کراچی (جیوڈیسک) سفاک قاتلوں نے کراچی کا امن کرچی کرچی کر دیا۔ امن کی راہ دیکھتا شہر قائد پھر خون میں نہلا دیا گیا۔ بزدل دہشت گردوں کا کہیں اور بس نہ چلا تو بس میں بیٹھے بے بس مسافروں سے زندگیاں چھین لیں اور ایک ہی وار میں دوبارہ شہر کو ماتم کدہ بنا دیا۔
قتل عام کا یہ گھناؤنا کھیل ساڑھے نو بجے صبح اس وقت رچایا گیا جب موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح افراد نے عائشہ منزل جانے والی مسافر بس کو صفورا چوک کے قریب گھیرے میں لیا، اسے روکا اور اندر گھس کر مرد، خواتین اور بچوں کی تمیز کئے بغیر اندھا دھند گولیاں چلا دیں۔
بس میں 60 سے 65 مسافر سوار تھے۔ انسانی لہو میں لت پت یہ بس مسافروں کو منزل پر لے جانے کی بجائے موت کی وادی میں لے گئی۔ دہشت گردوں نے انتہائی قریب سے مسافروں کو گولیاں ماریں۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی۔ ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ کراچی کا امن خراب کرنے کی سازش ہے۔
شدید فائرنگ کی آواز سن کر علاقہ مکین بھی گھروں سے نکل آئے اور زخمیوں کو قریبی ہسپتالوں میں پہنچانا شروع کر دیا۔ ریسکیو کا عملہ بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف رہا۔ ایم ایل او رپورٹ کے مطابق سانحہ صفورہ میں جاں بحق افراد کو انتہائی قریب سے گولیاں ماری گئی تھیں۔ مقتولین کو ایک ایک گولی کا نشانہ بنایا گیا۔
جاں بحق افراد کو جسم کے اوپری حصے میں گولیاں لگیں۔ تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ واقعے میں استعمال ہونے والی ایک ایس ایم جی پولیس اہلکاروں سے چھینی گئی تھی۔ دہشت گرد گروپ سٹیل ٹائون میں ڈی ایس پی عبدالفتح سانگری کے قتل میں بھی ملوث ہے جبکہ فیروز آباد میں امریکی خاتون ڈیبرا لوبو پر حملے میں بھی اس گروپ کے شواہد ملے ہیں۔
تفتیشی حکام کہتے ہیں کہ صفورا چورنگی بس پر استعمال ہونے والا اسلحہ ڈی ایس پی عبدالفتح سانگری کے قتل میں بھی استعمال ہوا جبکہ ڈیبرا لوبو پر حملے میں بھی اسی طرز کا اسلحہ استعمال ہوا ہے۔