تحریر: طارق حسین بٹ عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جنگ پنگ کا ٢٠ اور ٢١اپریل کو دورہ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل تھا جس نے پورے خطے کے خدو خال کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ دورہ کسی بڑے سیاسی دھماکے سے کم نہیں تھا تو بے جا نہ ہو گا۔اس ایک دورے نے پاکستان کی پہچان کو نئے سرے سے استوار کیا ہے اور پاکستان کا ایک نیا امیج دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جسے دنیا انتہائی تجسس سے دیکھنے کی کوشش کر رہی ہے کچھ تو حسد کی آگ میں جل رہے ہیں اور کچھ فرطِ جذبات میں پھولے نہیں سما رہے کہ ان کے دوست اور ہمدرد کی نئی آن بان کا نظارہ دنیا کو دیکھنا نصیب ہو رہا ہے۔
ایسے لگ رہا ہے کہ پاکستان اس دورے کے بعد انتہائی اہم پوزیشن پر براجمان ہو گیا ہے اور اس کی پہچان ایک عالمی طاقت کے طور پر ہونے لگی ہے جبکہ اس سے قبل پاکستان کو ایک مصائب میں گرے ہوئے ملک کی صورت میں دیکھا جا رہا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے دنیا میں انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے کیونکہ پورا شرق البعید اب اس کی دسترس میں ہوگا۔اس کی ایک جانب افغانستان، ایران اور چین کی سرحدیں ہیں تو دوسری جانب مشرقِ وسطی سے متصل ہونے کی وجہ سے عالمی معاملات میں اس کا ایک خاص مقام متعین ہے جسے دنیا کی کوئی بھی کوئی قوم کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتی۔پاکستان کا ایک بڑی طاقت ہونے کا ثبوت سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی پاکستان سے فوجی اعانت کی استدعا کی صورت میں سب کے سامنے ہے جسے پاکستانی حکومت نے فی الحال التوا میں رکھا ہوا ہے کیونکہ حکومت دوسرے ممالک کے معاملات میں دخل اندازی کو عالمی قوانین کی تحقیر تصور کرتی ہے ۔اگر پاکستان ایک بڑی فوجی قوت نہ ہوتا توسعودی عرب کو کیا مجبوری تھی کہ وہ یمن کی حالیہ جنگ میں پاکستان سے غیر مشروط فوجی مدد کی اپیل کرتا؟پاکستانی فوج اپنی پیشہ راوانہ صلاحیت کی وجہ سے پوری دنیا میں مانی جاتی ہے جس کی وجہ سے پوری اسلامی دنیا اسے پیشہ وار انتہائی عز ت کی نگاہ سے دیکھتی اور اس کی اعانت کی طلبگار رہتی ہے۔
اب چینی صدر نے ا پنے دورے سے پاکستان کی اسٹریجک پوزیشن کی اہمیت کو مزید دو چند کر دیا ہے ۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پہلے دس ممالک میں شمار ہوتا ہے۔اس کا رقبہ اس کے چارموسم ،اس کی فوجی قوت،اس کی زرعی قوت،اس کی معدنیات،اس کے دریا،اس کی بندرگاہیں اور اس کے ذہین اور محنت کش افراد ور اس کے بے پناہ ٹیلنٹ کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کی پوری دنیا معترف ہے۔ایٹمی قوت ہونے کا اسے جو اعزاز حاصل ہے اس نے اسے دشمنوں کی نگاہوں میں ناقابلِ تسخیر بنا رکھا ہے اور وہ اس کی ایٹمی صلاحیت سے خائف ہیں لہذا وہ اسے اس ایٹمی جوہر سے محروم کرنے کے ناپاک منصوبے بناتے رہتے ہیں لیکن پاکستان ایسے ہر قسم کے عزائم کے سامنے پوری قوت سے ڈٹا ہوا ہے اور اپنے ایٹمی پروگرام کو کسی بھی حالت میں رول بیک کرنے کیلئے تیار نہیں۔ امریکی دبائو کی وجہ سے ایرانی قیات کو ایٹمی توانائی کے معاملے پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا لیکن پاکستان ایسے کسی بھی دبائو کے سامنے جھکنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ اسے بھارت جیسے مکار دشمن کا سامنا ہے جس کیلئے اس کے پاس ایٹمی قوت کا ہونا ضروری ہے۔اگر پاکستان کے پاس ایٹمی قوت نہ ہوتی تو بھارت ہمیں کب کا ہڑپ کر چکا ہوتا اور ہماری حا لت بھی سکم اور بھوٹان جیسی ہوتی۔ہماری ایٹمی صلاحیت در اصل برِ صغیر میں امن کی ضمانت ہے کیونکہ بھارت کو خوف ہے کہ اگر پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو ایٹمی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے جس سے بھارت بھی صفحہِ ہستی سے مٹ سکتا ہے۔اپنے مٹ جانے کا یہی خوف بھارت کے جارحانہ عزائم کو روکے ہوئے ہے۔ ہمارے کچھ نام نہاد ترقی پسندوں کو جو امریکہ کی زبان بولتے نہیں تھکتے انھیں پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
Pakistan Nuclear Power
