واشنگٹن (جیوڈیسک) گزشتہ سال اسرائیلی افواج اور فضائیہ نے غزہ کے معصوم شہریوں کو جس طرح اپنی وحشیانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا اسے گزشتہ 40 سال کے دوران سب سے ہلاکت خیز حملہ قرار دیا جارہا ہے جس میں 2ہزار 300 سے زائد فلسطینی شہید اور 20 ہزار سے زائد مکانات بھی تباہ ہوئے جب کہ اس دوران غزہ کا پورا نظام بھی مفلوج ہوکررہ گیا تھا۔
جنگ کے ایک سال بعد حیرت انگیز طور پر 60 اسرائیلی فوجیوں کے اعترافی بیانات سامنے آئے ہیں جنہوں نے رمضان المبارک کے مہینے کی پرواہ کیے بغیر غزہ کے طول و عرض کو اپنی وحشیانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا، ایک اسرائیلی فوجی نے اعتراف کیا کہ ہم نے زخموں سے کراہتے ہوئے ایک فلسطینی پر بلڈوزر سے ملبہ ڈال کر اسے ہمیشہ کے لیے مٹی میں دبا دیا جب کہ ایک اور صیہونی فوجی کا کہنا تھا کہ ہمیں حکم ملا تھا کہ فائرنگ کرو اور ہر جگہ کو نشانہ بناؤ۔
دیگر اعترافی بیانات میں ایک اوراسرائیلی فوجی نے بتایا کہ ہم نے فلسطینیوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے خونخوار کتوں کا استعمال کیا جب کہ ایک اورصیہونی فوجی کا کہنا تھا کہ ہمیں احکامات ملے تھے کہ خواہ کوئی مسلح ہو یا غیر مسلح سب پر فائرنگ کرو اس دوران 2 فلسطینی خواتین کو گولی ماردی گئی اور کہا کہ وہ دہشت گرد تھیں۔
اس رپورٹ میں فوجیوں کے وڈیو بیانات بھی شامل ہیں جن میں ایک فوجی نے بتایا کہ ہمیں ہر مشکوک گھر پر حملے کی اجازت تھی خواہ کوئی گھرسے باہر سر نکالے یا ایک مکان سے دوسرے مکان تک جاتا دکھائی دے۔
خاموشی کوتوڑو (بریکنگ دی سائلنس) نامی 240 صفحات کی اس رپورٹ میں گزشتہ برس 50 روزہ اسرائیلی جارحیت میں ملوث ہر عہدے کے اسرائیلی فوجیوں کے اعترافی بیانات شامل ہیں جب کہ غیرملکی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے رپورٹ پر کام کرنے والے ریسرچ ڈائریکٹر اویہائی اسٹولرکا کہنا تھا کہ فوجیوں کے انٹرویواس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں معصوم شہری کیوں ہلاک ہوئے اور غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو کیوں ملیا میٹ کیا گیا۔