تحریر : حذب اللہ مجاہد ایک روز ایک صاحب اپنے بیٹے کو ڈانٹ رہے تھے اور ڈانٹ کی وجہ یہ تھی اسکول سے شکایت آئی تھی کہ بچہ پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دے رہا ہے اس کے ہوم ورک مکمل نہیں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بچہ آج کل فیس بک استعمال کر رہا ہے ڈانٹ کے اس منظر کو دیکھ کر مجھے وہ ڈانٹ یاد آئی جب ہم لڑکپن کی عمر میں تھے تب ہم اسکول کی ہاسٹل سے بھاگ کر گلی کے نکڑ والے سنوکر کلب، کیرم بورڈ کلب جاتے تھے تو ہمیں محترم اساتذہ و ہاسٹل وارڈن کی جانب سے اسی طرح ڈانٹ پڑتی تھی اور ہمیں یہ سمجھایاجاتا تھا کہ سنوکر کلب یا کیرم بورڈ کلب نہ جائیں کیونکہ وہاں موالی اور چرسی آتے ہیں مگر اس وقت ہم اس بات کو نہیں سمجھتے تھے۔
ڈانٹ کے باوجود کیرم بورڈکلب اور سنوکر کلب جاتے تھے مگر جب تھوڑے بڑے ہوئے تب ہمیں اس بات کا شعور آیا کہ سنوکر کلب میں جو میرو چرسی اور اس کے دوست آتے تھے ان کو چرسی اسی لئے کہتے تھے کیونکہ وہ چرس پیتے تھے اور چرس کیا چیز ہے اس کی تعارف کیلئے میرے خیال میں یہ جملہ ہی کافی ہے کہ چرس وہ شئے ہے جو انسان کو چرسی بنادیتا ہے شاید ہمارے محترم اساتذہ و ہاسٹل وارڈن ہمیں چرسی نہیں بنانا چاہتے تھے تب ہمیں سنوکر اور کیرم بورڈ کلب جانے سے منع کرتے تھے وہ دراصل ہمیں سنوکر یا کیرم بورڈ سے دور رکھنا نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ ہمیں میرو چرسی اور اس کے دوستوں سے دور رکھنا چاہتے تھے اور میرو چرسی اور اس کے دوستوں سے دور رکھنے کا طریقہ یہی تھا کہ ہمیں سنوکر یا کیرم بورڈ کلب جانے سے روک دیا جائے۔
کیونکہ اس علاقے میں یہ ایک ناممکن بات تھی کہ میرو چرسی کے علاوہ کسی یونیوورسٹی کا کوئی پروفیسر یا کسی میڈیکل کالج کا کوئی طالب علم، کسی مدرسے کا کوئی عالم دین یا فوج کا کوئی کرنل، کوئی معروف صحافی، کوئی محقق، کوئی سائنسدان،کوئی ادیب یا پھر کوئی ڈاکٹر بھی انہی کلبوں میں سنوکر یا کیرم بورڈ کھیلنے آ جاتا ہوتا کہ ہمارے اساتذہ میرو چرسی سے دور رکھنے کیلئے ہمیں یہ تلقین کرتیں کہ بیٹا آپ میرو چرسی یاکسی اور کے ساتھ کھیلنے کے بجائے پروفیسر الف ،جیم ایڈوکیٹ، ڈاکٹر شین یا پھر مولانا غین کے ساتھ کھیلنا تاکہ کھیلتے کھیلتے ان سے کچھ اچھی چیزیں بھی سیکھنے کو بھی مل جائیں کیونکہ ہمیں مکمل یقین ہے کہ وہ ہمیں سنوکر یا کیرم بورڈ سے نہیں بلکہ میرو چرسی سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ کیونکہ کچھ دن بعد طلباء کیلئے ہاسٹل میںہی کیرم کھیلنے کا انتظام کیا گیا۔
Snooker Club
تو یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ کیا گلی کے نکڑ والے اس سنوکر کلب کی طرح فیس بک پر بھی میرو چرسی کا راج ہے اور موصوف اس بچے کو اس وجہ سے ڈانٹ رہے تھے کیونکہ وہ اس کو فیس بکی میرو چرسیوں سے دور رکھنا چاہتے تھے کیونکہ اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ سوشل میڈیا مثلا فیس بک یا ٹویٹر وغیرہ پر کوئی منفی کام نہیں ہوتا ہے جہاں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ہر شئے کا ایک مثبت استعمال ہے تو ایک منفی استعمال بھی ہے بالکل اسی طرح سوشل میڈیا کا بھی منفی استعمال ہے جو کہ کافی نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے لیکن اس بات سے انکاربھی نا ممکن