تحریر : پروفیسر حافظ محمد سعید خواب دیکھنا اورخوش فہمیوں کے محلات کھڑے کر نا ہر انسان کا حق ہے مگر ضروری نہیں کہ ہر انسان اپنے خواب کی پسندیدہ تعبیر پالے اور اس کی خوش فہمی حقیقت کا روپ دھا ر لے۔ بعینہ بھارتی حکمران 67سال سے تحریک آزادی کشمیر کے خاتمے اور اہل کشمیر کے دلوں سے پاکستان کی محبت مٹا ڈالنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن تمام تر مظالم ، سازشوں اور کوششوں کے باوجود یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو پارہا ۔ بھارت کے حکمران تحریص و ترغیب کے جتنے جال بچھا رہے اور جتناظلم وستم ڈھا رہے ہیں تحریک آزادی کشمیر اتنی ہی مضبوط و توانا ہو رہی اور اہل کشمیر کے دلوں میں پاکستان کی محبت کا جذبہ اتنا ہی فزوں تر ہو رہا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اہل کشمیر کے دلوں میں پاکستان سے محبت اور بھارت سے نفرت کا جذبہ پہلے چنگاری تھا تو اب … شعلہ جوالا بن چکا ہے جس کا اندازہ مقبوضہ جموں کشمیر میں گذشتہ دنوں کھلے عام پاکستانی پرچم لہرائے جانے اور پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے جانے کے مسلسل وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے کیا جا سکتا ہے۔ تحریک آزادی کشمیر میں یہ حدت و شدت ، حرکت و قوت اور تیزی ان حالات میں پیدا ہوئی ہے کہ جب دہلی کے ایوانوں میں بی جے پی جیسی مسلم دشمن اور خونخوار جماعت براجمان ہے۔ یہی جماعت مقبوضہ جموں کشمیر میں بھی مخلوط حکومت کا حصہ ہے۔ بی جے پی کا مسلم دشمن رخ و کردار کبھی ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ یہ جماعت ایسے دیومالائی مہابھارت کے قیام پر یقین رکھتی ہے جس میں رام راج کا قیام ہو، اسلام، پاکستان اور کشمیری مسلمانوں کا وجود وتصور نہ ہو۔
بی جے پی کی مقبوضہ جموں کشمیر کے ساتھ عداوت کا مختصر پس منظریہ ہے کہ پچاس کی دہائی میں مشہور انتہا پسند ہندو لیڈر شیام پرساد مکر جی نے جن سنگھ کی بنیاد رکھی یہ سنگھ پریوار کا سیاسی روپ تھا۔ جن سنگھ نے کشمیر کی خصوصی اہمیت سے متعلق آرٹیکل 370کے خاتمہ کو اپنا جنگی، مذہبی اور سیاسی فریضہ ٹھہرایا۔ پرساد مکر جی اپنی زندگی میں آرٹیکل 370کا خاتمہ تو نہ کروا سکے البتہ اس مقصد کی خاطر کوشش کرتے کرتے جموں میں ہی آنجہانی ہوئے۔ اس کے بعد بی جے پی نے پرساد مکرجی کے ادھورے مشن کو مکمل کرنے اور کشمیر کی خصوصی اہمیت کے خاتمے کا بیڑا اٹھایا۔ چنانچہ جب نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے ایک طرف حکومتی طاقت، اقتدار اور اختیار کے بل بوتے سرزمین گجرات کو مسلمانوں کے خون میں ڈبویا، لاکھوں مسلمانوں کو بے گھر، ہزاروں مسلمانوں کو شہید، بچوں کو یتیم اور خواتین کو بیوہ کیا تو دوسری طرف ان کے دل میں کشمیر کا درد بھی جاگا۔سو انہوں نے ملک گیر سطح پر کشمیر بچائو مہم شروع کی۔ جگہ جگہ جلسے کئے ، جلوس نکالے جن میں جنونی ہندو ہاتھوں میں ننگی تلواریں اٹھائے ”کشمیر بچائو ہند بچائو، جو مانگے کا پاکستان اسے ملے گا قبرستان” کے نعرے لگاتے دندناتے پھر رہے تھے۔
بی جے پی نے 2014ء کا الیکشن اسلام، پاکستان، کشمیر دشمنی کی بنیاد پر لڑااورکشمیر کی خصوصی اہمیت کے خاتمہ، دنیا بھر سے ہندوئوں کو بھارت لا کر بسانے کے منصوبہ، رام مندر کی تعمیر اور گائو کے ذبیحہ پر پابندی کی بنیاد پریہ الیکشن بھاری اکثریت سے جیتا۔ نریندر مودی کی مقبوضہ کشمیر کے لئے بے چینی ، بے تابی اور بے قراری کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم کا آغاز ہی پاکستانی سرحد سے متصل مقبوضہ جموں کشمیر کے قصبے ہیرانگر سے کیا۔مودی نے اپنے جلسوں میں پاکستان کے خلاف سخت زبان استعمال کی، کشمیر کے متعلق جارحانہ عزائم، تحریک آزادی کشمیر کو کچل دینے کے ارادوں کا اظہار کیا اور کہا مطلوبہ افراد کی تلاش میں ہم پاکستان پر مسلح یلغار کریں گے۔ الیکشن میں کامیابی کی خوشی میں بی جے پی کے رہنما بے ساختہ کہہ اٹھے، ”دلی ہوئی ہماری اب ہے کشمیر کی باری” اپنی اس خوشی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مودی نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی پہلا دورہ مقبوضہ جموں کشمیر کا کیا۔ اس طرح مختصر عرصہ میں پانچ دورے کر کے وہ مقبوضہ جموں کشمیر کے سب سے زیادہ دورے کرنے والے وزیر اعظم ٹھہرے۔
