تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی معراج کی رات انبیاء نے حضور ۖ کی اقتدار میں نماز ادا کی تو پھر آسمانی سفر کا آغاز ہوا پہلے آسمان پر پہنچ کر دستک دی گئی تو آواز آئی کون ہے ؟ سید الملائکہ نے جواب دیا میں جبرائیل ہوں۔ آواز آئی آپ کے ساتھ کون ہیں تو جبرائیل امین نے جواب دیا یہ محمد ۖ ہیں آج کی رات انہیں آسمانوں پر پذیرائی بخشی جائے گی۔ تو آسمان کا دروازہ کھول دیا گیا۔ دروازہ کھول نے والے نے محبوب خدا ۖ کی خدمت میں عقیدت بھرا سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی ۔پہلے آسمان پر سرتاج الانبیاء کی ملاقات اپنے جدِ امجد حضرت آدم سے ہوئی حضرت آدم کو بتایا گیا کہ یہ آپ کے جلیل القدر فرزند ہیں ختم المرسلین ہیں یہی حضرت محمد ۖ اور تما م انبیا ء کے سردار ہیں۔
مالک ِ دو جہاں نے دادا جان کہہ کر سلا م کیا حضرت آدم نے سلام کا جواب دیا اور اپنے عظیم ترین فرزند کو اپنی دعائوں سے نوازا ۔ پھر آپ ۖ کو دوسرے آسمان پر لے جایا گیا حضرت جبرائیل نے دروازہ کھلوایا یہاں نبی کریم ۖ نے دو خالہ زاد بھائیوں حضرت یحیٰ بن ذکریا اور حضرت عیسی بن مریم کو دیکھا اور انہیں سلام کیا دونوں نے مرحبا کہا اور آپ ۖکی نبوت کا قرار کیا ۔ یہاں کے ملکوتی مشاہدات کے بعد آپ ۖ کو تیسرے آسمان کی طرف اٹھا یا گیا ۔ یہاں پر حضور ۖ کی ملاقات حضرت یوسف سے کرائی گئی جن کو آدھا حسن دیا گیا تھا آپ نے بھی سلا م کیا انہوں نے جواب دیا مرحبا کہا آپ ۖ کی نبوت کا اقرار کیا ۔ پھر نبی کریم ۖ کو چوتھے آسمان پر لے جایا گیا وہاں پر حضرت ادریس کو دیکھا اور انہیں سلام کیا انہوں نے بھی جواب دیا مرحبا کہا اور آپ ۖ کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر آپ ۖ کو پانچویں آسمان پر لے جایا گیا وہاں حضرت ہارون کو دیکھا اور انہیں سلام کیا انہوں نے بھی سلام کا جواب دیا مرحبا کہا اور آپ ۖ کی نبوت کا اقرار کیا یہاں سے آپ ۖ کو چھٹے آسمان پر لے جایا گیا وہاں حضرت موسٰی سے ملاقات ہوئی حضرت موسٰی کی چشمان مبارک اشکبار ہو گئیں سرتاج الانبیاء کی شان و شوکت دیکھ کر رشک سے آنسو چھلک پڑے اور بے اختیار زبان مبارک سے نکلا یہ خدائے بزرگ و برتر کے وہ برگذیدہ رسولۖ ہیں جن کی امت کو میری امت پر شرف عطا کیا گیا جن کی امت کو میری امت کے مقابلے میں کثرت کے ساتھ جنت میں داخل کیا جائے گا۔
Muhammad PBUH
اِس کے بعد آپ ۖ کو ساتویں آسمان پر لے جایا گیا وہاں آپ ۖ کی ملاقات حضرت ابراہیم سے ہوئی آپ ۖ نے سلام اُنہیں سلام کیا انہوں نے محبت سے جواب دیا مرحبا کہا آپ ۖ کی نبوت کا اقرا ر کیا حضرت ابراہیم اپنی پشت مبارک بیت المعمور سے لگائے ہوئے تھے جس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہو تے ہیں اور دو بارہ ان کے پلٹنے کی باری نہیں آتی ساتوں آسمانوں کے نورانی جلووں کے بعد تاجدار کائنات کو سدرة المنتہی کے مقام تک لے جایا گیا۔ یہ وہ حساس اور اعلی مقام کہ جہاں آکر ملائکہ اور انبیاء و رسل کی بھی پرواز ختم ہو جاتی ہے یہاں مقرب فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں یہاں پر روح الامین جبرائیل کے بھی پر جلنے لگے اور وہ بے اختیار بول اٹھے کہ اگر میں یہاں سے ایک انگلی کی پور برابر بھی آگے بڑھا تو تجلیات الہی مجھے جلا کر خاکستر کر دیں گی ۔ سید الملائکہ کی پرواز اور طاقت نے جہاں دم توڑا وہیں سے نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان خیر البشر ۖ عظمتوں اور رفعتوں کے لازوال سفر کا آغاز کیا۔
وہ شبِ اسرا میں تیری ایک ادنی جست نے قد انسانی کا اونچا اور اونچا کر دیا
