تحریر : آصف لانگو جعفر آبادی پاکستان کا مشہور، معروف و تجارتی مرکز کراچی گزشتہ چند سالوں سے ناقابل فراموش حالات سے گزر رہا ہے۔ جہاں لوگوں میں خوف کی فضا کم ہونے کا نام نہیں لیتی ہے۔ کراچی میں ہر قوم سے تعلق رکھنے والے باشندے آ باد ہیں۔ بلوچ، سندھی، پشتون، اردو اسپیکنگ مہاجر، پنجابی اور سرائیکی اسپیکنگ سمیت ملک کے تمام قومیں کسی نہ کسی بہانے ضرور مو جود ہیں۔سیاسی طور پر بھی کراچی اہم نگاہ میں رہتا ہے کیونکہ یہاں ایم کیو ایم نے کراچی کو اپنی سیاسی گرفت میں پکڑی ہوئی ہے۔
مہاجر حضرات کی لمبی تعداد اور ایم کیو ایم کی سخت پالیسی سے ایم کیو ایم کراچی میں 80سے90فیصد تک سیاسی قبضہ میں رکھا ہوا ہے یہاں بیشتر قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان بھی ایم کیو ایم کی بڑی ووٹ بینک کی وجہ سے کامیاب ہوتے ہیں، ایم کیو ایم کی ٹکٹ کراچی کی غریب سے غریب اور بیکار سے بیکار آ دمی کی کامیابی ضمانت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف، اے این پی، جماعت اسلامی ، سنی تحریک سمیت دیگر سیاسی و مذ ہبی جماعتوں کا بھی گہری نظر ہے ۔ البتہ کراچی میں موجودہ حالات کے پیچھے عام شہریوں کا موقف ہے کہ کراچی کے حالات کے پیچھے ایم کیو ایم کا ہاتھ ہے۔ ایم کیو ایم کراچی کے حوالے پورے پاکستان میں بھتہ خوری ، ٹارگیٹ کلنگ اور دیگر جرائم کے حوالے سے انتہائی مشہور ہے ۔ بیشتر واقعات کے پیچھے ایم کیو ایم اور ایم کیو ایم کے پیچھے بھارت و اسرائیل کا ہاتھ مانا جاتا ہے ۔یہ بھی مشہور ہے کہ الطاف حسین کی جماعت یا الطاف حسین کو جب بھی کوئی تکلیف ہوتی ہے تو فرسٹ ایڈ کے لئے بھارتی حکام کو میڈیا میں پکارتے ہیں۔ جیساکہ چند روز پہلے ” را بھارتی حکام ” کو اپنی مدد کے لئے پکار رہے تھے جس نتیجے میں پاکستان قوم ،میڈیا اور عسکری قیادت سے الطاف حسین کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
کراچی میں قتل و غارت کے واقعات کا معمول کی بات ہے لیکن کبھی کبھار حالات ناقابل برادشت بھی ہوا کرتے ہیں۔ اجتماعی قتل سے درجنوں خاندان متاثر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ 13مئی کو کراچی میں اسماعیلی کمیونٹی کی بد قسمت بس پر درندہ صفت دہشت گردوں نے صفورا چونگی کے مقام پر موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ۔ درد ناک طریقے سے ایک ایک کر کے قتل کیے گئے ۔ بے گناہوں کی چیخ و پکار بھی قاتلوں کے دل میں انسانیت کے لئے تھوڑی جگہ بھی نہیں لے سکی ۔ جس کے نتیجے میں کئی اموات واقع ہوئیں اور کئی جانیں زخمی ہوئیں، جن پر جتنا بھی دکھ کیا جائے کم ہے۔ بس میں سوار لوگوں کا کیا قصور تھا؟ دہشت گردوں کے ساتھ ان کی کیا دشمنی تھی؟ انہیں اس قدر درندگی کے ساتھ نشانہ کیوں بنایاگیا؟ اگر وہاں ایک دشت گردوں کا مجرم یا ملزم تھا تو چار درجن افراد کا کیا قصور تھا ؟ آ خر کیوں مقتول کا وجہ قتل بھی نہیں بتایا جاتا ہے ۔ یہ وہ سوال ہیں جو اسماعیلی کمیونٹی کے علاوہ انسانیت کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے ہر انسان کے سوالات ہیں۔
Karachi Bus Firing
کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ مذہبی، لسانی، سیاسی و دیگر بنیادوں کو پس پشت رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ہمیشہ سے پاکستان میں موجود اسماعیلی کمیونٹی بے ضرر ثابت ہوئی ہے۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ کراچی میں کوئی بھی ہڑتال ہو، کوئی بھی سانحہ ہو یا کوئی بھی دنگا فساد ہو اس کمیونٹی کے کسی رہنما کا نام شامل نہیں رہا۔ دوسری برادریوں کی طرح اس برادری میں بھی جوشیلے نوجوان موجود ہیں مگر ان کا کہیں کوئی نام نہیں آیا کہ اس کمیونٹی کے نوجوانوں نے یہ ظلم کر دیا یا کسی کو یہ نقصان پہنچا دیا۔۔۔! مگر ایسا کبھی سننے کو نہ ملا۔ واقعہ کی اطلاع ملنے کے بعد قریب ہونے کی وجہ سے رفاہی ادارے فلاح انسانیت فائونڈیشن کے ساتھ جائے وقوعہ پر پہنچا۔ بس میں ہر طرف خون ہی خون تھا۔ مختلف رفاہی اداروں کی جانب سے لاشوں کو اٹھانے کے لیے استعمال کیے گئے اسٹریچر، وہیل چیئرز مکمل طور پر خون سے تر تھے۔ جنہیں دیکھنے کے لیے ہمت چاہیے تھی۔ جیسا ظلم کیا گیا تھا اس سے یہی ظاہر ہو رہا تھا یہ کسی انسان نے نہیں درندوں نے ظلم کیا ہے۔
اب بات کی جائے پاکستان میں ہونے والے ان واقعات کی جن میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، اور انسانی جانوں کے ضیاع پر متعلقہ کمیونٹیز کا کیا رد عمل رہا۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے کئی انسانیت سوز واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ پہلا واقعہ ہے جس میں کوئی اشتعال دیکھنے کو نہیں ملا۔بلوچستان میں زائرین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ قاتل قتل کر کے ایسے جاتے ہیں کہ کسی نے کچھ دیکھا اور کسی نے کچھ کیا بھی نہ ہو۔ نہ جانے کہاںچلے جاتے ہیں ۔ حکومت آ پریشن آ پریشن اور آ پریشن کرتا ہی جاے گا اور ملک میں بد امنی میںاضافہ ہوتا رہے گا۔
بحرحال : موجودہ حالات کے پیچھے اگر ” را ” بھارتی حکام کا ہاتھ ہے تو ہمارے حکمرانوں کو اسلامی ریاستوں کو اکھٹا کر کے بھارت کے ناپاک پلاننگ کے خاتمے کا سوچنا چاہئے ۔ بھارت کی میلی آنکھ کا آ پریشن کی اشد ضرورت ہے دیگر صورت کراچی ، بلوچستان کے بجائے پورے پاکستان میں بھارتی ایجنٹ ہونگے ملک کے حالات ناقابل کنٹرول ہوسکتے ہیں۔حکومت کو سانحہ کراچی کے بعد اب سنجیدگی سے بین الاقوامی آ پریشن کا بھی سوچنا چاہئے ۔تاکہ کراچی میں الطاف حسین یا پاکستانی طالبان یا دیگر کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن بھی درست ہے لیکن کوشش اول یہ ہو کہ ان کی کھاد بند کرو تاکہ بھوکا خود بخود ہی یہ ناپاک کیڑے مر جائیں۔
آپ کتنے صولت مرزا پکڑوگے کتنے ؟ دس ، بیس یا ہزار لیکن دس بیس اور ہزار سے سے پہلے ان آ قا بھارت اور اسرائیل کو آنکھیں دکھاؤ کیونکہ راء ، موساد، سی آئی اے کیخلاف جو شواہد ملے ہیں اُن کی بنیاد پر آ پ اسلامی ریاستوں کو اعتماد میں لیکر مشہورے بعد سخت پالیسی کا اعلان کریں تاکہ اسلامی ریاستوں میں موجودہ بد امنی کی گونجتی فضا ختم ہوسکے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آ ئی ایس آ ئی کے ہیڈ کواٹر کا دورے موقع پر کہا کہ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے والے غیر ملکی ایجنسیوں کو روکا جائے تاکہ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوسکے ۔پاکستان کی آئی ایس آئی دنیا میں صف اول کی بہترین ایجنسی ہے ۔ آئی ایس آئی اپنی مہارت کے بنا پر غیر ملکی ایجنسیوں کا بلوچستان ، کراچی و سندھ ، پنجاب ، پختون خواہ سمیت پورے پاکستان میں نشاندہی کریں اور اُن ممالک اور ایجنسیوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