تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی پوری دنیا کے مختلف ممالک میں رونما ہونے والے حادثات و سانحات، زلزلہ، قتل و غارت اور اسی طرح کی دوسری آفات ہمیں کہیں نہ کہیں عبرت و موعظت کا درس دے رہے ہیں۔ برق رفتار زمانہ میں ہوائی جہاز سے دنیا کی سیر کرتے ہوئے سینکڑوں میلوں کے فاصلے کو گھنٹوں میں طے کرتے ہیں، آئے دن ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے نِت نئی تیز رفتار سواری کا استعمال ہوتا ہے، اسی دوران بحکمِ الٰہی کبھی کبھار ناگہانی حادثہ بھی پیش آ جاتا ہے۔
کہیں ٹرین کے آپس میں ٹکرا جانے سے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ آناً فاناً دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو کہیںبسوں، ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کے نیچے دب کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔کبھی تو پورے کا پورا ہوائی جہاز ہی تباہ ہو جاتا ہے جس سے سینکڑوں لوگ مر جاتے ہیں، قتل و غارت بھی اسی طرح ناگہانی آفات کہلاتے ہیں۔ غرض اس طرح کی اموات سے انسان کا سہم جانا فطری اور لابدی ہے۔ نیز انہیں اوقات میں انسان کا نفسِ لوامہ اسے اپنی رفتار، چال ڈھال، کام کاج، لین دین، حقوق و معاملات کے علاوہ ہر اس چیز کے بارے میں لمحہ بھر کے لئے سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی لائیں تاکہ مبادا کسی حادثہ کا شکار نہ ہو جائیں۔ لیکن اس کے برعکس اگر ہم نفسِ لوامہ کے احساسات و جذبات اور برائی پر ملامت کرنے والے ضمیر کی اپیل کو نظر انداز کرکے اپنے دل کو بے حِس اور پتھر بنا ڈالیں تو پھر ہمیں بھی کسی ناگہانی حادثہ کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیئے۔
اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی برائیوں اور بد اعمالیوں کے باوجود حتیٰ کہ اسے نا ماننے والوں کو بھی جہاں رزق سے محروم نہیں کرتا وہیں انسان کی مغفرت اور بخشش کا بہانہ ڈھونڈتے ہوئے اسے کسی نہ کسی ناحیہ سے عبرت و موعظت حاصل کرنے کا موقع عنایت فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحمٰن و رحیم ہے، اس کی رحمت اور مغفرت کا عالم یہ ہے کہ گناہِ عظیم کا مرتکب جب توبہ و استغفار کی غرض سے ہدایت کی راہ پر چل پڑتا ہے اور ہدایت پانے سے پہلے انتقال کر جاتا ہے پھر بھی اس کی نیک نیتی کی وجہ سے اس کے لئے اپنی رحمت کا خزانہ کھول دیتا ہے اور وہ جنت میں داخل کیا جاتا ہے۔ لیکن یاد رہے اللہ تعالیٰ جہاں غفور و رحیم ہے وہیں جبار و قہار بھی ہے۔ مطلب یہ کے وہ بندوں کو اس کی غلطی پر معاف کرتا ہے پھر بشری تقاضا کے مطابق غلطی ہوتی ہے، پھر معافی مانگنے پر وہ معاف کر دیتا ہے۔
Allah
جب انسان اپنے مقصدِ حیات کو بھلا کر خود کو حد سے زیادہ دانا اور عقلمند تصور کرانے لگتا ہے اور حاصل شدہ اللہ کی نعمتوں کو فضل الٰہی کے بجائے اپنی کمائی کا حصہ گردانتا ہے ، اللہ کی مخلوقات اور قدرت کی پیداوار میں چھیڑ خانی کرتا ہے، بے حیائی، بد کرداری اور بدفعلی کی حدیں پار کرکے حیوانیت و بہیمیت کو باعث فخر اور امتیازی شان سمجھنے لگتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے زمین میں دھنسانے ، سیلاب میں بہانے یا اس پر کوئی آفت نازل کرنے سے پہلے کسی نہ کسی صورت میں کوئی ایسا موقع عنایت کرتا ہے تاکہ اس سے انسان کی انسانیت جاگے۔
اللہ نے انسان کو افضل و برتر اس لئے بنایا تاکہ وہ اس روئے زمین پر اللہ کا حکم نافذ کریں اور اس دنیا میں صرف اور صرف اللہ کا ہی قانون چلے۔ اپنے بندوں کی یاد دہانی کے لئے رب ذوالجلال اپنے پیغمبروں اور رسولوں کو اس دنیا میں بھیجتا رہا ہے تاکہ اس کے پیامبر بھولے ہوئے انسان کو سیدھے اور صحیح راستہ کی رہنمائی کر سکیں پھر بھی اگر بندے نہیں جاگے تو انہیں عذاب کا حقدار بنایا اور انہیں عبرتناک سزائیں دیں۔ چنانچہ نوح علیہ السلام کی قوم کو ڈبو دیا۔ لوط علیہ السلام کی قوم پر پتھروں کی بارش کر دی اور صالح علیہ السلام کی قوم کو آندھی میں اُڑا دیا۔
اب نبی آخر زماں ۖ کے بعد کوئی نبی یا پیغمبر نہیں آئے گا۔ اس لئے جب اس روئے زمین پر اللہ کے حکم کی نافرمانی حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تب وقتاً فوقتاً اللہ چھوٹے چھوٹے عذاب مسلط کرتا ہے تاکہ قوم عبرت لے اور اللہ کی طرف رجوع کرے، توبہ و استغفار سے اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرے۔زلزلہ جیسی تباہی ہو ہو یا وطنِ عزیز میں قتل و غارت گری، یہ تباہی اللہ کی طرف سے بندوں کو خبردار کرنے کے لئے ہے کہ اس دنیا میں اگر قدرت کے قوانین کی خلاف ورزی ہوئی تو اللہ کے غضب سے کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔
آج ہم جس پُر آشوب دور سے گزر رہے ہیں جس میں بے حیائی، بدکرداری، بے حسی، قتل و غارت(کہ جس میں مرنے والا یہ نہیں جانتا کہ اُسے کیوں مارا جا رہا ہے اور مارنے والا یہ نہیں جانتا کہ وہ کیوں مار رہا ہے)پانی کی قلت، گیس کی قلت، بجلی کی قلت، یہ سب ناگہانی آفات ہی تو ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنی اصلاح کریں ، یہ تمام مسائل صرف اور صرف ترکِ نماز ، قرآن سے دوری اور اللہ رب العزت کے احکامات پر کاربند نہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر ہم سب کی اصلاح فرمائے۔ آمین