سدرة المنتہی کا مقام عالم مکان کی آخری حد اور لا مکان کا پہلا زینہ ہے ۔تفسیر نیشا پوری میں ایک حدیث مبارکہ ہے ۔ فرشتے اللہ رب العزت کی بارگا اقدس میں دعا مانگتے تھے کہ اے کائنات کے مالک جس محبوب ۖ کی خاطر تو نے کائنات تخلیق فرمائی جس پر تو اپنی زبان قدرت سے ہمہ وقت درود پڑھتا ہے اور ہم بھی تیرے حکم کی تعمیل میں اس ہستی پر درود و سلام کا نذرانہ بھیجتے ہیں آج وہی مہمان ذی وقار تشریف لا رہے ہیں اے باری تعالی ہمیں اپنے رسول محتشم کا بے نقاب جلوہ عطا فرما ۔ اللہ پاک نے مقرب ملائکہ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور فرمایا کہ تم ساری کائنات آسمانی سے سمٹ کر اِس درخت سدرة المنتہی پر بیٹھ جاو ۔ فرشتے ہجوم در ہجوم اُمڈ پڑے فرشتوں کی اتنی زیادہ کثرت ہوئی کہ وہ درخت ان کے نور کے سائے میں آگیا۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے ۔ ترجمہ جب سائے میں لے کر چھپا لیا سدرہ کو جس نے چھپا لیا (ملائکہ کی کثرت نے ) النجم ۔ اِس عظیم مقام پر قدسیان فلک نے محبوب ِ خد ا ۖ کے دیدار کا لازوال شرف حاصل کیا اور اپنی ہزاروں سالوں کی خواہش اور پیاس کو بجھایا رخِ مصطفٰے ۖ ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دکان آئینہ ساز میں ۔محبوب خدا ۖ مہمان ِ عرش جب آگے بڑھنے لگے تو سیدالملائکہ رک گئے اور عرض کی اگر میں ایک چیونٹی برابر بھی آگے بڑھا تو ( تجلیات الہی کے پر توسے ) جل جاوں گا ۔یہاں سے آگے جبرائیل امین اور براق آپ کے ساتھ نہ تھے ۔ یہاں سے سرتاج الانبیاء ۖ اپنے رب کے اذن سے تنہا ہی روانہ ہوئے۔
Allah
خالق ِ ارض و سمانے محبوب ۖ مہمان کے عرش کی سواری کے لیے ایک سبز ملکوتی اور رنگ نور سے سجا نورانی تخت بھیج دیا۔ اِس عظیم خوبصورت تخت کا نام ”زخرف” تھا ۔ اِسطرح رحمتِ دو جہاں ۖ وجہ تخلیق کائنات محبوب خدا ۖ کو عرش معلی تک پہنچا دیا گیا ۔ جب سدرة المنتہی کی منزل گزر گئی اور فرشتوں کے ہجوم بھی پیچھے رہ گئے تو آگے نور کا سمند ر تھا چاروں طرف نور ہی نور اور کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا پھر محبوب خدا ۖ کو اِس نور کے سمندر میں داخل کر دیا گیا ۔ دیکھنے والی چشم آپ ۖ کو دیکھنے سے قاصر تھی نور کیسا تھا آپ کہاں تھے اِس نور کے سمندر اور حصار ِ نور میں داخل ہونے کے بعد مہمان عرش نے عرش معلی کی سیر کی ۔ عرش نے آپ ۖ کے تلوووں کے بوسے لیے اِس کے بعد آپ ۖ کو بہت عزت و احترام وقار کے ساتھ آگے لے جایا گیا یہاں سے سفر کا ایک نیا مرحلہ تھا جہاں نور خدا تھا اور محبوب خدا ۖ یہ معراج کا سفر کا نقطہ عروج تھا ایک عالم ِ نور تھا انوار و تجلیات الہی پُر فشاں تھے ۔ خدائے بزرگ و برتر کی ذاتی اور صفاتی تجلیات کی برسات تھی عالم لا مکان کے جلوے ہر سو جلوہ ریز تھے۔
سردار الانبیاء آمنہ کے لال ۖ مہمان عرش کو تن تنہا اِن رنگ و نور کے جلووں میں داخل کر دیا گیا تھا اور اللہ تعالی کے اسما کے پردے ایک ایک کر کے گزرتے رہے ۔ حضور ۖعالم بیداری میں لہذا بوجہ بشریت معمولی سی وحشت ہوئی تو رب ذولجلال کی آواز آئی ۔ پیارے محمد ۖ رک جائو بے شک تمھارا رب (استقبال کے لیے ) قرب آرہا ہے۔ سفر معراج کے اِس نازک مرحلہ پر محبوب خدا ۖ مقام قاب قوسین پر پہنچ گئے ارشاد باری تعالی ہے ۔ترجمہ النجم ۔ پھر (اس محبوب حقیقی سے ) آپ ۖ قریب ہوئے اور آگے بڑھے پھر (یہاں تک بڑھے کہ) صرف دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
PROF ABDULLAH BHATTI
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org 03004352956