ہے کہ جہاں فیس بک پر میرو چرسی بھی موجود ہیں مگر وہاں پروفیسر الف، جیم ایڈوکیٹ، ڈاکٹر شین، اور مولانا غین بھی فیس بک پر موجود ہیں بجائے اس کے آپ بچے کو ڈانٹ کر فیس بک سے دور رکھیں تاکہ وہ میرو چرسیوں سے محفوظ رہیں والدین اور اساتذہ کو چاہئے کہ وہ بچوں کو سوشل میڈیا (فیس بک، ٹویٹر وغیرہ ) کے مثبت استعمال کا شعور دیں تاکہ بچے میرو چرسی کے بجائے فیس بک یا ٹویٹر پر پروفیسر الف ،جیم ایڈوکیٹ ،ڈاکٹر شین یا مولانا غین کے ساتھ منسلک رہیں اور ان سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کریں وہ فیس بک یا ٹویٹرپر ایسی سرگرمیوں میں حصہ لیں جو ان بچوں میں بیداری شعور کے ساتھ ساتھ علم، عمل اور جستجو کا باعث بنیں اور بچوں کو تدریس و تحقیق کی جانب راغب کریں کیونکہ علم اور تعلیم کا مطلب ہوم ورک مکمل کرنا یا کچھ کتابی جملے رٹ کر امتحان میں پہلی پوزیشن کا حصول نہیں بلکہ ہر وہ عمل تعلیم ہے جس سے کچھ مثبت سوچنے مثبت سمجھنے اور مثبت سیکھنے کو مل جائے ویسے بھی اگر آپ کسی مریض کو اس ڈر سے کھانا نہ کھلائیں کہ اگر اس نے کھانا کھا لیا تو اس کے پیٹ میں در ہوگی تو اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر آپ نے کھانا نہیں کھلایا ہے تو اب اس کے پیٹ میں درد نہیں ہوگی بلکہ کچھ عرصے کے بعد اس کے پیٹ میں بھوک کی وجہ سے بھی درد ہو گی۔
جب بھوک کی وجہ سے اس کا پیٹ درد کرلے گا تب اس کے پاس جو کچھ بھی رکھا ہوگا وہ کھالے گا اور وہ کھانا اس کیلئے پیٹ درد سے بھی ذیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں تواس سے پہلے کہ نوبت یہاں تک آجائے کہ وہ بھوک سے کچھ بھی کھالے اوراس کے اثرات انتہائی منفی ہوں آپ اس مریض کو اس کی صحت کے مطابق کھاناکھلادیں تاکہ اس کھانے کے مثبت اثرات مرتب ہوں بالکل اسی طرح اگر سوشل میڈیا پر موجود میرو چرسیوں سے بچوں کو بچانے کیلئے والدین اور اساتذہ ان کو ڈانٹیں گے تو اس کابھی ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ بچے فیس بک یا ٹویٹر کا استعمال ہی چھوڑ دیں گے بلکہ اساتذہ اور والدین کی ڈر سے اب وہ چھپ چھپ کراس کا استعمال کریں گے اور یہ دنیا کی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر کوئی کام چھپ کر کیا جائے تو اس میں مثبت اور منفی کا تمیز پھر ختم ہوجاتا ہے کیونکہ اس کو چھپ کرہی اس لئے کیا جاتا ہے کہ اس کو منفی سمجھا جاتا ہے اور جب کسی کام کو منفی سمجھ کر کیا جائے تو اس کے مثبت استعمال کی طرف جانے والے تمام راستے بند ہوجاتے ہیں۔
اس کے اثرات بھی انتہائی منفی ہوسکتے ہیں تو والدین و اساتذہ بچوں کو سوشل میڈیا کے میرو چرسیوں سے بچانے کیلئے انہیں زبردستی اس کے استعمال سے روکنے کے بجائے اس کے مثبت استعمالات اور اثرات کے بارے میں بچوں کو آگاہی دیں اور اس کے منفی استعمال کی صورت میں اس کے منفی اثرات و نقصانات کابھی شعور دیں اور ہمہ وقت انکی نگرانی و رہنمائی بھی کریں اور حکومت کو بھی چاہئے کہ نصابی کتابوں میںاب مواصلات (Communication) سے متعلق اسباق میںفرسودہ ریڈیو اور خط کے علاوہ سوشل میڈیا جیسے جدید مواصلاتی ذرائع کے متعلق بھی طلباء کو آگائی دیں تاکہ ہم اور ہماری نسلیںشعوری طور پر فیس بک سمیت تمام سوشل میڈیا و دیگر جدید مواصلاتی ذرائع کے مثبت پہلووں سے مستفید ہوجائیں اور منفی پہلووں سے گریز کریں۔