تحریر: عبدالرحیم علامہ اقبال وہ آفاقی شاعر ہیں جنکے کلام کی ہمہ گیریت بے مثال اور لا جواب ہیں۔ان کا کلام مذہب ، فلسفہ ، سائنس ، تاریخ بین الاقوامی حالات و حوادث، فکر فردا اور مستقبل کے مسائل کے حل پر مشتمل ہے۔کلام اقبال کو در حقیقت ‘دیدہ بینائے قوم ‘سے تعبیر کیا جاسکتاہے۔ اس کے کلام میں یقیں محکم ، عمل پیہم،زہد و فقر ،مجاہدانہ اور فعال زندگی کا پیغام پوشیدہ ہے۔ عالمی ادب کا ایک مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ ادب کا بہترین شاہکار وہ ہے جو زندگی اور انسانیت کے کسی اعلی نصب العین خصوصا مذہبی نقطۂ نظر سے تحت تخلیق پایاہو۔ اس کی بہترین مثال مغرب کے تین عظیم شاعر دانتے، شیکسپیئر اور گوئٹے ہیں ۔یہ لوگ ذہنی اور جذباتی طورپر مسیحی اقدار سے وابستہ تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افکار و خیالات اور تصورات و تخیلات کا مرکز و محور بہرحال کلیسا ہے۔
علامہ اقبال کی شاعرانہ عظمت مغربی شعراء یعنی شیکسپیئر،گوئٹے اور دانتے سے کسی قدر کم نہیں ہے ۔اقبال کی اس عظمت کے پس پشت اسلامی اقدار و روایات کے وہ تار پودہیںجن کے خمیر سے اقبال کا کلام تیار ہوا ہے۔ اگر اسلامی حوالوں سے اقبال کے کلام کو علیحدہ کر دیا جائے تو ان کی شاعری عالمی ادب سے لے کر قومی ادب تک سطح مرتفع سے گر کر یک لخت زمیں بوس ہوتی نظر آتی ہے ۔اقبال نے عالمی و آفاقی سطح پر جدیدتہذیب و تمدن کی تمام پیچیدگیوں اور ترقیوں کو نہ صرف سامنے رکھا بلکہ ان کے اشارات ،رموز و علائم کو اپنے فن میں تحلیل کرکے شاعری کی اور یہ تحلیل وترکیب اسلامی نظام حیات کی منظم فکر کے تحت انجام دی گئی۔
علامہ اقبال نے اسلامی نظام حیات کو اپنی شاعری کا محور و مرکز بنایا یہ کام ان کے لیے بہت آسان تھا کیونکہ انہوںنے اسلام کے اصلی مصادر تک رسائی حاصل کی تھی۔اسلام کے اصلی مصادر تک پہونچنے کے لیے عربی زبان کا جاننا ضروری تھا ۔اقبال نے اس زبان کو سیکھا اور سمجھا ۔ان کی عربی دانی کا ہی نتیجہ تھاکہ وہ اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کی جگہ پر تین ماہ تک کیمبرج یونیورسیٹی میں قائم مقام عربک کے پروفیسر رہے ۔علامہ اقبال کی عربی دانی سے متعلق جگناتھ آزاد لکھتے ہیں : ”صرف ٣٢،٣٣ سال کی عمر میں اتنے علمی اعزاز ،اس قدر ڈگریاں اور فارسی ،عربی ،سنسکرت کے علاوہ پورب کی کئی زبانوں میں ماہر ہونا اور مقبولیت وہ شہرت حاصلر کرنامعمولی دماغ اور تربیت کاکام نہیں ہے ”۔(اقبال اور کشمیر،ص:٣٥)
Allama Iqbal
علامہ اقبال کو عربی ادب سے بے حد لگاؤ تھا ۔انہوں نے عربی شمس العلماء مولانا سید میر حسن سے پڑھی تھی۔جن کے بارے میں سر عبدالقادر لکھتے ہیں: ”ان کی تعلیم کا یہ خاصہ ہے کہ جو کوئی ان سے فارسی یا عربی سیکھتے ان کی طبیعت میں اس زبان کا صحیح مذاق پیدا کردیتے ہیں”۔ اقبال عربی و عجمی مزاج سے بحسن و خوبی واقف تھے۔وہ نعت ‘ذوق وشوق’میں لکھتے ہیں۔ ذکر عرب کے سوز میں فکر عجم کے ساز میں لے عربی مشاہدات، لے عجمی تخیلات
اقبال عجمی لے کے مقابلے میںنطق عربی کے حامی تھے۔وہ حضرت حق سے اپنے لیے نطق عربی کا مطالبہ بھی کیا کرتے تھے تاکہ اسرار جاں کو قوم مسلم کے سامنے کھول کر عیاں اور واضح کر دے۔ بچشمش و نمودم زندگی را کشودم نکتہ فرداودی را ایک اور جگہ علامہ اقبال نے کہا : عجمی خم ہے تو کیا مئے تو حجازی ہے مری نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری عشق کا دل بھی وہی حسن کا جادہ بھی وہی امت احمد مرسل بھی وہی تو بھی وہی (شکوہ)
