تحریر: محمد صدیق پرہار مولانا محمد جنید ظفر بتا رہے تھے کہ خواجہ محمد عبداللہ المعروف پیر بارو رحمة اللہ علیہ نے ایک بار فرمایا کہ مرشد کا احترام کرنا مرید پروا جب ہے۔ میں اگرایک طرف سونا رکھ دوں اور دوسری طرف شریعت کاایک مسئلہ حامد علی کے سامنے رکھ دوں اور یہ کہوں کہ یہ مسئلہ شریعت کے مطابق تو یوں ہے تاہم اس کا حل شریعت کے مطابق نہیں جیسے میں کہوں ویسے ہی لکھ دو تو حامد علی سونے کو ٹھکرا دیں گے مگ رشریعت سے روگردانی نہیں کریں گے۔
لیہ میں عظیم دینی درس گاہ جامعہ نعمانیہ رضویہ محلہ شیخانوالہ لیہ میں ان ہی علامہ مولانا صوفی حامدعلی رحمة اللہ علیہ اورعلامہ مولانا محمداقبال احمدباروی رحمة اللہ علیہ کے سالانہ ایک روزہ ٣٩ویں عرس مبارک کی آخری نشست میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔معروف ثناء خوان مصطفی بلبل چمنستان رسالت محمدسمیع اللہ قریشی نے ہدیہ نعت پیش کیا۔عرس مبارک میں صاحبزادہ افتخارالحسن سواگ،صاحبزادہ پیراحمدحسن باروی، صاحبزادہ پیر عاشق حسین باروی،ناظم مرکزی دفترتنظیم المدارس اہلسنت پاکستان لاہور علامہ مولانا غلام مرتضیٰ علوی،مفتی حسین علی گولڑوی علامہ عمرحیات باروی ، نائب ناظم جماعت اہلسنت ضلع لیہ صدر تنظیم آئمة المساجدجماعت اہلسنت ضلع لیہ قاری محمدبنیامین چشتی ، قاری محمدلقمان سعیدی علامہ مولانا غلام شبیرالحسن باروی،مولاناحافظ محمدجنیدظفر، سمیت مشائخ عظام، علماء کرام اورعوام اہلسنت نے کثیرتعدادمیں شرکت کی۔علامہ قاری ممتازاحمدباروی اورمولانامظفرحسین باروی نے نقابت کے فرائض اداکیے۔عرس مبارک کی آخری نشست سے خطاب کرتے ہوئے ممبر اسلامی نظریاتی کونسل،چیئرمین شعبہ اسلامیات کراچی یونیورسٹی کراچی بین الاقوامی اسلامی سکالرعلامہ مولانا پروفیسرنوراحمدشاہتاز نے فکرانگیزاورمدلل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن پاک کی حفاظت کاذمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ کرم پرلیاہواہے۔(قرآن پاک سے پہلے جوالہامی کتب نازل ہوئیں ان میں ترمیم ہوچکی ہے۔ تاہم قرآن پاک صدیاں گزرجانے کے بعدبھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔
قیامت تک رہے گا۔دنیا کی تمام کتابوںمیں سے کوئی بھی کتاب کسی سے سن لیں۔ توآپ کتاب میں لکھے ہوئے الفاظ اورسنانے والے کے سنائے ہوئے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرورپائیں گے۔وہی کتاب دویااس سے زیادہ افرادسے سن لیں توتمام کے الفاظ مختلف پائیںگے۔ تاہم قرآن پاک ایک سے نہیں لاکھوں سے سن لیں ۔سب کے سنانے میںکوئی فرق نہیں پائیں گے۔)انہوںنے کہا کہ یہ علماء کرام، حفاظ کرام ، قراء حضرات اس تحریک کاحصہ ہیں جس کا سربراہ خود خالق کائنات ہے۔اس لیے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ قرآن پاک قیامت تک پڑھاجاتارہے۔اوراس پرعمل کیاجاتارہے۔علامہ نوراحمدشاہتازنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علم دین کی خدمت کرنے والے بے روزگارنہیںہوسکتے جبکہ باقی تمام شعبہ ہائے زندگی میںکام کرنے والے بیروزگارہوسکتے ہیں۔اس کی وضاحت انہوںنے اس طرح کی کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری ملازمت ہو، بڑاکاروبارہو، بینک بیلنس ہو۔ہزاروں روپے کی روزانہ کی آمدنی ہو۔ اسے روزگارکہتے ہیں۔ جبکہ دین کی خدمت کرنے والے ایساروزگارنہیں چاہتے۔ ان کواللہ پاک کی طرف سے جومل جائے۔
Allah
