیا کی قیمتوںسے پانچ گنا زیادہ قیمت ہے ۔ خام مال ایک ہی جگہ سے آرہا ہے پھر ان کا پاکستان میں مہنگا ہونا کرپشن کا بین ثبوت ہے مگر کاروائی کون کرے ؟اور کیوں کرے؟ جو دوائی یہاں پر پچاس روپے میں بک رہی ہے وہ بھارت سے سمگل ہو کر ادویات کی باڑہ مارکیٹ میں دس روپے کی دستیاب ہے ۔ اور زیادہ معیاری بھی ہے ۔ اس لئے ادویات کی سمگلنگ کا کاروبار بھی وسیع پیمانے پر جاری رہتا ہے۔ بغیر ڈاکٹری نسخہ کے اور اَن کوالیفائیڈ ڈاکٹر نما لوگ اور ڈگریوں کے بغیر پریکٹس کرنے والے افراد(Quack)ہمیشہ انڈیا میڈادویات استعمال کر تے ہیں۔اور لاکھوں،کروڑوں کماتے ہیں اسی طرح جب کسی دوائی کی مارکیٹ میں فروخت کو قطعاً بند کرنا ہوتا ہے تو اس کے لئے میڈیکل بیوروکریسی اور وزارت صحت ایک ڈی نوٹیفکیشن De-notification) )آرڈر جاری کرتی ہے۔ اور یہ بالعموم بیرونی ممالک کی کمپنیوں کی شہ پر کیا جاتا ہے جس کے لئے باہر ہی باہر لاکھوں ڈالر رشوت بیرون ممالک میں ہمارے بیوروکریٹس کے بنکوںکے اکائونٹس میں جمع ہو جاتی ہے ۔اس طرح سے یہ گھنائونا کاروبار دن بہ دن ” ترقی پذیر ی”کے مراحل طے کر رہا ہے جسے آہنی ہاتھوں سے نہ روکا گیا تو پاکستانی عوام قعر مذلت میں گر کر ہلاک ہوتے رہیں گے ۔ اے خدائے عزوجل اللہ اکبر تحریک کو مقتدرکر ڈالو تا کہ ان تمام مسائل کوفوری مستقل حل کر ڈالے اور ملک صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی و جمہوری ملک بن جائے اورترقی کی راہ پر گامزن ہو ۔انشاء اللہ