اسلام آباد (جیوڈیسک) فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ماتحت ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو نے اربوں روپے کا کالا دھن دبئی منتقل کرنے کیلیے دبئی کے ریئل اسٹیٹ گروپ ’’دماک پراپرٹیز‘‘سے رابطہ کرنے والے 700 پاکستانیوں کا سراغ لگا لیا۔
’’ دستاویز کے مطابق ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈانویسٹی گیشن نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیاہے کہ پاکستانیوں کی جانب سے دبئی بھجوایا جانے والا کالادھن سوئس بینکوں میں موجود پاکستانیوں کے کالے دھن سے 10 گنا زیادہ ہے اور دبئی اس وقت پاکستان سے کالا دھن بھجوانے کاسب سے بڑا حب بنا ہواہے۔
رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ دماک پراپرٹیز کاشمار یو اے ای کے پراپرٹی کے شعبے میں بڑے گروپ کے طور پر ہوتا ہے،اس گروپ کاچیئرمین حسین سجوانی یو اے ای کا شہری ہے،2005 میں دماک گروپ نے پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کی اور یہ ایف بی آر کے پاس این ٹی این نمبر 2274651-0 کے تحت بطور نان ریذیڈنٹ ٹیکس دہندہ رجسٹرڈ ہے تاہم گروپ کی طرف سے ایف بی آر کے پاس انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کروائے جا رہے جو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 114(1)(VII)کی خلاف ورزی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ ماہ کراچی کے مقامی ہوٹل میں لگنے والی نمائش کے معائنہ کے موقع پرڈی جی آئی اینڈآئی ان لینڈریونیو کی ٹیم نے وہاں موجود’’دماک پراپرٹیزکوایل ایل سی‘‘کے ڈائریکٹرسیلز ثمرالحداد سے ملاقات کی اور جب ان سے پوچھا گیا کہ فروری2014میں ڈی جی آئی اینڈآئی ان لینڈریونیو کے خط پر تحریری یقین دہانی کے باوجود پاکستانی سرمایہ کاروں کی تفصیلات کیوں فراہم نہیں کی گئیں تووہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
اس کے علاوہ جب ان سے یہ پوچھاگیاکہ پاکستانیوں کی جانب سے دبئی میں خریدی اوربک کروائی جانے والی پراپرٹی کیلیے اربوں روپے کی ادائیگیاں بیرون ملک کیسے منتقل کی جاتی ہیں اوریہ کہ جو رقوم بیرون ملک منتقل کی گئی ہیں کیا انھیں چیک کیا گیا کہ وہ قانونی تھیں یا کالا دھن تھا تو دماک کے ڈائریکٹر اس کا بھی کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے جس پرڈی جی آئی اینڈ آئی ان لینڈ ریوینیو نے کالادھن دبئی منتقل کرنے والے پاکستانیوں کا سراغ لگانے کیلیے’’آپریشن ڈیزرٹ‘‘ کے نام سے کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا جو انتہائی کامیاب رہا اور اس دوران کالادھن دبئی منتقل کرنیوالے 700 پاکستانیوں کا سراغ لگایا گیا جن میں سے بہت سے لوگ فرنٹ مین کا کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ ان کے پیچھے کچھ بڑے لوگ ہیں۔
ڈی جی آئی اینڈ آئی کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اسٹیٹ بینک کوبینکنگ چینلز کے ذریعے فنڈزکی منتقلی پر مزید شرائط عائد کرنی چاہیے اور یہ کہ ایف آئی اے کو حوالہ اورہنڈی سسٹم کے ذریعے رقوم کی منتقلی کیخلاف کریک ڈاؤن کرنا چاہیے۔ ڈی جی آئی اینڈ آئی کی سفارشات پر حکومت گلف ممالک میں ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے نام پر سرمائے کی پاکستان سے منتقلی روکنے کیلیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے پر غور کر رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ کے اس کیس کی تفصیلات وزیرداخلہ چوہدری نثار کو بھجوانے کی تجویزدی گئی ہے تاکہ اس دھندے میں ملوث لوگوں کیخلاف کارروائی کیلیے تحقیقاتی ایجنسیوں کے حکام پر مبنی خصوصی ٹیم تشکیل دی جاسکے تاہم بااثر حلقوں کی جانب سے یہ کیس سردخانے کی نذر کرنے کیلیے ایف بی آر پردباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
پاکستانیوں کی جانب سے دبئی کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں2014 کی پہلی سہ ماہی کے دوران1.3 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے پہلے یہ معاملہ 20 جنوری 2015 کو چیئرمین نیب کو خط لکھ کر اٹھایا تھا۔
فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے دماک پراپرٹیزکی جانب سے مقامی اخبارات میں تسلسل کے ساتھ پورے صفحے کے اشتہار پر بھی شدید تحفظات ظاہر کیے تھے جس میں ریئل اسٹیٹ میں غیرملکی سرمایہ کاری کی ترغیب دی جارہی ہے۔