تحریر: میر افسر امان ”پاک ہے وہ جو لے گیاایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں”(سورةبنی اسرائیل:١) یہاں ایک تو مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ کا ذکر ہے جو مکہ کے اندر واقع ہے اور دوسرا مسجد اقصیٰ کا ذکر ہے جو بیت ا لمقدس فلسطین کے اندر واقع ہے۔ رسولۖاللہ جب مکہ مکرمہ سے مدینہ ہجرت کر کے گئے تو سب سے پہلے مسجد قبا کی بنیاد رکھی تھی۔ اس سے اسلام میں مسجد کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ایک امام کے پیچھے تمام لوگ نماز ادا کرتے ہیں اس سے نظم و اطاعت کا درس ملتا ہے۔
مسجد قبا مدینہ سے تقریباً ڈھائی میل کے فاصلہ پر ہے۔اس کے بعد مدینہ میںمسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی ۔ اللہ نے اپنے پیغمبروں اور اس سلسلے کی آخری کڑی رسولۖاللہ کو مبعوث ہی اس لیے کیا تھا کہ وہ انسانوں کو اللہ کا حکم پہنچائیں ۔اللہ کے احکامات پر عمل کر کے انسانوں کے سامنے عملی مظاہرہ کریں تاکہ قیامت کے دن لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم اللہ کے احکامات پر عمل نہیں کر سکتے تھے جب تک اللہ کا نمایندہ جو ایک انسان ہو ہمیں عمل کر کے سکھائے نہیں۔ جب صحابہ کے سامنے اللہ کے احکامات پر رسولۖ اللہ نے عمل کر کے دکھایا اور صحابہ کرام نے اُن احکامات پر من و عن عمل کرنا شروع کیا تو منشا خداوندی پورا ہو گیا۔ آج مسلمان اللہ کے احکامات پر جتنا بھی عمل کر رہے ہیں وہ اللہ کے رسولۖ نے عمل کیا اور پھر صحابہ نے بھی اسی طرح عمل کیا جیسے رسول ۖاللہ نے صحابہ کو سکھایا تھا۔
آج مسلمان جو پانچ وقت کی نماز مسجد میں جا کر ادا کر رہے ہیں یہ اللہ کے رسولۖ نے صحابہ اکرام کو عملاً پڑھ کر دکھائی تھی جس پر من و عن عمل ہو رہا ہے۔مسجد اللہ کا گھر ہے۔ سب سے پہلی مسجد حرام اللہ کے حکم سے حضرت آدم نے مکہ میں بنائی تھی۔ابراہیم نے اپنے زمانے میں اس کو دوبارہ تعمیر کیا تھا۔جو آج تک قائم ہے اور ان شااللہ جب تک دنیا قائم ہے یہ مسجد بھی قائم رہے گی۔ اس کی افادیت کا اندازہ کریں کہ اللہ کے حکم کے مطابق ہر سال ایک مقررہ دن اور تاریخ پر دنیا کے مسلمان مکہ مکرمہ جاتے ہیں اور مسجد حرام کا طواف کرتے ہیں۔ حج جو اللہ کی طرف سے ہر مسلمان جو اس کی استطاعت رکھتا ہے پر فرض کیا گیا ہے ۔اسلام میں سب سے بنیادی ادارہ جس کو معاشرتی اور ثقافتی نظام میں اہمیت حاصل ہے وہ مسجد ہے۔ اس میں تمام ادارے ضم ہیں۔چنانچہ ہجرت کے بعد سب سے پہلے اللہ کے رسولۖ نے مسجد قبا کی بنیاد رکھی۔ اس میں نماز کا اہتمام کیا۔ لوگوں کو نماز کی ادائیگی کے لیے بلانے کے لیے اذان کا طریقہ سکھایا۔اسلامی مملکت میں مسجد عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔
Prayer
تمام اہل محلہ دن میں پانچ وقت اس میں جمع ہوتے ہیںاور اپنی اجتماعی اور اتحادی قوت کو بڑھاتے ہیں۔رسولۖ کے وقت میں مساجد جا ل بچھ چکا تھااور مدینہ میں نو مسجدیں قائم ہو چکی تھیںاور عرب کے گوشے گوشے میں مساجد بنتی جا رہی تھیں۔آج بھی دنیا میں مسلمانوں کی جو نئی بستی وجود میں آتی ہے اس میں مسجد کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اسلام میں مسجد کو دینی اور سیاسی اہمیت حاصل تھی۔رسولۖ اللہ کے دور میں مسجد میں کیا کیا کام ہوتے تھے اور آج اسلامی دنیا میں مساجد میں کیا کیا کام ہوتے ہیں اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو بات کچھ اس طرح ہے کہ رسولۖ اللہ کے دور میںمسلمانوں کی فلاح وبہبود کے عام امور کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مسجد مدرسہ اور درس گاہ بھی تھی۔مسجد نبوی کے ساتھ صفہ کا چبوترہ جس میں صحابہ رسولۖ اللہ سے علم و دانش سیکھتے تھے اور پھر مدینہ سے باہر وفود کی شکل میں رسولۖ اللہ کے ہدایات پر جا کر لوگوں کو اللہ کا دین سکھاتے تھے۔
