تحریر: سید مبارک علی شمسی حضرت علی کا قول ہے کہ مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ وہ اللہ سے اپنا حق طلب کرتا ہے اور مظلوم کے اور خدا کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ مہذب قومیں اپنے لیئے ہمیشہ عادل حکمرانوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ مظلوموں اور غریبوں کی داد رسی ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے وہ کسی بھی صورت ظالموں کی حمایت نہیں کرتے پوری دنیا میں جتنے بھی ممالک ہیں چاہے وہ عالم اسلام ہویا مغربی دنیا، یورپی یونین ہو یا سمندری جزیروں کے باشندے، یا پھر وہ دنیا کے نقشے پر ابھرا ہوا کئی ملک ہو، ہر سلطنت کی اپنی اپنی ثقافت ، اپنے اپنے رہن سہن کے طریقے، مختلف قاعدے اور نظم و ضبط اور علیحدہ علیحدہ قوانین ہوتے ہیں اور تعزیت کے تحت سزائوں کے شیڈول اور دورانیے بھی مختلف ہیں۔ مگر ترقی کی شاہراء پر وہی ممالک گامزن ہوتے ہیں جو جرائم سے پاک ہوتے ہیں اور امن وامان کی فضا ان ریاستوں میں قائم ہوتی ہے۔
جہاں عدل وانصاف کا بول بالا ہو، عدلیہ آزاد ہو اور قانون کی لاٹھی ہر چھوٹے بڑے ، امیر و غریب، وڈیرے، جاگیردار اور جرم کے مرتکب افسر شاہی پر یکساں برسے اور انہیں قانون کی گرفت میں لا کر اپنے منتقی انجام تک پہنچائے ۔ اس کے برعکس جن ملکوں کے اندر قانون میں رنگینی ہوتی ہے اور قانون صرف اور صرف غریبوں اور ناداروں پر لاگو ہوتا ہے جہاں ملزموں کو سزائیں نہ دی جاتی ہوں بلکہ سزائیں معاف کر کے انکی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو ، جہاں اندھیر نگری ہو، جہاں جاگیرداروں اور وڈیروں کی شاہی قائم ہو، جہاں میڈیا کا گلا دبا کر ریاست کے چوتھے ستون کو گرانے کی سازشیں شروع ہوں، جہاں ہر محکمہ کرپشن کا شکار ہو ، جہاں توانائی بحران ہو اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو، لاقانونیت عروج پر ہو اور پولیس سیاسی آقائوں کی پرستش کرتی ہووہاں نت نئی ظلم و جبر اور بربریت کی داستانیں جنم لیں گی تو اور کیا ہوگا؟ اورایسے ہی حالات کا شکار (جن کا ذکر کر چکا ہوں) ہمارا وطن عزیز پاکستان ہے۔
Brutality
جہاں اگیر دار اپنی دولت اور طاقت کے بل بوتے پر غریبوں پر ظلموں تشدد کر کے قانون کی دھجیاں اڑا کر دندناتے پھرتے ہیں انہیں ہماری پولیس گرفتار کرنے سے گریزاں ہے۔ آپکی توجہ پنجاب کے شہر گجرات کے نواحی چک بھولا میں رونما ہونے والے واقعہ کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جہاںمقامی زمیندار غلام مصطفی عرف خاکوانی نے 10 سالہ یتیم شہزاد پر ذاتی رنجش کی بنا پر ظلم کرک ے اک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ اس وقعہ پر ہر غیر تمند شہر ی کی آنکھ اشکبار ہے۔ گجرات کی پولیس نے تو مقامی جاگیر دار کے خلا ف کاروائی کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ معصوم بچے کے بازو کاٹنے والے درندہ صفت کو پولیس پارٹی کی حمایت حاصل تھی۔
یہ تو خدا بھلا کرے ہمارے خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کا جنہوں نے نہ صرف اس واقع کا ازخود نوٹس لیا بلکہ خود وہاں پہنچے اور معصوم بچے کی عیادت کرتے ہوئے 10 لاکھ امداد کا اعلان بھی کیا اور FIR تاخیر سے درج کرنے پر DPO گجرات کو OSD جبکہ DSP ،SHO اور ایم ایس کو عہدوں سے برطرف کر دیا۔ جس سے گجرات پولیس کی نااہلی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ہر واقعے کا نوٹس وزیراعلیٰ پنجاب نے ہی لینا ہے تو پھر پولیس کس چیز کی مراعات لے رہی ہے۔ پولیس کو منصفانہ طریقہ اپنانا ہو گاتب جا کر خطے میں امن و امان قائم ہو گا اور ایسے انسانیت سوزواقعات میں کمی آئیگی۔ مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ گرات سابق صدر فضل الہٰی کا شہر ہے۔ انقلاب کے خواہاں چوہدری برادران نے وہاں جانے کی زحمت تک نہیں کی ۔
Punjab
مشہور بزرگ دین شاہ دولہ دریائی کی دعائوں کے طفیل پنجاب کے مردم خیز اور پررونق میجر عزیز بھٹی شہید، عنائیت حیسن بھٹی، سوہنی مہینوال اور مولانا ظفر علیخان کے شہر دریائے چناب کے کنارے واقع سرسبز و شاداب گجرات کی فضائیں بھی اس انسانیت سوز واقع پر سوگوار ہیں اور ماتم کناں ہیں۔آئیں ہم سب ملکر ظالموں کے خلاف آواز بلند کرکے ملک میں امن و امان کی فضاء قائم کرتے ہیں۔ بقول شاعر۔ کچھ نہ کنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے۔
تحریر: سید مبارک علی شمسی ای میلmubarakshamsi@gmail.com