تحریر: آصف لانگو جعفر آبادی ایک چھوٹے سے شہر میں ایک غریب لڑکا اپنے تعلیمی اخراجات پورا کرنے کے لئے گھر گھر جا کر چیزیں فروخت کرتا تھا، ایک دن اس کی کوئی بھی چیز فروخت نہیں ہوئی۔ بھوک کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو رہی تھی لیکن وہ کسی سے کچھ مانگنے کی حمت نہیں کر رہا تھا ایک پر اس نے دستک دی تو دروازہ ایک نوجوان عورت نے کھولا، اس نے لڑکے کی شکل دیکھ کر بھانپ لیا کہ وہ بہت ہی زیادہ بھوکا ہے۔ خاموشی سے بغیر سوال کئے لڑکے کو دودھ کا گلاس دیا ، دودھ پی کر عورت سے لڑکے نے دودھ کی قیمت دریافت کی تو عورت نے کہا ” ہمدردی اور مہربانی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ” لڑکا شکریہ ادا کر کے چلا گیا۔ اس با ت کو ایک عرصہ گزر گیا وہ عورت ایک شدید قسم کی بیماری میں مبتلا ہو گئی ، اس کی بیماری کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی، شہر کے سب سے بڑے ڈاکٹر سے رجوع کیا گیا ، ڈاکٹر نے اسے دیکھا اور ایک نظر میں پہچان لیا، اس نے پوری توجہ سے اس کا علاج کیا ، کچھ ہی دنوں میں بیمار عورت تندرستی کی جانب گامزن ہوگئی اور اس کی جان خطرے سے باہر آ گئی۔
ڈاکٹر نے اسپتال والوں سے کہا کہ اس عورت کا بل اسے بھجوا دیا جائے ، اسپتال والوں نے بل بھجوا دیا ، بل ڈاکٹر کے پا س پہنچا تو ڈاکٹر نے بل کے ایک کونے پہ کچھ لکھا اور بل کا لفافہ عورت کو ارسال کر دیا ۔ عورت سخت پریشان تھی کیونکہ اس کے پاس اتنی رقم موجود نہ تھی جتنا علاج و معالجہ کیا گیا ہے ، جب بل کا لفافہ اس عورت کو ملا تو اس نے ڈرتے ڈرتے بل کا لفافہ کھولا ، عورت کا خیال تھا کہ اس بل کی ادائیگی کے لئے اسے اپنے آثا ثے فروخت کرنا ہونگے۔ بل پر ایک جملہ لکھا تھا۔۔۔۔ ”مکمل ادائیگی، ایک گلاس دودھ” زندگی میں بے لوثی سے کیا گیا کوئی بھی کام کبھی رائیگاں نہیں جاتا ، جو کچھ ہم کرتے ہیں ، اچھا یا برا اس کا بدل جلد یا دیر ہمیں ضرور ملتا ہے ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ بغیر کسی صلے کی تمنا کے کسی کی خوشی کے لئے کسی سے ہمدردی کے لئے نیکی کی جائے۔
کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبال وہ کون سا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پروردگار سے
Help
موجودہ دور میں کسی کی مدد کرنا انتہائی مشکل کام بن چکا ہے خصو صاََ پاکستان میں حالات کے مد نظر کسی کی مدد کرنا لوگ جرم تصور کرتے ہیں ۔ رات کی مثال لے لیں تو خدانخواستہ رات کے وقت ایک شخص انتہائی بیمار ہو یا ایمرجنسی میں ہو روڈ پر کھڑا سواری کی انتظار میں ہو تو اسے کوئی لفٹ نہیں ملتا ہے اس کی مدد کے لئے کوئی بریک لگا کر مشکلات کا نہیں پوچھے گا کیونکہ رات کے اوقات میں پورے پاکستان میں لوٹ مار ، چور اور قتل کا بازار عام ہے لوگ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ ہم سے بریک لگواکر گاڑی چھینیں گے تو نہیں یا اُسے اغوا ء ہونے کا ڈر ہوتا ہے بجائے بریک کے اللہ اللہ اللہ کر کے تیزی سے نکل جاتا ہے ۔ یا کہیں کسی غریب یا پڑوسی کو کچھ رقم کی ضرورت ہوتی ہے تو لوگ یہ سوچ کر نہیں دیتے کہ کہیں بندہ پیسے ہڑپ ہی کر نہ لے ۔ دروازے پر مجبور کو دیکھ کی ہم اُسے نظر انداز کرتے ہیں کہ یہ جان بوجھ کر بھیک مانگ رہا ہے ۔ ہم کسی کی مدد کرنے کو ہر گز تیار نہیں ہوتے ہیں ۔ بحرحال پاکستان کی حالات کو حکمران پر امن بنائیں تو لوگ شاید رات کے وقت کسی کی مجبوری کو دیکھ کر اُسے مدد فرمائیں یا دروازے پر فقیر کو بھائی سمجھ کر اُس کی مددکی جائے ۔
”جیسی کرنی تو ویسی بھرنی ” بہت مشہور ہے اس بارے میں اللہ پاک نے قران مجید میں بھی فرمایا ہے کہ اس دنیا میں جیسے اعمال کروگے آ خرت میں ویسا ہی صلہ ملے گا ۔ اچھے اور نیک کام کروگے تو اچھا پھل ملے گا اور برے کام کروگے تو برا ہی ملے گا۔ انسان کسی مدد کرے یہ نہ سوچے کہ اس سے کیا فائدہ ملے گا بلکہ اللہ کی رضا کی خاطر کسی کی مدد کرے تو اللہ ضرور اُس کی پریشانی کے وقت کسی نہ کسی طریقے سے مدد فرمائے گا۔ جیسا کہ ایک مزدور جو ابھوک سے نڈرتھا ایک خاتون نے دودھ پلا کر اُس کی پریشانی دور کی تو اللہ نے ”جیسی کرنی تو ویسی بھرنی ” کی حساب سے اُس خاتون کی مدد اُسی لاچار اور غریب آ دمی سے علاج کی شکل میں کروایا۔ تو اللہ پاک کسی کی محنت ضائع نہیں کرتے ہیں ہاں دیر یا سویر ہوتا رہتا ہے۔ انسان صبر کا دامن پکڑے راکھے تو دیر بھی سویر ہی لگے گی۔ کہتے ہیں کہ نیکی کمانے کا اصل وقت جوانی ہے مگر حیران کن بات یہ ہے کہ ہم نیکی اسوقت کرتے ہیں جب برائی کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ بحرحال : ہمیں ہر وقت کسی مجبور و مظلوم کی مدد کرنی چاہئے تاکہ اللہ رب العالمین اُس مجبور شخص کے صدقے میں ہمیں تکالیف سے بچائے اور کسی مجبور کی مدد کی وجہ سے ہمیں مجبوری سے بچائے رکھے۔