Protest
یہ بات طے ہے کہ باربار دوروں کا مقصد اہل کشمیر کو ڈرانا، دھمکانا، خوف زدہ کرنا اور یہ پیغام دینا تھا کہ دہلی میں اب سخت گیر اوربے رحم حکومت ہے جو بھارت اور کشمیر کے مسلمانوں کو مٹادینے کا عزم رکھتی ہے، جومسلمانوں کیلئے کسی قسم کی رورعایت کی قائل نہیں، جو قاتل، سفاک اور ظالم ہے۔ لہذا اب اہل کشمیر کی جان کی امان اسی میں ہے کہ وہ آزادی کے مطالبہ سے دستبردار ہو جائیں، پاکستان کی محبت دل سے نکال دیں، ترنگے کو سلام کریں اور بھارت کی اطاعت و غلامی قبول کر لیں۔بی جے پی کی حکومت نے مقبوضہ جموں کشمیر میں ظلم وستم کی نئی داستانیں رقم کیں۔ بچوں کو ذبح کیا، نوجوانوں کو عقوبت و اذیت کا نشانہ بنایا، خواتین کی عزتوں کو پامال کیا۔بستیوں کو تاراج اور قبرستانوں کو آباد کیا یہاں تک کہ اہل کشمیر کے لئے حالات پہلے سے بھی بدتراور سخت ہو گئے۔ تاہم تمام تر مظالم کے باوجود کشمیر کے غیورو جسور مسلمانوںکے حوصلے جوان ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بھارتی معاشرے میں نریندر مودی ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک سوچ، فکر، تحریک، تشدد اور تعصب کا نام ہے جو پاکستان اور کشمیر دشمنی کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔مودی حکومت کی سفاکیت سے دوقومی نظریہ کی صداقت پر ایک بار پھر مہرتصدیق ثبت ہو گئی ہے۔ بلاشبہ مودی حکومت کا ظلم آخری حدوں کو چھو رہاہے
لیکن یہی ظلم بھارت کے حصے بخرے ہونے اور مقبوضہ جموںکشمیرکی آزادی کی منزل قریب تر آنے کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل کشمیر ہر طرح کا ظلم و ستم برداشت کر کے بھی پاکستان سے محبت کا فریضہ نبھا رہے ،پاکستان کے دفاع و استحکام کی جنگ لڑ رہے اور آزادی و حریت کا پرچم سربلندکئے ہوئے ہیں۔ بھارتی حکمران اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اہل کشمیر کو توڑنا ، ڈرانا، جھکانا اور ان کے دلوں سے پاکستان کی محبت نکالنا ممکن نہیں لہذا اب انہوں نے ظلم و تشدد کے ساتھ ساتھ صہیونی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے آبادی کے تناسب کو بدلنے کی سازش تیار کی ہے۔ اس مقصد کی خاطر ہندو پنڈتوںکی بستیاں مقبوضہ جموں کشمیر میں بسانے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ یہ بہت ہی خطرناک اور تباہ کن منصوبہ ہے۔ اس طرح کے تباہ کن منصوبہ کے بدترین اثرات عالم اسلام سرزمین فلسطین پر یہودی ریاست کی شکل میں بھگت رہا ہے۔
حریت کانفرنس کی قیادت اور کشمیری عوام اس سازش اور منصوبہ کو ناکام بنانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وادی بھر میں پرزور… مگر… پرامن احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارتی فوج حسب معمول پرامن احتجاج کا جواب لاٹھی، گولی، ہلاکتوں، گرفتاریوں اور تشدد سے دے رہی ہے۔صرف اپریل کے مہینے میں 5بے گناہ کشمیری شہید، سو کے قریب زخمی اور سینکڑوں گرفتار کر لئے گئے۔ شہید ہونے والوں میں نویں جماعت کا ایک معصوم بچہ بھی شامل ہے جبکہ ایک نوجوان کے سر کی کھوپڑی پاش پاش کر دی گئی۔یہ قانون فطرت ہے کہ ظلم کے سائے کبھی دراز نہیں ہوتے ، گولیوں سے امن اور محبت کے بیج نہیں بوئے جا تے۔ چنانچہ آبادی کے تناسب کو بدلنے کی گھنائونی سازش اور کشمیری نوجوانوں کی شہادت کے خلاف وادی بھر میں حریت کانفرنس کی اپیل پر ہڑتال ہوئی۔ ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔
Kashmir Protest
