تحریر : کامران غنی 9مئی 2015 کی رات میرے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھی۔ صبح ہی میں اپنی جائے ملازمت ”چک نصیر” ضلع ویشالی سے واپس آیا تھا۔ تب میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ قمر عالم صاحب سے یہ میری آخری ملاقات ہوگی۔ رات تقریباً دس بجے اسکول کے ہیڈ ماسٹر شاہ نواز احمد صاحب کا فون آیا ۔انھوں نے قمر عالم صاحب کے انتقال کی خبر دی۔ مجھے اپنی سماعتوں پر بالکل بھی بھروسہ نہیں ہو رہا تھا۔ صبح تک تو وہ بالکل اچھے خاصے تھے۔ کل رات ہی تو ان سے بات ہوئی تھی۔ قمر عالم صاحب کے انتقال کی خبر نے مجھے سکتے میں ڈال دیا تھا۔ میری اتنی بھی ہمت نہیں ہو پارہی تھی کہ میں ان کے اہل خانہ سے فون کر کے تفصیلات پوچھ سکوں۔ قمر عالم صاحب(مرحوم) نہ کوئی شاعر تھے نہ ادیب۔ وہ کوئی استاد یا دانشور بھی نہ تھے۔ کھیتی باڑی کرنے والے ایک عام سے انسان تھے لیکن میرے لیے تو وہ کسی مربی و محسن سے کم نہ تھے۔ سن 2013 میں ویشالی ضلع کے ایک چھوٹے سے گائوں ”چک نصیر” کے گورنمنٹ مڈل اسکول میں میری جوائننگ ہوئی تھی۔ دہلی کی بھاگ دوڑ بھری زندگی سے آکر اچانک گائوں کی تھمی تھمی سی زندگی میں ایڈجسٹ کر پانا میرے لیے انتہائی مشکل سا تھا۔
میں پٹنہ سے روزانہ آنا جانا کرتا تھا۔مجھے جلد ہی یہ احساس ہوگیا تھا کہ روزانہ کی آمدو رفت میرے لیے انتہائی مشکل ہے۔ میں نے اسکول کے مقامی اساتذہ سے کہہ رکھا تھا کہ میرے لیے گائوں میں ہی رہنے سہنے کا انتظام کرا دیا جائے۔ چند روز بعد قمر عالم صاحب خود ہی اسکول تشریف لے آئے۔ اُس روز اتفاق سے میں چھٹی میں تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مجھے اپنے مکان میں رکھنا چاہتے ہیں۔ میں ان کے گھر گیا۔ انھوں اپنے گھر کا ایک کمرہ دکھایا اور کہا کہ آپ چاہیں تو بخوشی یہاں رہ سکتے ہیں۔ ایسا کشادہ مکان ۔۔میں تو باہر سے ہی دیکھ کر یہ دعا کر رہا تھا کہ کاش صاحب مکان مجھے رکھنے کے لیے تیارہو جائیں۔میں نے فوراً حامی بھر لی۔ اب کرایہ کا مسئلہ تھا۔ میں نے جیسے ہی کرائے کی بات کرنی چاہی انھوں نے بات بیچ میں ہی کاٹ دی اور انتہائی بے باکی سے کہنے لگے کہ ”اگر آپ کرایا دینے کے خواہش مند ہیں تو کوئی اور مکان دیکھ لیں، میں نے اپنا گھر کرایا وصولنے کے لیے نہیں بنایا ہے۔” قمر صاحب کا انداہ ہی کچھ ایسا تھا۔
ان کے دل اور زبان میں کوئی تفاوت نہیں تھا۔ جو سوچتے تھے وہ کہتے تھے۔اتنا اچھا مکان میں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ میں تیار ہو گیا۔ قمر صاحب اس بات پر راضی ہو گئے تھے کہ میں اپنا کھانا خود بنائوں گا۔ جلد ہی کچھ سامان کے ساتھ میں وہاں مقیم ہو گیا۔ ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گذرا تھا کہ ایک روز اچانک قمر صاحب تحکمانہ انداز میں گویا ہوئے ”ماسٹر صاحب! آج سے آپ کو کھانا ہم لوگوں کے ساتھ کھانا ہے۔” میں پہلے سے ہی ان کے احسان کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔ اب مزید ان پر بوجھ ڈالنا مجھے انتہائی غیر اخلاقی سا محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے انھیں ہزار سمجھانے کی کوشش کی، انھیں یاد دلایا کہ پہلے تو آپ تیار تھے کہ میں اپنا کھانا خود بنائوں گا، اچانک آپ کو کیا ہو گیا؟ قمر عالم صاحب نے میری ایک نہیں سنی ، بس اتنا کہا کہ” اُس وقت آپ نئے تھے اور ہم لوگ نئے لوگوں کو پہلے پرکھتے ہیں۔
Relation
”کچھ دنوں بعد میں اپنی والدہ کو ان کی اہلیہ سے ملانے لے گیا کہ شاید وہ انھیں راضی کر لیں لیکن بات نہ بن سکی۔ تب سے وہ میرے کھانے کا نہ صرف خیال رکھتے بلکہ جب میںاپنے گھر(پٹنہ) آتا تو اکثر و بیشتر اپنے کھیت کی سبزیاں، آم ، لیچی وغیرہ بھی ساتھ کر دیتے۔ قمر عالم صاحب نہ میرے رشتہ دار تھے اور نہ کوئی پرانے شناسا لیکن انھوں نے مجھے اپنے رشتہ داروں اور شناسائوں سے کہیں بڑھ کر محبتیں دیں۔ اُن کا یہ اخلاق صرف میرے ساتھ ہی خاص نہ تھا بلکہ اپنے یہاں آنے والے ہر مہمان کے ساتھ وہ اسی طرح پیش آتے۔وہ اکثر میرے روم میں تشریف لاتے اور گھنٹوں بیٹھ کر مذہبی و سیاسی گفتگو کرتے۔ ان کے لہجے میں غضب کی بے باکی تھی۔ جو بات دل میں آتی بول دیتے تھے۔
دو سال کی ملازمت کے دوران کئی بار ایسا بھی وقت آیا جب میں نے ملازمت چھوڑ دینے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ قمر صاحب جب کبھی میرے چلے جانے کی خبر سنتے تو افسردہ سے ہو جاتے اور کہتے کہ ” اگر آپ کسی اونچے پوسٹ پر جا رہے ہیں تو شوق سے چلے جائیے میں آپ کو بالکل بھی نہ روکوں گا لیکن اگر آپ کسی دوسرے اسکول میں جانے کے لیے اس گائوں کو چھوڑ رہے ہیں تو ایسا ہرگز نہ کیجیے۔ آپ اگر گئے تو گائوں کا بچہ بچہ آپ کے لیے روئے گا۔ پھر اللہ نے آپ کو مسلمانوں کے بچوں کو کسی قابل بنانے کا موقع دیا ہے۔ آپ اس موقع کو غنیمت سمجھئے۔”کیا معلوم تھا کہ مجھے سمجھاتے سمجھاتے دوسروں کو روتا چھوڑ کر وہ خود اتنی دور چلے جائیں گے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔آج اس طرح اچانک ان کے چلے جانے کے بعد میں جس کیفیت سے گذر رہا ہوں اسے بیان کرپانا میرے بس سے باہر ہے۔
محض دو سال کی مدت میں قمر صاحب نے مجھے محبتوں اور خلوص کے بوجھ تلے اس قدر دبا دیا کہ آج میں خود کو ان کی محبتوں کا مقروض محسوس کر رہا ہوں۔ شاید کہ ان کے یتیم بچوں کو زیور علم سے آراستہ کر کے میں اس بوجھ کو کچھ ہلکا کر پائوں۔ قمر عالم صاحب مرحوم ایک انسان تھے۔ یقینا ان سے غلطیاں اور کوتاہیاں بھی ہوئی ہوں گی۔ اللہ ان کی کوتاہیوں کو درگزر فرمائے۔ ان کی اچھائیوں کو قبول کر کے انھیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے ۔ ان کی اہلیہ ، بچوں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے۔