اسے کافی سمجھتے ہیں۔اس لیے وہ بیروزگارنہیں رہتے ۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے رزق پرراضی رہتے ہیں۔(ہمارے اضطراب کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ اللہ پاک کے دیے ہوئے رزق کوکافی نہیں سمجھتے ۔ہمیںچاہے جتنا بھی مل جائے ہم مزیدکی خواہش اورجستجوکرتے ہیں)ان کاکہنا تھا کہ جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے سرکاردوعالم نورمجسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاذکرمبارک بلندسے بلند ہورہاہے۔پروفیسرنوراحمدشاہتاز نے کہا کہ کہاجاتا ہے کہ آدم علیہ السلام نے گندم کادانہ کھالیا تھا۔ آدم علیہ السلام سے خطاہوگئی تھی۔ آدم علیہ السلام سے کوئی خطانہیں ہوئی تھی۔انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام سے گناہ نہیں ہوسکتا۔یہ آدم علیہ السلام کی خطا نہیں مشیت ایزدی تھی۔انبیاء کرام علیہم السلام اپنی دعائوںمیں رحمت دوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاوسیلہ پیش کرتے تھے توان کی دعائیں درجہ قبولیت کوپہنچ جاتی تھیں۔کسی کے انکارکرنے سے شان رسالت میںکوئی فرق نہیںپڑتا۔گستاخانہ خاکے بنانے والوںنے جہنم میں اپنے لیے جگہ اوروسیع کرادی ہے۔سرکاردوجہاںصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کوئی تصویراس دنیامیں ہے ہی نہیں۔ کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔اللہ نے تصویرمصطفی کودنیامیں باقی رکھاہی نہیں ہے۔۔اللہ پاک نے توپیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاسایہ ہی نہیں بنایا اس لیے کہ کوئی توہین نہ کردے۔سرکارمدینہ سرورقلب وسینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پردرودوسلام جب سے یہ کائنات بنی ہے پڑھاجارہا ہے۔سکولوں کے نصاب میں لکھاہواہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کونبوت چالیس سال بعد ملی یہ غلط ہے۔
چالیس سال بعد تواعلان نبوت فرمایا۔انسان کی روح اس کے پیداہونے سے ہزاردوہزارسال پہلے پیداہوتی ہے۔دنیا آج ایٹمی طاقت ہونے کی بات کرتی ہے۔نوراحمدشاہتازکاکہنا تھاکہ دنیاکی پہلی ایٹمی جنگ رسول اکرم نورمجسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت سے پچپن دن پہلے ہوئی۔جب ابرہہ بادشاہ نے کعبہ پرحملہ کرناچاہا تواللہ تعالیٰ نے ابابیلوں کی فوج بھیج دی۔ جن کے دونوںپنجوں اورچونچ میں ایک ایک سنگریزہ تھا۔ وہ سنگ ریزہ جس پربھی گرتا ہاتھی سمیت وہ جہنم واصل ہوجاتا۔اس جنگ میں حملہ آوراہل کتاب تھے۔ جہاں کعبہ ہے اس وقت اس کے اطراف میںمشرک تھے۔ بتوںکی پوجاکرتے تھے۔کعبہ میںبھی بت رکھے ہوئے تھے۔حملہ آور بہترتھے۔ اس جنگ میں جوبہترتھے ان کوشکست ہوئی ۔ اس لیے کہ اس کے پچپن دن بعد اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت ہونے والی تھی۔تاکہ یہ کوئی نہ کہہ دے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایسی قوم میں پیداہوئے جوغلام بنالی گئی ہے۔حضرت عبدالمطلب نے ابرہہ سے کہا کہ میرے اونٹ واپس کردویہ میری ملکیت ہیں۔ کعبہ کامالک اورہے وہی خوداس کی حفاظت کرے گا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کاایمان تھا کہ اس گھرکامالک ہے ۔ جواس کی حفاظت کرے گا۔وہ اس میں رکھے ہوئے بتوںکوخدانہیں سمجھتے تھے۔ممبراسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروںکوتوحیدکا پیغام دیں تو سرکاردوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں کی دعوت کا اہتمام کیا۔نوراحمدشاہتازنے حاضرین سے سوال کیا کہ میںپوچھتاہوں اس میں کتنے بریلوی، کتنے دیوبندی، کتنے شیعہ ،کتنے قادری، چشتی،نقشبندی تھے۔ بلکہ میں یہ پوچھتاہوں کہ ان میں کتنے مسلمان تھے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سب میں لنگرتقسیم کیا۔ لنگرتقسیم کرنا رحمت دوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔
Muhammad PBUH
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غیر مسلموں کو ساتھ بٹھایا ہم کلمہ گوکوساتھ نہیں بٹھاتے۔ڈاکٹرصاحب نے یہ بات کرکے فرقہ بندی کی سنگینی کوسامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ہم سب اس کی مذمت بھی کرتے ہیں اوراس فرقہ بندی کاحصہ بھی بنتے ہیں۔ہم ٹکڑوں درٹکڑوںمیں منقسم ہوچکے ہیں۔ہم ایک دوسرے کوبرداشت کرنے کوبھی تیارنہیں ہیں۔ہم صرف مذہب اورعقائدکی بنیادپرہی تقسیم نہیں ہیں بلکہ سیاسی، معاشی، سماجی ، لسانی اورطبقاتی طوربھی تقسیم ہیں۔اپنامذہب، مسلک، عقیدہ درست رکھیں اس کونہ چھوڑیں ملکی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اس کاپرچاربھی کریں تاہم کسی دوسرے مذہب ،مسلک،عقیدہ سے وابستہ کسی بھی شخص سے اس وقت تک نفرت نہ کریں جب تک وہ ایساکام نہ کردے جوموجب نفرت ہو۔اگرغیرمسلم اسلامی ریاست میں رہائش پذیرہے۔ وہ مسلمانوںکونقصان نہیں پہنچاتا،گورنمنٹ کے ٹیکس بروقت اداکرتاہے۔مسلمانوںکومذہب تبدیل کرنے پرنہیں اکساتا توکسی کویہ اجازت نہیں ہے کہ اس غیرمسلم پرحملہ کرے یااسے تنگ کرے۔قوم کوچاہیے کہ وہ اسے فرقہ بندیوںمیں تقسیم کرنے والوںکامحاسبہ کرے۔کچھ لوگ فقہ اورفرقہ کوایک سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے عرض ہے کہ فقہ اورفرقہ میں بہت فرق ہے۔ قرآن پاک میں فقہ کی ترغیب دی گئی ہے اورفرقہ بندی سے روکاگیا ہے۔مزیدتفصیل اپنے کسی مستندعالم دین سے دریافت کرسکتے ہیں۔ پروفیسرنوراحمدشاہتازنے جامعہ نعمانیہ رضویہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تربیت اچھی ہوتومنزلیں آسان ہوجاتی ہیں۔تعلیم کافروغ بلڈنگوں اورکمروںکامحتاج نہیں ہے۔ جہاں علم پڑھایاجارہاہووہی مدرسہ ہے۔خواجہ غلام حسن سواگ رحمة اللہ علیہ، خواجہ محمدعبداللہ پیربارورحمة اللہ علیہ علامہ صوفی حامدعلی رحمة اللہ علیہ سمیت بزرگان دین نے جب ترویج دین کاکام شروع کیا تھاتوبغیربلڈنگوں کے کیاتھا۔ان کاکہناتھا کہ خانقاہوں، مساجداورمدارس کی وجہ سے ہماری ثقافت محفوظ ہے۔پروفیسرصاحب نے یہ کہہ کرپھرایک اورالمیہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔یہ بات کرکے بتایا ہے کہ ثقافت وہ نہیں جسے آج کل ثقافت کہا جاتا ہے۔
یہ ناچ گانے، فلمیں ڈرامے، جانوروں اورپرندوںکی لڑائی،جانوروں اورپرندوںکارقص، سرکس، تھیٹر، موت کاکنواںاس کے علاوہ دیگرخرافات اورفضولیات ہماری ثقافت نہیں ہیں۔ہماری ثفافت اولیاء کاملین کے مزارات اورآستانے ہیں، مساجداورمدارس ہیں۔محافل میلادونعت، ایصال ثواب کے پروگرام اورمذہبی اجتماعات ہیں۔نکاح کرنا ہمارامذہبی فریضہ بھی ہے اورہماری ثقافت کاحصہ بھی تاہم شادی کے موقع پرخرافات ، آتش بازی، نمودنمائش اورمجرے کراناہماری ثقافت نہیں ہے۔ممبراسلامی نظریاتی کونسل کہتے ہیں کہ انسان آزادپیداہواہے اورآزادرہناچاہتاہے۔وہ علماء کی بتائی ہوئی پابندیوںکوقبول نہیں کرناچاہتا۔ اس لیے وعظ و نصیحت کی وجہ سے لوگ علماء کرام کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔علماء کرام انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔یہ اپنافرض اداکرتے ہیں۔