پاکستان ترقی کی شاہراہ پر

Electronic Media

Electronic Media

تحریر: پروفیسر مظہر
ماؤزے تنگ نے کہا”سو طرح کے پھولوں کو بہارد کھانے دو، سو طرح کے افکار کو مقابلہ کرنے دو۔ خوشبو وہی حاوی ہوگی جو بہتر ہے، رنگ وہی غالب آئے گا جو حقیقی ہو گا۔ روشنی زمان و مکاں کی پابند ہوتی ہے نہ خوشبو اس لیے یہ طے کہ سچ کی خوشبو پھیلے گی اور عدل کی روشنی بھی۔ شگفت بہار کی ترسی ہوئی قوم اِس انتظار میں کہ” میزان عدل” کس کو کھرا قرار دیتی ہے اور کسے کھوٹا، کس کا وجود باد نسیم کے جھونکوں سے معطر ہوتا ہے اور کون باد سموم کے ہاتھوں راندۂ درگاہ۔ جوڈیشل کمیشن کی تیزی اورتیز رفتاری کو مدنظر رکھتے ہوئے یقین ہوچلا کہ دودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہونے کو ہے۔

ہم تویہی سمجھتے ہیں کہ قوم نے نوازلیگ کوہی اپنے مینڈیٹ سے نوازا لیکن اگراعلیٰ ترین عدالت کافیصلہ کچھ اورہوگا توبدبخت ترین ہوگاوہ شخص جونوازلیگ کی حمایت میںاپناقلم آلودہ کرے گا۔حیرت مگریہ کہ جابجا عدالتیںسج چکیں،الیکٹرانک میڈیاکے اینکرزججز کے فرائض سنبھال چکے اوربلائے جانے والے مہمان” مَن بھاتی” تشریحات میںمصروف،حالانکہ جب معاملہ عدالت میںہوتاہے توفیصلہ آنے تک اُس پربحث نہیںکی جاسکتی لیکن ہماراالیکٹرانک میڈیاتو ماشااللہ کچھ زیادہ ہی آزاد وبے باک اورپیمرا خوابِ خرگوش کے مزے لوٹتی ہوئی۔عدالتیںبھی اِس ”میڈیائی احتساب”سے نالاںاور تنبیہ کرتی ہوئی لیکن کسی پرپرکاہ برابر بھی اثرنہیں۔جب نوازلیگ اورتحریکِ انصاف، دونوں جوڈیشل کمیشن پرمتفق توپھریہ ”شاہراہی عدالتیں”کیوں؟۔ اگرفیصلے سڑکوںیا نیوزچینلز پرہی ہونے ہیںتو پھرعدالتی نظام ٹھپ کردیں۔درست کہا وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد نے کہ ”ججزاُن کوشٹ اپ کال کیوںنہیں دیتے۔

خاںصاحب کی عدالت توہر روزکسی نہ کسی جگہ سجتی ہے ۔اُنہوںنے چارروز پہلے نادراآفس کے سامنے کچھ کاغذات لہراتے ہوئے فرمایاکہ ”یہ نادراکی پری سکین رپورٹ ہے”۔پھرصحافیوں کے سامنے اُس رپورٹ کے مندرجات کے بارے میںجوکچھ کہا نادرا کی رپورٹ سامنے آنے پر سب جھوٹ ثابت ہوااورپتہ چلاکہ جوکچھ خاںصاحب فرمارہے تھے اُس کاتو پورے” افسانے ”میںکہیں ذکرتک نہ تھا۔ پھربھی خاںصاحب کی پیشانی عرقِ ندامت سے تَرنہ ہوئی البتہ اُنہوںنے اُن 93ہزارووٹوں کوجعلی قراردے دیاجن کے بارے میںنادرانے لکھاکہ انگوٹھوںکے نشانات کی تصدیق ممکن نہیں۔ اب خاںصاحب فرماتے ہیںکہ وہ ایک ایک شناختی کارڈکی خود پڑتال کریںگے کیونکہ اُنہوںنے 26 لاکھ روپیہ جمع کروایاہوا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نادرانے کہیںبھی نہیںلکھا کہ حلقہ 122 کے 93852 ووٹ جعلی تھے ۔نادرانے نہ صرف اِن ووٹوںکی تصدیق کی بلکہ یہ بھی بتایاکہ اِن ووٹرز کے شناختی کارڈاصلی تھے جوکہ اسی حلقے میںرجسٹرڈتھے اورہر ووٹرنے درست پولنگ سٹیشن پرووٹ ڈالا البتہ جن کاؤنٹرفائلز کااستعمال کیاگیا ،نادرا اُس کی تصدیق نہیںکر سکاکیونکہ اِن کاؤنٹرفائلز پر ثبت انگوٹھوںکے نشانات کامعیار ناقص تھاجس کی بناپر نادراکا AFIS نظام اِن ووٹوںکی تصدیق نہیںکر سکا۔ اب خاںصاحب نے شناختی کارڈزکی خودتصدیق کرنے کااعلان فرمادیا گویااُنہیں نادراپر بھی اعتماد نہیں۔اُنہوںنے تویہ بھی کہاکہ ”نادراکے تصدیق شدہ 70 ہزاربیلٹ پیپرزمیںسے کم ازکم 15 ہزارجعلی ہیں”۔ سوال یہ ہے کہ اگر خاںصاحب کے مطابق حلقہ NA-122 میںصرف 55 ہزاربیلٹ پیپرہی ”اصلی” ہیںباقی سب جعلی اوریہ بھی کہ یہ تمام درست (55 ہزار)ووٹ صرف اورصرف خاںصاحب ہی کے بیلٹ بکس کی زینت بنے اورباقی سب اُمیدواروںکوصفر ووٹ ملے۔ توپھراِس حساب سے تو خاںصاحب کے حاصل کردہ 84 ہزار ووٹوں میں 26 ہزار جعلی قرارپاتے ہیں۔