اقبال کی شاعری در حقیقت مشرقی ادبیات کی تمام تر شاعرانہ روایات کا نقطئہ عروج ہے ۔فارسی ،سنسکرت اور عربی میں شاعری کے جتنے بھی تجربات اقبال سے قبل ہوچکے تھے ان سب کے احساسات و نقوش کو اپنے اندر سمیٹ اور سمو کر اقبال نے فن کے ارتقاء کا ایک نیا مرحلہ طے کیا ۔چنانچہ وہ عربی ادب کی روح کو اپنے اشعار میں بہت ہی آسانی سے سمودینے میں کامیاب ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تشبیہیں، استعارے، تلمیحات اور خیالی تصورات قاری کے ذہن کو عربی ماحول کی طرف بہت ہی آسانی سے منتقل کردیتی ہے۔ ذیل میں دبستان عربی ادب کے مختلف اصناف سے علامہ اقبال کے کلام کے عربی مصادر و مآخذ کی ایک جھلک پیش کی جارہی ہے
Poetry and literature
شعر وادب عربی ادب سے واقفیت اور گہرا مطالعہ کے سبب اقبال نے شعرائے عرب وعجم کے افکار و خیالات کو اپنے کلام میں بحسن و خوبی استعمال کیا ہے ۔ان کے یہاں عربی شاعری کے مصادر جا بجا موجو د ہیں متنبی، معرّی ،عمربن کلثوم وغیرہ نیزدورجاہلیت اور سبعہء معلقات کے شاعر امرالقیس ،زہیر بن ابی سلمی کا ذکر بھی ہے اور حضرت کعب بن زہیر اور شرف الدین بصری کا تذکرہ بھی ۔مثلا ارمغان حجاز میں اقبال نے عمر وبن کلثوم کا یہ شعر اپنے قطعہ کا جز بنا لیا۔ صنیت الکاس عنا ام عمرو و ان الکاس مجراھا الیمینا علامہ اقبال نے مسجد قرطبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔ تیرا جلال وجمال مردخدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل اقبال کایہ شعر مسجد قرطبہ کے بانی عبدالرحمن الناصر کے اس شعر کا ترجمان ہے ۔
ان البناء اذا تعاظم قدرہ اضحی یدل علی عظیم الشان اقبال نے اپنی والدہ محترمہ کی وفات پر جو مرثیہ کہا تھا ۔اس مرثیے کا آخری شعرہے۔ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے اس شعر کا مآخذاصلی ابو تمام کا وہ شعر ہے جس میں ابو تمام نے حاکم موصل محمدبن حمید الطائی کے مرثیہ میں کہا تھا۔ وکیف احتمالی للغیوث صنیعتہ باسقائھا قبراََو فی لحدہ البحر یعنی میں ا س قبر کوسیراب کرنے والے بادلوں کاممنون کیوں ہوں جس قبر کی لحد میں خود سمندر سویا پڑا ہو ۔ ابوالعلا معرّی عربی زبان کا بہت بڑا شاعر اور عظیم فلسفی تھا۔اس کا کلام دقیق علمی اصطلاحات سے لبریز ہے ۔اس کے نظام فکر میں ایک زاھد خشک ،تارک الدنیا راہب اور قنوطی فکر کا احساس پیداہوتا ہے ۔علامہ اقبال نے ابوالعلامعرّی کے اسی تصور کی بنا پر اس نظم کو شعری جامہ پہنایا۔
افسوس صد افسوس کہ شاہیںنہ بنا تو دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات تقدیرکے قاضی کا فتوی ہے ازل سے ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ملکِ عرب سے قلبی تعلق اور اس ضمن میں غارحرا ،حجاز مقدس،خانہ کعبہ،حرم اور اہل حرم ،ملت عربی ،مدینہ،یمن،شام وغیرہ کا ذکر کلام اقبال میں جابجا اپنی بہار دکھاتا ہے ۔سرزمین عرب کو وہ صحرائے عرب شتربانوں کا گہوارہ اور تمدن آفریں و خلاق جہاں داری وغیرہ لفظی پیکروں سے مخاطب کرتے ہیں۔اسلامی تہذیب کے اس گہوارے کو شفاخانہ حجاز کہہ کر پکارتے ہیں۔اہل عرب کی صحرائیت کو تہذیب انسانی کاجوہر قراردیتے ہیں۔فتح اندلس اسلامی تاریخ کاایک روشن باب ہے ۔یہ فتح طارق بن زیاد کی رہین منت ہے ۔میدان جنگ میں اترنے سے قبل طارق بن زیاد نے اپنی فوج سے جو خطاب کیا تھا وہ اس مرد مومن کے ایمان و استقامت اور قوت وشجاعت کا آئینہ دار ہے ۔اقبال نے اسے بڑی خوبصورتی سے اشعار کا پیرہن عطاکیا ہے ۔
