تحریر: ایم آر ملک شاہراہ پر ماںتھی کہ دہائیاں دے رہی تھی اور اس کی بات سننے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ ایک عام شاہراہ تھی جس پر ایک ماں کا اکلوتا بیٹا خون میں لت پت پڑا تڑپ رہا تھا۔ ممتا کے سر سے دوپٹہ ڈھلک گیا تھااور خون میں لت پت بیٹے کا سر اُس کی گود میں تھا وہ بار بارجائے حادثہ پر کھڑے لوگوں کے سامنے ہاتھ جوڑتی اور یہ کہتی کہ میرے بیٹے کیلئے کوئی گاڑی لے آئے مگر ممتا کی پکار پر کان دھرنے والے سارے افراد بے بس تھے کوئی نہ تھا جس کے پاس گاڑی ہوتی اور وہ ایک ممتا کے جذبات کی آبیاری کرتا پھر اچانک اُس کے کانوں میں ایک سائرن کی آواز پڑی اس سے پہلے کہ وہ گاڑی کی طرف دیکھتی گاڑی اُس کے لہو لہان بیٹے کے پاس آکر رک چکی تھی۔
ایک ڈاکٹر سمیت عملہ گاڑی سے باہر آیا خون میں لت پت بے ہوش نوجوان کوا اُٹھایا ،ابتدائی طبی امداد دی زخمی کو لیکر چلنے کیلئے جب گاڑی کے پہیئے حرکت میں آئے تو ممتا نے کہا میں بھی ساتھ چلوں گی ۔گاڑی چند منٹوں میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے گیٹ پر تھی سبز وردی میں ملبوس نوجوانوں نے زخمی کو اُٹھایا اور ایمرجنسی میں داخل ہو گئے ۔فرسٹ ایڈ کے بعد زخمی نوجوان کو ایک بیڈ پر لٹا دیا گیا بڑی دیر کے بعد میں اور میرا دوست جب اُس نوجوان کی خیریت وعافیت دریافت کرنے پہنچے تو اُس کی حالت خطرے سے باہر تھی اور وہ ہوش میں آچکا تھا اب اُس کے چہرے پر زندگی کے آثار نمایاں تھے ۔ اپنے بیٹے کے سرہانے بیٹھی ماں پرویز الٰہی کو دعائیں دے رہی تھی میں نے اُس کے بیٹے کی خیریت دریافت کرنے کے بعد جب یہ استفسار کیا کہ ماں تم اپنے بیٹے سے زیادہ پرویز الٰہی کو دعائیں کیوں دے رہی ہو؟ ۔
بوڑھی ماں نے جو اُردو نہیں جانتی تھی جھریوں زدہ چہرہ جس پرحیرت کی پرچھائیاں تھیں جیسے میں نے کوئی غلط سوال کر دیا ہو بولی۔ پتر توں نئیں جاندا میں دعاواں پرویز الٰہی نوں کیوں دین ڈئی آں ؟(بیٹے تم نہیں جانتے میں پرویز الٰہی کو دعائیں کیوں دے رہی ہوں )میرے جواب سے پہلے ہی وہ گویا ہوئی اور کہنے لگی کہ ”پُتر پرویز الٰہی نہ ہوندا تے پتہ نہیںآنسو موتیوں کی طرح رخساروں پر گرنے لگے کنیاں ماواں دی گود خالی ہو جاندی۔ چوہدری پرویز الٰہی کا دور ایک فلم کی طرح میرے پردہ بصارت پر چلنے لگا۔ مجھے ٹریفک کے 1046048 حادثات میں ریسکیو کے نوجوانوں کی باہیں تڑپتے انسانوں کو اُٹھاتی نظر آئیں۔ سبز وردیوں میں ملبوس وہ مسیحا نظر آئے جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے سیلاب میں گھری بے یارو مدد گار انسانیت کو بچایا ،مجھے پرویز الٰہی کا محفوظ پنجاب کا وہ تصور یادآیا جس نے سنسان شاہراہوں پر 1124 کے نوجوان محافظوں کے ذریعے مسافروں کے عدم تحفظ کے احساس پر ضرب لگائی۔
Trauma Center