مسجد میں قوم کے تمام اہم معاملات طے ہوتے تھے۔سارے جنگی اور دفاعی صلاح مشورے اور جنگ کے لئے فوجوں کو احکامات دیے جاتے تھے۔مسجد میں ہی مہمان خانہ تھا۔ دارالشوریٰ، پارلیمنٹ ہائوس، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے وفود کی اجتماع گاہ ،مقدمات اور تنازعات کاتصفیہ بھی مسجد میں ہوتا تھا۔مسلمانوں کی سپریم کورٹ اور عدالت بھی مسجد ہی تھی۔ باہر ملکوں میں رسولۖ اللہ کے سفیروں کو بھی مسجد سے ہی روانہ کیا جاتا تھا۔یہی تربیت تھی جس نے مسلمانوں کو غیر معمولی کردار کا پیکر بنا دیا تھا۔ مسجد کے ادارے سے تربیت پا کر مدینہ کی عظیم فلاہی ریاست وجود میں آئی تھی اور ٩٩ سال کے اندر اندر اس وقت کے معلوم بر اعظموں کے پون حصے پر اسلامی حکومت قائم کر دی تھی ۔عبادت و معاملات کے مشترک نظام، دین دنیا، مذہب و معاشرت، روحانیت و ثقافت کے یکجا ہونے کا پختہ تصور مسجد سے ہی ملتا ہے۔
تعزیرات،حلال وحرام کے احکامات مسجد سے ہی ملتے تھے۔یہ تھی مسجد کی شاندار تاریخ جو اب ختم ہو گئی ہے۔ اب مساجد صرف بے جان سے عبادت کے لیے رہ گئیں ہیں۔اب مساجد سے صرف کسی کے مرنے اور جنازے کا اعلان ہوتا ہے ۔ معاشرتی اور ثقافتی کام نہیں ہوتے۔ جہاد کا اعلان نہیں ہوتا۔اذانیں ہو رہی ہیں مگر روح بلالی نہیں ہے۔مسلمان نمازیں پڑھ رہے ہیں مگر نماز کی خصوصیت کہ وہ بے حیائی اور فحاشی کو روکتی ہے ،بے حیائی اور فحاشی روک نہیں رہی بل کہ آئے روز بڑھ رہی ہے۔نماز مسلمانوں کی قوت اور اتحاد کی مظہر ہے مگر مسلمانوں میں قوت و اتحاد نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ تفرقہ بازی ہے لسانیت ہے قومیت ہے علاقاعیت ہے۔ نہیں ہے تو مسلمانیت نہیں ہے۔
دشمن قوتیں ساری دنیا میں مسلمانوں پر چڑھ دوڑی ہیں۔ مسلمانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹ رہیں ہیں۔ مسلمان ہیں کہ خواب غفلت سے جاگ نہیں رہے۔ دنیا کی دولت مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔آبادی بھی زیادہ ہے دنیا کا ہر چوتھا انسان مسلمان ہے۔سارے سمندری گزر گائیں مسلمانوں کے قبضے میں ہیں۔ سارے اہم ہوائی راستے مسلمان ملکوں کے اوپر سے گزرتے ہیں۔ دنیا کے بہترین اور زرخیز خطوں میں مسلمان آباد ہیں۔ دنیا میں ٥٧ آزادمسلم ریاستں موجود ہیں۔دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت مسلمان ملک کے پاس ہے۔عام مسلمان اپنے دین پر مر مٹنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔دنیا پر ہزار سال مسلمانوں نے حکومت کی ہے۔ کیا کچھ نہیں ہے!ہاں نہیں ہے تو صرف مسلمان لیڈر شپ نہیں ہے۔آج کوئی محمد قاسم نہیں۔ صلاح الدین ایوبی نہیں۔ کوئی طارق بن زیاد نہیں اور کوئی قائد اعظم جناح نہیں۔ اے کاش کہ کوئی نجات دہندہ مسلمانوں میں پیدا ہو جائے اور ہماری مساجد کو وہی مقام حاصل ہو جو اسلام کے شروع دور میں تھا۔ مسلمان دنیا میں سرخ رو ہوں اور کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کریں۔ اللہ مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر: میر افسر امان کالمسٹ کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان (سی سی پی)