معاشرہ میں رہنے والے مولویوںکوخوش حال نہیں دیکھناچاہتے۔اب انہوں نے ایک اورالمیہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔لوگ مولویوںکونہ توخوش حال دیکھناچاہتے ہیں اورنہ ہی ان کومعاشرہ کا حصہ قبول کرنے کوتیارہوتے ہیں۔ ان دنیاداروںکی تنخواہیں یاماہانہ آمدنی پچاس ہزارسے بھی زیادہ ہوتویہ اسے اپنے لیے ناکافی تصورکرتے ہیں اورمولوی کی آمدنی ایک ہزاربھی ہوتوکہتے ہیں کہ بہت ہے۔ مولوی نے پیسوںکاکیاکرنا ہے۔ گویامولوی نہ تومعاشرہ کافردہے اورنہ ہی اس کی کوئی ضروریات ہیں۔اگرتمام تنخواہ دارطبقہ، تمام کاروباری حضرات،ہنرمندافراد، وکلاء حضرات سمیت زندگی کے تمام شعبہ زندگی اورشعبہ روزگارسے وابستہ تمام افراد اپنی آمدنی صرف ایک فیصدحصہ بھی آئمة المساجد، مدرسین اورعلماء کرام ، مساجد، مدارس کودے دیں توہرایک امام مسجد، مدرس، عالم دین ، مسجداورمدرسہ کواخراجات کے لیے ایک اندازہ کے مطابق کم وبیش بیس ہزارروپے ماہانہ مل سکتے ہیں۔جبکہ حقائق یہ ہیں کہ دس ہزارروپے لینے والا امام مسجدکودس روپے بھی مشکل سے اوراحسان کرکے دیتا ہے۔اوروہ بھی کوشش کرتاہے کہ یہ بھی دینے پڑیں۔ممتازاسلامی سکالرنے عرس مبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میثاق مدینہ اورصلح حدیبیہ کا حوالہ دے کرمسلمانوں کی آنکھوںمیں دھول جھونکی جاتی ہے۔کہ برابری کی بنیادپربات کرو۔مسلمان برابری کے لیے نہیں فوقیت کے لیے بھیجا گیا ہے۔اسلام اورکفرمیں برابری نہیں ہوسکتی۔یہی دوقومی نظریہ کی بنیادہے۔ پاکستان دوقومی نظریہ کی وجہ سے بناہے۔دل میں عظمت رسول پختہ نہ ہوتوزبانی دعووں کی کوئی حیثیت نہیں۔ابولہب نے شان رسالت میں گستاخی کی تواللہ تعالیٰ نے ردعمل میںقرآن پاک کی پوری سورة مبارکہ نازل کردی۔گستاخانہ خاکوںکی مذمت کرنا ردعمل کااظہارکرنااللہ تعالیٰ نے سکھلایا ہے۔توہین آمیزخاکوں کے خلاف ردعمل ظاہرکرنے پردہشت گردہونے اوربرداشت نہ ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں۔
آج عمل کی ضرورت ہے۔دین سیکھنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں۔نوراحمدشاہتازکے پیراگراف کاخلاصہ یہ تھا کہ ہم نے دین کوآخری نمبرپررکھاہواہے۔جوبچہ سکول میں نہ پڑھ سکتاہواسے مدرسہ میں داخل کرادیاجاتاہے۔ان کاکہناتھا کہ دینی مدارس میں عصری تعلیم دینے کی بھی ضرورت ہے۔ایسے مدارس میں پڑھنے والاعالم نہیں تودہشت گردبھی نہیں بنے گا۔دین دارنہ بیروزگاررہتاہے اورنہ ہی بے نکاح ۔بہت سے ممالک میں ایسے سربراہ گزرے ہیں جوحافظ بھی تھے اورعالم بھی۔علم دین ترقی میںرکاوٹ نہیں۔قرآن پاک سیاستدان بننے سے نہیں روکتا۔اسلامی نظریاتی کونسل کاکام اسمبلیوںمیں آنے والے بل پرنظررکھناہے۔علامہ صوفی حامدعلی رحمة اللہ علیہ نے جوپودالگایاتھا آج وہ تناور درخت بن چکاہے۔ملک کے جیّد علماء کرام اسی مدرسہ جامعہ نعمانیہ رضویہ سے تعلیم حاصل کرکے گئے ہیں۔ علامہ پروفیسرنوراحمدشاہتازنے اپنے ایک ہی خطاب میں بہت سے المیوںکی طرف توجہ دلائی ہے۔عوام الناس کے ذہنوںمیںپائی جانے والی غلط فہمیوںکودورکرنے کی کوشش کی ہے۔انہوںنے اپنے فکرانگیز فکرانگیزخطاب نے معاشرہ کے بہت سے پہلوئوںپرروشنی ڈالی ہے۔طلباء کی دستاربندی کی گئی اوردرودوسلام پڑھا گیا۔ علامہ غلام شبیرسیالوی نے حاضرین و مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