وہ ایٹمی پروگرام پر ہونے والے مصارف کو عوام کی فلا ح و بہبود کے تناظر میں دیکھتے ہیں جو کہ درست سوچ نہیں ہے۔ملکی استحکام اور یکجہتی فلاح و بہبود کے تصور سے نہیں بلکہ اس سامانِ حرب سے جڑی ہوتی ہے جو کسی بھی قوم کے پاس ہوتے ہیں ۔اسی جنگی نقطہ نظر کو اللہ تعالی نے قرآنِ حکیم میں اپنے ہی انداز میں بیان کیا ہے جب کہا کہ مومنین دشمن کو مرعوب کرنے کیلئے اپنے گھوڑے ہمیشہ تیار رکھتے ہیں اور وہ کسی بھی حالت میں کاہلی اور سستی کا اظہار نہیں کرتے تا کہ دشمن انھیں کمزور سمجھ کر ان پر حملہ آور نہ ہو جائے۔
ایسے اوصاف کی موجودگی میں چینی صدر نے جس طرح پاکستان کو سٹریجیک پارٹنر بنا کر پیش کیا ہے اس سے دنیا کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی ہیں۔بھارتی قیادت میں تو صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔وہ تو خود کو جنوبی ایشیا کا چیمپین سمجھ رہا تھا لیکن چینی صدر کے دورے کے بعد جو نئی صورتِ حال پیدا ہوئی ہے اس نے بھارتی قیادت کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔امریکہ تو بھارت کو چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو کم کرنے کے لئے تیار کر رہا تھا تاکہ چین کو صنعتی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے روکے۔لیکن چینی صدر کے دورے سے اس کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔بھارت کا غصہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ چینی صدر نے ایک ہی وار سے اس کی ساری بازی الٹ کر رکھ دی ہے۔چینی قیادت کے ساتھ جب پاکستانی قیادت کھڑی ہو گئی تو دنیا کو احساس ہوا کہ پورے جنوبی ایشیا کی تقدیر ان ان دونوں ممالک کے ہاتھوں میں ہے۔اللہ اس نئی پارٹنر شپ کو قائم رکھے تا کہ جنوبی ایشیا کا مقدر بدل جائے اور عوام خو شخالی کا نیا دور دیکھیں۔،۔
Xi Jinping and Nawaz Sharif
پاک چین دوستی کا کا کمال یہ ہے کہ یہ عوام کے دلوں میں جا گزین ہے اور عوام کے قلب ونگاہ میںموج در موج اپنی موجودگی کا احساس اجاگر کر ہی ہے۔وہی دوستی معتبر اور پائیدار ہوتی ہے جو عوام کی دھڑکنوں میں زندہ ہو اور پاک چین دوستی اس معیار پر پوری اترتی ہے۔ساٹھ کی دہائی سے شرع ہونے والی یہ دوستی وقت کے امتحانوں سے سرخرو ہو کر نکلی ہے اور وقت کے ساتھ مضبوط ہو تی جا رہی ہے۔ مجھے اس وقت ساٹھ کی دہائی میں چینی وزیرِ اعظم چوئین لائی کا دورہِ پاکستان یاد آرہا ہے جس میں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمند انھیں خوش آمدید کہنے کیلئے سڑکوں پر نکل آیا تھا۔ایسا فقید المثال استقبال کسی بھی لیڈر کو آج کل نصیب نہیں ہو سکا۔یہی وجہ ہے کہ پاک چین دوستی کو سمندروں سے زیادہ گہری ،پہاڑوں سے زیادہ بلند، شہد سے زیادہ میٹھی ،لوہے سے زیادہ مضبوط اور کرنوں سے زیادہ روشن کہا جاتا ہے جو آنے والی نسلوں کا مقدر بدل کر رکھ دے گی۔اس دوستی کا ایک شاہکار تو شاہرہِ ریشم کی شکل میں پہلے ہی موجود ہے لیکن اس دفعہ گوادر سے کاشغر تک جو راہ گزر تعمیر کی جا رہی ہے وہ دنیا پر ترقی کے نئے دروازے کھول دیگی۔
کمال یہ ہے کہ اس راہ گزر پر ان دونوں ممالک کے علاوہ کوئی تیسرا ملک نہیں ہے جو اپنی سازشوں سے اس منصوبے کے عزائم کو خاک میں ملا سکے لہذا تجارتی سرگرمیاں بڑی سرعت سے شروع ہو جائیں گی۔ علامہ اقبال نے کئی عشرے قبل کہا تھا کہ(ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے۔۔۔نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر)۔ مسلم امہ تو شائد متحد نہیں ہو سکی لیکن چین نے امتِ مسلمہ کے سب سے بڑے ملک پاکستان کے ساتھ مل کر کاشغر تک راہ گزر بنانے کا اعلان کر کے کاشغر کو ایک خاص مقام بخش دیا ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ علامہ اقبال نے یہ شعر کس تناظر میں کہا تھا لیکن اس وقت یہ شعر وقت کی سب سے بڑی سچائی بن کر سامنے آیا ہے۔ کاشغر آنے والے دنوں میں ایک انتہائی اہم مقام بن کر سامنے آئے گا اور شاعرِ مشرق کی دور اندیشی کو ہدیہ تبریک پیش کرے گا ۔چینی صدر نے بھی علامہ اقبال کے تصورِ خودی سے اپنی محبت اور وابستگی کا کھلا اظہار کیا۔ ان کے خطاب میں علامہ اقبال کے اشعار کی جھلک دیکھی جا سکتی تھی جو اس عظیم شاعر سے چینی قیادت کی بے پنا ہ عقیدت کا برملا اظہار تھا۔،۔
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ۔۔۔۔ہما لہ سے چشمِ ابلنے لگے گیا دور سرمایہ داری گیا۔۔۔۔۔تماشہ دکھا کر مداری گیا