Election

Election

کیا خاںصاحب قوم کویہ بتانا پسندکریں گے کہ اُنہوںنے یہ ”جعلسازی” کیسے اورکس کے ذریعے سے کی؟۔اگرخاںصاحب نے دھاندلی نہیںکی توپھر 26 ہزار جعلی ووٹ کیافرشتے ڈال گئے ؟۔حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اُس مقناطیسی سیاہی کاشاخسانہ ہے جو پی سی ایس آئی آرنے الیکشن کمیشن کومہیاکی ۔2013ء کے الیکشن کے بعد پارلیمنٹ کے ابتدائی اجلاسوں میںہی وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد نے پارلیمنٹ میںخطاب کرتے ہوئے یہ واضح کردیاتھا کہ اگرکسی بھی انتخابی حلقے کے ووٹوںکے انگوٹھوںکے نشانات کی نادراسے تصدیق کروائی جائے تووہ وثوق سے کہہ سکتے ہیںکہ ہرحلقے میںپچاس سے ساٹھ ہزارانگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق نہیںہوسکتی جس کی ایک وجہ توانتخابی عملے کی نااہلی اوردوسری ناقص مقناطیسی سیاہی کا استعمال ہے۔

محترم خاںصاحب کادعویٰ تھا کہ اُردوبازارسے جعلی بیلٹ پیپرچھپوائے گئے جبکہ نادرارپورٹ کے مطابق تمام بیلٹ پیپرالیکشن کمیشن کے مہیاکردہ ہیںاور کوئی ایک بیلٹ پیپربھی جعلی نہیںنکلا ۔نادرارپورٹ کے مطابق لگ بھگ 7100 بیلٹ پیپرزایسے ہیںجو بدانتظامی ،انتخابی عملے کی نااہلی یاکسی اوروجہ سے منسوخ کیے جاسکتے ہیں ۔اگریہ سارے ووٹ محترم ایازصادق کے کھاتے سے نکال بھی دیئے جائیں توپھر بھی جیت ایازصادق کی ہی ہوتی ہے ۔اِس کے باوجود شنیدہے کہ اب ”آزادی کنٹینر”لاہورکی سڑکوںپر رواںدواں ہوگا۔ سمجھ سے بالاتر کہ آخرمحترم عمران خاںچاہتے کیاہیں ۔کیاوزارتِ عظمیٰ کے حصول کی خاطروہ ملکی سا لمیت ہی داؤپر لگادیں گے ؟۔جب اُن کی ضدپر جوڈیشل کمیشن تشکیل پا چکا تواب فیصلے کاانتظار کیوںنہیں کیاجاتا ۔کیاجوڈیشل کمیشن پراعتبارنہیںیا مقصدکچھ اورہے؟۔ ویسے تحریکِ انصاف پنجاب کے صدر اعجازچودھری ایک ٹاک شو میں دل کی بات زبان پرلے آئے ۔اُنہوںنے کہا”موجودہ دورِحکومت میںچینی صدرکا دورہ مستقبل کے سہانے خوابوںکے علاوہ کچھ نہیں”۔ حقیقت یہی ہے کہ تحریکِ انصاف چینی صدرکا دورہ اور46 ارب ڈالرزکے منصوبوںکو ہضم نہیںکر پارہی کیونکہ اگریہ منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچ گئے توتحریکِ انصاف کامستقبل تاریک ہوجائے گااور وہ خوابوں ،خیالوںمیں بھی اقتدار کے ایوانوںتک نہیںپہنچ سکے گی۔ شایدیہی وجہ ہے کہ تحریکِ انصاف نے ایک دفعہ پھرسڑکوںپر نکلنے کافیصلہ کیا ہے۔

یہ خبر بھی تحریکِ انصاف کے لیے کسی تازیانے سے کم نہیںکہ جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم کردہ تین رکنی بنچ نے حلقہ 125 میں الیکشن ٹربیونل کافیصلہ معطل کرکے خواجہ سعدرفیق کی قومی اسمبلی کی نشست کوبحال کردیاہے اور پی پی 155 کی صوبائی نشست بھی بحال کر دی گئی ہے ۔غیرجانبدار تجزیہ نگاروں کا یہی خیال تھاکہ اگر الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ سپریم کورٹ میںچیلنج کر دیا گیاتو فیصلہ نوازلیگ کے حق میںہی آئے گا۔شاید اسی خبر نے خاںصاحب کی تلملاہٹ میںاضافہ کر دیا ہے اوریوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوںکہ خواہش تو ہے کہ دل کو سکوں آشنا کریں۔

کم ہوں نہ شورشیں ہی تو کیا کریں
اور ہم بھی تحریک انصاف کے لیے دعاگو ہیں کہ
آئے نہ پھر بہار اڑانے تیرا مذاق
اے برگ زرد آ تیرے حق میں دعا کریں

Prof Mazhar

Prof Mazhar

تحریر: پروفیسر مظہر