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے جنہیں تونے بخشا ہے ذوق خدائی دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی دوعالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائی شہادت ہے مطلوب مقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشورکشائی خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے قبا چاہیے اس کو خون عرب سے کیا تونے صحرانشینوںکو یکتا خبر ،میں نظرمیں، آذان سحر میں طلب جس کو صدیوں سے تھی زندگی کو وہ سوز اس نے پایا انہیں کے جگر میں کشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں دل مردمومن میں پھر زندہ کردے وہ بجلی کہ تھی نعرہ لا تذر میں عزائم کو سینے میں بیدارکردے نگاہ مسلماں کو تلوار کردے علامہ اقبال کی شاعری میں عربی شاعری کے رموز اور اساطیر کی جھلک بھی پائی جاتی ہے۔
Shikwa
درد لیلی بھی وہی قیس کا پہلو بھی وہی نجد کے دشت وجبل میں رم آہو بھی وہی وادی نجد میں وہ شورسلاسل نہ رہا قیس دیوانہ نظارہ محمل نہ رہا (شکوہ) تیشے کی کوئی گردش تقدیرکودیکھے سیراب ہے پرویزمگر تشنہ ہے فرہاد (معزول شہنشاہ) اسلام اورقرآن اقبال کا ایمان موروثی ،جامد اور ساکت نہیں تھابلکہ عقل و ادراک ،شعوروجدان اور ان کے قلب ضمیر کا آئینہ تھا۔حیات وکائنات کے جملہ مسائل وافکار کوانہوں نے قرآن کے آئینے میں دیکھا تھا ۔یہ فیضان تھا مطالعہ قرآن کا جس نے انہیں عرفان نفس اور عرفان ذات کا جوہر عطاکیا اور اپنے فلسفہ حیات و کائنات میں جو ہر ِ کو ہی اصل حقیقت اور منتہائے فکر قرار دیا۔
فکر اقبال جس کی اساس تفہیم قرآن پر مرکوز ہے ۔فارسی کلام میں بالخصوص اور اردو کلام میں بالعموم قرآنی آیات واحادیث سے اخذ واستنباط بالواسطہ وبلاواسطہ جابجا موجود ہے جس کی چند مثالیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔ مثل کلیم ہواگر معرکہ آزماکوئی اب بھی درخت طورسے آتی ہے بانگ لاتخف اس شعر میں لا تخف کا کلمہ اس آیت کے پس منظر میں بیان ہوا ہے ۔فلما اتھا نودی من شاطئی الوادی الایمن فی البقعة المبارکة من الشجرة ان یاموسی انی انا اللہ رب العالمین ۔وان الق عصاک فلمارائھا تھتز کانھا جان ولی مدبرا ولم یعقب یاموسی اقبل ولا تخف۔ آبتاؤں تجھ کو رمز آئیہ ان الملوک سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادو گری ان الملوک اذادخلو ا قریة افسدوھا وجعلوا اعزة اھلھا اذلةوکذالک یفعلون۔
قرآن کے علاوہ کلام اقبال میں احادیث،سیرت الرسول،تاریخ اسلام ،خودی ،بے خوودی ،مردمومن وغیرہ کو پیش کیا گیا ہے ۔ان ساری چیزوں کا مآخذاصلی عربی ہے ۔علامہ اقبال جیسا محقق اور رمز شناس کے لیے لازمی تھا کہ وہ پہلے عربی زبان میں ید طولی حاصل کریںپھر اسلامی فلسفہ کو فکروفن کے قالب میں ڈھالیںاور انہوں نے ایسا ہی کیا ۔یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کا پورا کلام اسلامی فلسفہ کا مرقع بن گیا۔ اسی کشمکش میں گذری میری زندگی کی راتیں کبھی سوز وساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی