تحریر: مسز جمشید خاکوانی بھارت کا رویہ پاکستان سے بالکل ایسا ہے جیسا دیورانیوں، جٹھانیوں کا ایک دوسرے سے ہوتا ہے۔حالیہ افسوسناک واقعے پر پہلی مرتبہ بھارت نے تعزیتی پیغام بھیجا ہے۔اس پر مجھے اپنی ایک رشتہ دار یاد آ گئیں جاگیردار لوگ اپنی حویلیوں میں کام کرنے والے عملے کو ہی اپنی رعایا سمجھتے ہیں۔
سو اس رعایا میں سے کوئی ان کا منہ چڑھا ہوتا ہے تو کسی کو نو لفٹ ۔اب جس کو کم لفٹ ملے وہ مخالف کے ہتھے چڑھ جاتا ہے بڑی جٹھانی کبھی کھانے پینے کی چیزیں کبھی مال پانی سے دیورانی کے نوکروں کو باغی کیئے رکھتی کیونکہ چھوٹی بی بی قدرے سیدھی اور کم تجربہ کار تھی اکثر مار کھا جاتی ،کبھی تو شدید پریشان ہوکر بیمار بھی پڑ جاتی تب جٹھانی کو اس پہ پیار آجاتا اس کی بلائیں لیتی سر پہ ہاتھ پھیرتی اسے کہتی تو کیوں ان کم ذاتوں کی باتوں کو دل سے لگاتی ہے یہ کمی کمین تو ہوتے ہی ایسے ہیں۔
ان کو کبھی پیسے سے اور کبھی جوتے سے قابو رکھنا پڑتا ہے بھارت بھی چائنا پاکستان معاہدوں پر بہت پریشان ہے بلکہ وہ افغانستان کی وجہ سے بھی پریشان ہے۔کیونکہ وہ بارہ ہزار کروڑ افغانستان مین اب تک خرچ کر چکا ہے بنئے پلی پلی جوڑنے کے ماہر ہوتے ہیں بارہ ہزار کروڑ اکارت چلا گیا تو انکی سانسیں رک جائیں گی ۔اس کے لیئے انہیں مزید خرچی دے کر پاکستان کے حالات گڑ بڑ کرانے پڑ رہے ہیں اور ہماری دھرتی اس معاملے میں بڑی زرخیز ہے ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں ۔شاہانہ زندگی گذارنا ہمارا خواب ہوتا ہے سو اس کے لیئے پیسے پکڑ لینا کوئی بری بات نہیں سمجھی جاتی لیکن بھلے لوگو اپنی دھرتی سے غداری کر کے لوگوں کے خون سے ہولی کھیل کر سکون کیسے پائو گے اور کہاں تک جائو گے ؟ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا ، اپنے بارہ سالہ دور اقتدار میں حامد کرزئی نے پاکستان کے لیئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیئے۔اس کا اعتراف بھارتی صحافی ڈاکٹر پرتاپ ویدک بھی کیئے بغیر نہیں رہ سکے۔
Afghanistan
وہ لکھتے ہیں حامد کرزئی کے دور میں افغانستان کے پاکستان کے ساتھ جو بھی تعلقات رہے انہیں بحرحال اچھے نہیںکہا جا سکتا (جس کا فائدہ بھارت نے اٹھایا )مگر اب اشرف غنی پاکستان کے اتنے قریب ہوتے دکھائی پڑ رہے ہیں کہ جانو بھارت کسی گنتی میں ہی نہیں ،افغان فوجیوں کی کابل اکیڈمی میں تربیت بھی شروع ہو چکی ہے ۔اب افغانستان اور پاکستان کی فوجیں متحد ہو کر بھیاس بھی کریں گی یہ تاریخ میں پہلی بار ہو گا ۔ڈاکٹر صاحب کو افسوس ہے کہ بھارت نے بارہ ہزار کروڑ خرچ کر کے افغانستان میں اسکول،ہسپتال،سڑکیں،ڈیم اور ایوان تک تعمیر کرائے بلکہ اس کے درجنوں شہریوں نے افغان عوام کی خدمت میں اپنی جانیں تک قربان کی ہیں افغان عوام کا پسندیدہ ملک بھارت ہی رہا ہے لیکن بد قسمتی سے بھارت کی مودی سرکار نے افغانستان پر اتنا دھیان نہیں دیا جتنا دینا چاہیئے تھا ،بھارت کا وزیر اعظم ہزاروں میل دور جا کر دوسرے ملکوں میں بجلی چمکاتا رہا مگر قریب کے ملک میں دیا نہ جلا سکا شائد بھارتی وزیر اعظم کو یاد نہیں رہا کہ افغانستان کی حفاظت بھارت کی حفاظت ہے۔
جس دھشت گردی کی وجہ سے بھارت پریشان ہے اس کی جڑ افغانستان میں ہے اگر بھارت کو یورپ ،وسطی ایشیاء اور مغربی ایشیاء کے ملکوں سے زمینی راستے سے جڑنا ہو تو وہ کہاں سے جائے گا ؟ افغانستان سے! اس راز کو چین بہت اچھی طرح سمجھتا ہے اسی لیئے چینی صدر شی چن ینگ نے پاکستان میں چھیالیس ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے اس کا سیدھا فائدہ افغانستان کو ملے گا اب جو نیا ” ریشم پتھ ”بنے گا وہ بیجنگ سے اسپین تک افغانستان سے ہوتا ہوا جائے گا ۔چین نے افغانستان میں کروڑوں ڈالر خرچ کر تانبے کی کانیں خرید لی ہیں ،اس نے چین افغان پاک مثلث بات چیت چلائی ہے ،وہ اپنے سنکیانگ صوبے کے الیفر مسلمانوں میں پھیلی دھشت گردی کو بھی قابو میں کرے گا لیکن اس ساری پالیسی میں بھارت کہاں ہے؟پرتاپ ویدک لکھتے ہیں جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے کا دعوی کرنے والا بھارت خود کو تنہا کر رہا ہے ۔افغان سیاست کے طاقتور طبقوں سے بنا کر رکھنا تو دور کی بات کابل کی بھارت پریمی سرکار سے بھی نزدیکیوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور ایسے وقت میں جب افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی زوروں پر ہے اگر افغانستان میں لا قانونیت پھیلی تو پاکستان اس پر قابو نہ پا سکے گا اس دور میں بھارت کا کیا کردار ہوگا ؟اب تک بھارت کا افغانستان میں جو تعمیری کردار رہا ہے وہ اب چین کا ہو گیا تو اس کا فائدہ پاکستان کو ملے گا۔
Terrorism
مجھے ڈاکٹر پرتاپ ویدک کی اپنے ملک کے لیئے یہ فکر مندی اچھی لگی ۔اپنے ملک کے لیئے اچھا سوچنا ہر محب الوطن کا فرض ہے لیکن بھارت ہمارے ملک میں کانٹے بچھائے گا تو اسے جواب بھی ویسا ہی ملے گا ،کچھ کالی بھیڑیں ضرور ہیں مگر ہمارا میڈیا ہماری صحافت بھی اپنے ملک سے الگ نہیں ہے انکی فکر بھی اپنے ملک کے لیئے ہے جس پر ایسی قیادتوں کا غلبہ ہے جنھیں ملک سے نہیں پیسے سے پیار ہے ،ایک ایسے وقت میں جب خطہ تبدیلیوں کی ذد میں ہے ،وہ اپنے معاملات کو ترجیع دے رہے ہیں۔
وہ بھارت یا ”را ” کے خلاف ایک لفظ نہیں بولتے جبکہ بھارت میں پتا بھی کھڑکے تو اس کا مدعا پاکستان پہ ڈال دیا جاتا ہے۔یاد رہے یہ وہی بھارتی صحافی ہیں جنھوں نے 2013 کے الیکشن سے پہلے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا ”پاکستانی فوج پہلی بار خود اپنی وجہ سے نچلے پائیدان پر کھسک گئی ہے ” یقیناً ان کا اشارہ پاکستانی حساس تنصیبات و مقامات پر پے در پے حملے تھے جن کی وجہ سے پاک فوج کا مورال گرا ۔تو کیا اب یہ سمجھا جائے کہ اب یہ کمزوریاں دور کر لی گئی ہیں ؟ یا وہ سارے عوامل بے نقاب ہو چکے ہیں جو اس کمزوری کا سبب بنے؟