مجھے جنوبی پنجاب کے اضلاع میں ترقیاتی کاموں کا ایک جال نظر آیا جس نے یہاں کے ہر فرد ،ہر باسی کے ذہن سے احساس محرومی کو کھرچ کے مٹا ڈالا۔ مجھے اپنے ضلع میں 14 کروڑ کی کثیر لاگت سے تعمیر ہونے والی ٹراما سنٹر کی وہ عمارت کھڑی نظر آئی جسے جدید طبی سہولتوں سے آراستہ پرویز الٰہی نے محض اس لئے خیبر تا کراچی جانے والی ایک بڑی شاہراہ کے کنارے قیام کو یقینی بنایا کہ روڈ ایکسیڈنٹ میں نشتر ہسپتال تک جاتے جاتے کئی مائوں کی گودیں ،کئی سہاگنوں کے سہاگ اُجڑ جاتے ،کئی بچے شفقت پدری اور ممتا جیسے عظیم رشتے سے محروم ہو جاتے 56 ۔کنال رقبے پر مختص راولپنڈی اور پشاور سے ملتان تک یہ واحد مرکز مسیحائی تھا شاہراہ کے کنارے جہاں تڑپتی انسانیت کو زندگی کی سانسیں ملتیں مگر ایک لیگی وزیر نے اس کے تمام انسٹرومنٹس ،لوازمات اس لئے ختم کرادیئے، اسے تحصیل ہسپتال کے درجے تک تنزلی محض اس لئے دلائی کہ جنوبی پنجاب کے اس بڑے مرکز مسیحائی کا کریڈٹ اُس کے مخالف چوہدری الطاف کو جانے کا خدشہ تھا جانے کیوں سیاست میں ہم عوامی مفادات پر پائوں رکھکر ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں ۔
مجھے پرویز الٰہی کا وہ احساس یاد آیا جس نے محروم بچوں کیلئے روشن کل کی نوید دی مجھے یاد آیا کہ پرویز الٰہی نے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے قیام کو یقینی بنا کر لاوارث ،بھکاری اور گھر سے بھاگے بچے کو تحفظ دیا اور اس کیلئے 1121 کے نام سے ہیلپ لائن رکھی ۔ مجھے جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا تدارک ملتان میں پرویز الٰہی کارڈیالوجی ہسپتال ،چلڈرن کمپلیکس ہسپتال ،نشتر ہسپتال ایمرجنسی بلاک ،ماڈرن برن یونٹ ،ڈینٹل کالج کی شکل میں نظر آیا ۔مجھے یہ بھی نظر آیا کہ پرویز الٰٰہی کارڈیالوجی ہسپتال کے فنڈز محض اس لئے بند ہو گئے کہ اُسکی پیشانی پر پرویز الٰہی کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے ۔یہ پرویز الٰہی کا ہی دور تھا جس میں پنجاب کے 36 اضلاع میں فنڈز کی مساویانہ تقسیم نظر آئی۔
1122 Rescue
مخالفین چوہدری پرویز الٰہی کی جتنی چاہے کردار کشی کرلیں ،اُن کے سیاسی حریف ان کے خلاف جتنا منہ کھولیں انسانیت کیلئے چوہدری پرویز الٰہی کے یہ وہ کام ہیں جو صدقہ جاریہ سے کم نہیں 1122 کی بروقت سروس کے دوران میں روزانہ ایسی مائوں کو دیکھتا ہوں جو جھولیاں اُٹھا کر پرویز الٰہی کی زندگی کی دعائیں مانگتی ہیں۔ بے جاتنقید ہمارا معاشرتی المیہ بن چکا ہے ہم اس دنیا میں آتے ہیں ،بہت سا وقت گزار دیتے ہیں ہربرس کے ہر مہینے ،ہر مہینے کے ہر ہفتے ،ہر ہفتے کے ہر دن ہزاروں لمحات گزارتے ہیں مگر یہ لمحا ت اکثر انسانیت کی خدمت سے عاری ہوتے ہیں سیاست میں عدم برداشت اس نہج تک جا چکی ہے کہ اب اقتدار ذاتی خواہش کی تکمیل کا نام بن کر رہ گیا ہے میں گزشتہ دنوں اندرون شہر لاہور گیا وہاں عوام کے یہ تاثرات ابھی تک الفاظ کی شکل میں میری سماعت سے ٹکرا رہے ہیں کہ پرویز الٰہی کا دور ایک مثالی دور تھا ،وزیراعلیٰ ہائوس کے دروازے ہر مسائل زدہ شہری کیلئے کھلے ملتے ،اور وزیر اعلیٰ تک ایک عام شہری کی رسائی یقینی تھی