سولر انرجی وقت کی سب سے بڑی ضرورت

Solar Energy

Solar Energy

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس
یورپ میں جب سورج نظر آتا ہے تو لوگوں کے چہرے کھل جاتے ہیں۔ گھومنے پھرنے کے پروگرام بننے لگتے ہیں۔ نئی تازگی محسوس کی جانے لگتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں سال کے تقریبا دس ماہ تو بادل رہتے ہیں یا پھر بارش اور ٹھنڈ کا زمانہ رہتا ہے مشکل سے دو ماہ کا ہی عرصہ سورج دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود آج کل جہاں دیکھیں، یورپ بھر میں سولر انرجی کو جذب کرنے کے لیئے سولر پلیٹس لگی ہوئی نظر آرہی ہیں۔

حالانکہ یہاں پر پن چکی سے بجلی پیدا کرنا زیادہ بہتر اور مفید ہے کیونکہ یہاں ہوائیں بہت تیز چلتی ہیں اور تقریبا ہر وقت اور ہر علاقے میں ہوا اچھی خاصی رفتار سے موجود رہتی ہے ۔ جبکہ سورج کی ساری حِدّت سولر پلیٹس میں جذب ہونے کے باعث یہاں اکثر ہی ہڈیاں ٹوٹنے کی شرح کسی بھی گرم ملک کے مقابلے میں کہیں ذیادہ ہے کیونکہ خوراک میں یا فوڈ سپلیمنٹس میں اگر وٹامن ڈی کا استعمال باقاعدہ نہ کیا جائے تو ہڈیاں کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور ذرا ذرا سی چوٹ بھی ہڈیاں ٹوٹنے کی وجہ بن جاتی ہے ۔ اس لیئے یہاں پر سولر انرجی کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیئے۔

Solar Power for Home

Solar Power for Home

جبکہ ایشین ممالک میں جہاں سورج سال کے گیارہ ماہ خوب گرمی اور روشنی بکیھرتا ہے اور گرمی کی شدت لوگوں کے لیئے سوہان روح بن کران کی زندگیوں کے لیے بھی خطرناک ہو جاتی ہے ۔اکثر گرمیوں میں لوگوں کی اموات کی ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جس میں ان کی موت کی وجہ صرف گرمی کی شدت ہی ہوتی ہے ۔ غریبوں کا حال تو اور بھی برا ہوتا ہے ۔ انہیں تو کُھلے آسمان کے نیچے ہی نہ صرف مذدوری کرنی ہے، سودا بیچنا ہے اور سفر بھی پبلک ٹرانسپورٹ پر ہی کرنا ہے لہذا ان کی صحت بھی براہ راست گرمی کی شدت سے متاثر ہوتی ہے ۔ اس لیئے وہاں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ سورج کی تپش کو کم کیا جائے اس کے لیئے آپ سورج کا وولٹج تو کم نہیں کر سکتے۔

ایک ہی کام کر سکتے ہیں کہ سورج کی اس بھرپور نعمت کو زحمت بننے سے بچایا جائے اور بہتر انداز میں استعمال میں لایا جائے ۔ تصویر کا دوسرا اور زیادہ خوفناک رُخ یہ بھی ہے کہ پہاڑوں پر ایک تو برف پڑ ہی کم رہی ہے۔ اس پہ طُرّہ یہ کہ سورج کی ماحولیاتی تبدیلی کے زیر اثر ہونے والی تپش کی اضافت کو بھی جب تک استعمال نہیں کیا جائے گا۔ پہاڑوں کی برف کو اور گلیشئیرز کو تیزی سے پگھلنے سے نہیں روکا جا سکتا ۔ جبکہ یہ ہی گلیشئیرز ہمارے پانی کا منبع ہیں ۔ جس پر ہماری زندگیوں اور ہماری زراعت کا دارومدار ہے ۔ پانی کا یہ منبع ہی نہ رہیں تو ملک ریگستان بن جاتے ہیں۔

اس لیئے وہاں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں جہاں توانائی کا شدید بحران ہے اور ہمماری تمام انڈسٹریز اس سے بری طرح متاثر ہو رہی ہیں اور معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ان سب کا ایک ہی بہترین حل ہے کہ سورج کی توانائی کو بھرپور انداز میں سولر انرجی کے طور استعمال کیا جائے ۔اس کے لیئے حکومت کو بھی سولر پلیٹس اچھے معیار کی اور کم سے کم قیمت میں مہیا کرنے کے کاروبار کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے ۔ وہ نوجوان جو اسی شعبے میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں ۔ان کے علم سے بھرپور استعفادہ حاصل کیا جائے۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

انہیں ان پلیٹس کو جدید اور مذید بہتر بنانے کے لیئے بھرپور مالی معاونت فراہم کی جائے تاکہ ہمیں سستی توانائی مہیا ہو سکے ۔ ہمیں آج تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ آخر پاکستان میں حکومت کسی کی بھی کیوں نہ ہو، اس کے باوجود اس کا رویہ ہر سولر انرجی کے لیئے کام کرنے والے ماہر کیساتھ حوصلہ شکن ہی کیوں ہوتا ہے۔

ڈاکٹر قدیر خان نے اس فیلڈ میں کام کی پیشکش کی تو حکومت وقت نے نخوت سے ناک سکیڑ لی ۔ ڈاکٹر ثمر مند اور داکٹر قدیر کا آج سے بیس سال پہلے کا اخباری خوشخبری بیان”کہ اسی سال ہم قوم کو سولر انرجی اور سولر چولہوں کا تحفہ دینگے ۔” پڑھ کر ہم آج تک اسی انتظار میں رہے کہ آج آئے یہ سولر چولہے یا کل آئے ۔ لیکن لیکن ہائے ! افسوس کہ پورے ملک کی معیشت کی اس توانائی کمیابی کے کارن اینٹ سے اینٹ بج گئی لیکن نہ آئی سولر انرجی اور نہ آئے سولر چولہے۔

جانے کس سوچ میں پاکستانی حکومتوں نے قوم کا یہ قیمتی وقت تباہ کر دیا۔ ہمیں تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ ہو سکتا ہے تمام حکومتیں اسی بات پر غورو فکر میں مدتیں پوری کرتی رہی ہیں کہ یہ جو ہے سورج ،اس پر ٹیکس کیسے لگائیں گے ۔ آخر جو ہے، ہم کسی کو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ بھئی تم نے ٹیکس نہیں دیا لہذَا ہم جو ہے ،تمہارے گھر کا سورج کاٹ رہے ہیں۔ آخر جو ہے ،حکومت کو کوئی فیدہ بھی ہونا چاہیئے سورج دینے کا ۔ جو ہے ، کیا خیال ہے۔ ملک و قوم کے مفاد میں اس تاخیر پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس