تحریر : پروفیسر رفعت مظہر پی ٹی آئی خواجہ سعد رفیق کے حلقے NA-125میںدوبارہ الیکشن کے حکم کو بارش کاپہلا قطرہ قراردے رہی ہے اور توقع یہ کہ اب موسلادھار بارش بھی ہوگی ۔یوںتو توقع باندھنے میںکوئی حرج نہیں لیکن اکثرایسا بھی ہوتاہے کہ گھنگھور گھٹائیںاُٹھتی ضرورہیں لیکن ہواؤںکے دوش پرسوار ہوکر بِن برسے ہی گزرجاتی ہیں۔تحریکِ انصاف کے دھرنے ،جلسے ،جلوس اورریلیاں گھنگھور گھٹائیںہی توتھیں جوپاکستانی سیاست میںکوئی قابلِ ذکرہلچل پیداکیے بغیراُفق کے اُس پارگُم ہوگئیں۔ پھربادل کاایک چھوٹاسا ٹکڑا نمودارہوا جس سے بارش کاصرف ایک قطرہ گراجس نے ایک دفعہ پھرتحریکِ انصاف کی آشاؤںاور اُمیدوںکے سارے دیپ روشن کردیئے ۔اُمیدِبہار رکھناتحریکِ انصاف کاحق ہے لیکن یادرہے کہ جب آشاؤںکے گھروندے کرچی کرچی ہوتے ہیںتو تکلیف بھی بہت ہوتی ہے۔
بخداہمیں تحریکِ انصاف سے ذاتی مخاصمت ہے نہ بطورسیاسی جماعت ناپسندیدگی کی کوئی وجہ ۔یہ عین حقیقت ہے کہ نوازلیگ اورپیپلزپارٹی کے مقابلے میںابھرکر سامنے آنے والی تحریکِ انصاف اِس لحاظ سے ملکی سیاست کے لیے نیک شگون ہے کوئی توہو جوحکمرانوںکی غلط پالیسیوںپرنوک ٹوک کرسکے اوراُنہیں ”صراطِ مستقیم”پررکھنے کی سعی ۔پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خاںصاحب سے لاکھ اختلاف کے باوجودہم آج بھی اُنہیںایک ایساقومی ہیروسمجھتے ہیںجس نے پاکستان کے لیے نہ صرف ورلڈکپ جیتابلکہ شوکت خانم کینسرہسپتال اورنمل یونیورسٹی جیسے کارنامے بھی سرانجام دیئے ۔لاہورکے بعداب پشاورمیں بھی شوکت خانم کینسرہسپتال تکمیل کے آخری مراحل میںہے۔
خاںصاحب کے اِن رفاعی کارناموںکی جتنی بھی تعریف کی جائے ،کم ہے لیکن یہ ضروری تونہیں کہ کسی ایک میدان کاشہسوارہرمعاملے کا مردِمیدان ثابت ہو۔ دشتِ سیاست کی سیاحی کرتے خاںصاحب کوانیس برس بیت گئے لیکن تاحال ہم جیسے کم فہموں کو اِس کی سمجھ نہیںآئی۔اب توخاںصاحب کے عاشقِ زار”کالمی درویشوں”والے صاحب بھی بَرملا اقرارکرتے رہتے ہیںکہ خاںصاحب کوسیاست کی سوجھ بوجھ نہیں۔پریشانی تو اُس وقت ہوتی ہے جب خاںصاحب اپنے انہی کارناموںکو سیاست میںخلط ملط کرنے کی کوشش کرتے اور”حصولِ مقصد”کے لیے وہ کچھ کہہ جاتے ہیںجس پربعد میںسوائے ندامت کے کچھ ہاتھ نہیںآتا ۔ماضی کے فاسٹ باؤلرکا غصّہ ہمیشہ اپنی انتہاؤںکو چھوتانظر آتاہے حالانکہ سیاست تونام ہی افہام وتفہیم کاہے اورفہم وتدبرکا تقاضہ بھی یہی کہ انسان اپنے دوستوںمیں اضافہ کرے ،دشمنوںمیں نہیںلیکن خاںصاحب کی نگاہوںمیں توکوئی جچتاہی نہیں۔
Imran Khan
گلگت بلتستان میں اُنہوںنے ایک ہی بال سے کئی وکٹیںاڑانے کی کوشش کی ۔وہ بیک وقت نوازلیگ ،پیپلزپارٹی ،اے این پی ،متحدہ قومی موومنٹ اورجمیعت علمائے اسلام پرگرجتے برستے رہے۔ اُن کے اِس غصّے کی بھینٹ اپنے پرائے سبھی چڑھتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوںاُنہوں نے یہ کہہ کراپنی ہی پارٹی پر”باؤنسر”پھینک دیاکہ کیونکہ اُن کی جماعت کوکوئی لیڈڑمیسر نہیںاِس لیے وہ منظم نہیںہوسکی۔ خواجہ سعدرفیق کے حلقہ 125 میںدوبارہ الیکشن کاحکم ہواتو خاںصاحب نے ایک لمحے کی تاخیرکیے بغیر 2015ء کوالیکشن کاسال قراردینے جیسا ”نعرۂ مستانہ” بلندکر دیاجس پرخواجہ سعدرفیق نے کہاکہ خاںصاحب توچاہتے ہیںکہ جب وہ سوکر صبح اُٹھیںتو وزیرِاعظم ہوں ۔ بہترہوتا کہ خاںصاحب الیکشن ٹربیونل کے تفصیلی فیصلے کاپہلے مطالعہ کرتے ،دوستوں اوروکلاء سے مشورہ کرتے اورپھر کوئی بیان جاری کرتے ۔یہ تفصیلی فیصلہ اپنی نوعیت کاشاید واحدفیصلہ ہے جسے مسلم لیگ نوازاور تحریکِ انصاف اپنے اپنے حق میںکیا جانے والافیصلہ قراردے رہی ہیں۔
یہ فیصلہ اب سپریم کورٹ میںچیلنج ہوچکا حالانکہ جذباتی خواجہ سعدرفیق دوبارہ ”لنگوٹ”کَس کرمیدان میںاترنے پربضد تھے لیکن جب اکابرینِ نوازلیگ نے اُنہیںیہ سمجھایاکہ اگروہ دوبارہ الیکشن میںجاتے ہیںتواِس کاصاف مطلب یہ ہوگاکہ اُنہوںنے یہ تسلیم کرلیا کہ حلقہ 125 میںواقعی شدیدنوعیت کی بے ضابطگیاں ہوئیں ۔تب کہیںجا کرخواجہ رفیق شہیدکے بیٹے نے سپریم کورٹ کارُخ کیا۔ پتہ نہیںہمارے کپتان صاحب کویکایک کیا سوجھی کہ اُنہوںنے بیٹھے بٹھائے نادرا آفس کارُخ کرلیا ۔چیئرمین نادرانے خاںصاحب کوقومی سطح کالیڈر گردانتے ہوئے آٹھ ،دس منٹ کی ملاقات بھی کرلی لیکن ملاقات کے بعدخاںصاحب نے نادرا آفس کے سامنے پریس کانفرنس ”کھڑکا”دی۔
اُنہوںنے صحافیوں کے سوالوںکا جواب دیتے ہوئے تین نکات کابار بارذکر کیااور کاغذات کاپلنداہوا میںلہراتے ہوئے فرمایاکہ یہ نادراکی پری سکین رپورٹ ہے جس میںشدیدترین بے ضابطگیوںکی نشاندہی کی گئی ہے۔پریس رپورٹرنے یہی جاناکہ خاںصاحب کووہ رپورٹ چیئرمین نادرانے دی ہوگی اِس لیے کسی نے بھی رپورٹ کے حصول کی بابت سوال نہیںکیا اورنہ ہی خاںصاحب نے وضاحت کی ۔خاںصاحب کی اِس پریس کانفرنس کے بعدچیئرمین نادرا کو ایک ہنگامی پریس کانفرنس بلانی پڑی جس میںاُنہوںنے وضاحت کی کہ خاںصاحب نے جوکچھ کہا ،اُس کاتو سارے فسانے میںکوئی ذکرہی نہیںتھا۔
Osman Yusuf Mubeen
اُنہوںنے فرمایاکہ خاںصاحب کونہ کوئی پری سکین رپورٹ دی گئی اورنہ ہی اِس سلسلے میںکوئی بات ہوئی ۔اِس آٹھ ،دس منٹ کی ملاقات میں خاںصاحب نے رپورٹ کی تکمیل میںتاخیرکی وجہ پوچھی جس پراُنہیں مطمئن کردیا گیا۔ اگلے روزنادرا آفس کی جانب سے ایک وضاحتی بیان جاری ہواجس میںتحریکِ انصاف کا نام لیے بغیریہ بتلایاگیا کہ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے یہ غلط تاثرپیش کرنے کی کوشش کی گئی کہ حلقہ 122 کی پری سکین رپورٹ میں30 پولنگ سٹیشنزمیں ڈپلیکیٹ سیریل نمبرزکی کاؤنٹرفائلز کی نشاندہی کی گئی ہے۔
وضاحتی بیان میںکہا گیاکہ اِس قسم کی کوئی ایک مثال بھی پری سکین رپورٹ میںموجودنہیں ۔اِس تاثرکو بھی غلط قراردیا گیاکہ 50 پولنگ سٹیشنزکے بیلٹ پیپرزمخصوص تھیلوںمیں نہیںتھے ۔وضاحتی بیان میں یہ بھی کہاگیا کہ ایک حلقے کی جانب سے اِس بات کاتاثر دیناسرے سے غلط ہے کہ حلقہ 122 میںجعلی بیلٹ پیپراستعمال کیے گئے ۔نادراکے ترجمان نے کہاکہ پری سکین رپورٹ میںکسی واحدمثال کاتذکرہ بھی نہیںہے کہ ایسی کوئی بیلٹ پیپربُک پکڑی گئی ہوجو الیکشن کمیشن نے جاری نہ کی ہویا حلقہ NA 122 کے لیے مختص نہ کی گئی ہو۔نادراترجمان کی اِس وضاحتی بیان کے بعد خاںصاحب سے یہ پوچھاجانا چاہیے
آخراُنہوں نے کس بنیادپر صحافیوںکے سامنے اُن تین نکات کاذکر کیاجنہیں نادراترجمان نے مکمل طورپر بے بنیادقراردیا ۔خاںصاحب نے یہ وضاحت توکر دی کہ اُنہیںپری سکین رپورٹ نادراآفس سے نہیںبلکہ ٹربیونل سے ملی تھی لیکن یہ سوال اپنی جگہ کہ خاںصاحب حلقہ 122 میںخود ایک فریق ہیںاور کیاکسی بھی فریق کویہ زیب دیتاہے کہ وہ یوں چوری چھُپے ”آفیشل ریکارڈ”کے حصول کی تَگ ودَوکرے۔