سیدعلی گیلانی، مسرت عالم بٹ و دیگر نے جلوسوں کی قیادت کی، جلسوں سے خطاب کیا، پاکستانی پرچم لہرائے اور ”پاکستان زندہ باد، کشمیر بنے گا پاکستان، تیری جان میری جان پاکستان پاکستان، حافظ سعید کا کیاپیغام کشمیر بنے گا پاکستان” کے والہانہ و فلک شگاف نعرے لگائے۔ پاکستانی پرچم لہرائے جانے اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے بھارتی حکومت، فوج اور بھارتی میڈیا سیخ پا اور آگ بگولہ ہو گیا۔ اس لئے کہ پاکستان زندہ باد ،پاکستانی پرچم لہرائے جانے کا منظر مودی حکومت کے خواب وخیال اور تخیل و تصور سے بھی زیادہ وحشت ناک اورخوفناک تھا۔ اس منظر سے بھارتی ایوانوں اور میڈیامیں سکتہ و مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ چنانچہ بزرگ رہنما سید علی گیلانی کو نظربند، سید شبیر شاہ، مسرت عالم بٹ، یسین ملک، آسیہ اندرابی اور دیگر کو گرفتار کر لیا گیا ۔ مسرت عالم جو طویل عرصہ کی بیگناہ اسیری کے بعد چند دن پہلے رہا ہوئے تھے ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA ) کا کالا قانون لاگو کر کے رات کی تاریکی میں انہیں تھانہ بڈگام سے بدنام زمانہ جیل کوٹ بھلوال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں ان کی زندگی کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ مسرت عالم بٹ پر بغاوت اور بھارت کے خلاف جنگ چھیڑنے کے سنگین مگر جھوٹے مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ بھارت کے مرکزی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کا کہنا ہے ”مسرت عالم کو اب جیل میں ہی رہنا ہو گااور کشمیر میں پاکستانی پرچم لہرائے جانے کی کسی قیمت پر اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ” بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے بیان سے بھی مترشح ہوتا ہے کہ بھارتی حکمرانوں کو اصل تکلیف پاکستان کی ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب بھارت کے حکمران پاکستان کا نام تک سننا گوارا نہیں کر سکتے تو وہ پاکستان کا وجود، جغرافیہ اور استحکام کیونکر گوارا کریں گے…؟
ان حالات میں ضروری ہے کہ کشمیر کے اہل وفا جو بھارتی جفا کے ستائے ہوئے اور پاکستان کی محبت و عقیدت میں اپنا سب کچھ لٹائے ہوئے ہیں… انہیں یکہ و تنہا نہ چھوڑا جائے۔ کشمیر متنازع خطہ ہے، پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق ہے لہذا مقبوضہ وادی میں پاکستان زندہ باد کہنا یا پاکستان کا پرچم لہرانا کوئی جرم اور گناہ نہیں ہے۔ ہمارا حکومت پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ فی الفور بھارتی مظالم کا سخت نوٹس لے، مسئلہ کشمیر پر واضح، دوٹوک اور مضبوط موقف اختیار کرے۔ ہمارا یہ مطالبہ بھی ہے کہ کشمیری رہنمائوںپر درج بغاوت کے مقدمات سلامتی کونسل اور عالمی عدالت انصاف میں اٹھائے جائیں۔بھارت سے پوچھا جائے کہ کیا سلامتی کونسل نے پاکستان کو مسئلہ کشمیر کا فریق تسلیم نہیں کر رکھا…؟کیا سلامتی کونسل کی قراردادوں کی رو سے کشمیر متنازعہ خطہ نہیں…….؟ جب پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق ہے اور یقینی طور پر ہے تو پھر پاکستان کا نام لینا جرم… اور بغاوت کیونکر ہے…؟
ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ اگر حکومت پاکستان کے کشمیری قائدین کے خلاف بغاوت کے مقدمہ کو عالمی فورم میں اٹھانے پر کچھ تحفظات ہیں تو پھر ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم یہ مسئلہ عالمی فورم میں لے جائیں اس لئے کہ ہم اپنے قابل صد احترام بزرگ سید علی گیلانی، سید شبیرشاہ، میر واعظ عمر فاروق، مسرت عالم بٹ، یسین ملک، قابل قدر بہن آسیہ اندرابی، حریت کانفرنس کے دیگر قائدین و کارکنان اور غیور کشمیری عوام کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ بات سیدھی سی ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر 80فیصد مسلم آبادی والا خطہ ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر ریاستوں کے الحاق کے لئے وضع کئے گئے فارمولہ کی رو سے کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ایسے خطہ کے مسلمان باشندوں سے اظہار ہمدردی و اظہار یکجہتی کرنا،ان کے قدم بہ قدم، شانہ بشانہ کھڑے ہونا، ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف اٹھانا اور ان کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنا ہماراشرعی، آئینی اور قانونی حق ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر کی آزادی اور بھارت کے تسلط کے خاتمہ تک ہم یہ حق استعمال کرتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ۔