بڑا دشمن بنا پھرتا ہے

Taliban

Taliban

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
وہ ابلیسیت کے نمائندے نہیں ہو سکتے کہ ابلیس توخوداُن کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کی سوچ رہاہے ، ہلاکواور چنگیزبھی نہیںکہ وہ اپنی تمام تروحشتوں کے باوجودسامنے آکر جنگ کرتے تھے اور یہ بزدل چھُپ کروار کرتے ہیں۔محبِ وطن پاکستانی توہرگز نہیںکہ اُنہوںنے جن معصوموںکے خون سے ہولی کھیلی اُنہی کے سربراہ، سَرآغاخاں ،آل انڈیامسلم لیگ کے پہلے سربراہ بھی تھے ۔وہ مسلمان توہوہی نہیںسکتے کہ مسلمان شقی القلب نہیںہوا کرتے۔ میرادین توالفت ومحبت اور یگانگت کادین ہے اورمیرے رَبّ کافرمان کہ جس نے کسی ایک بے گناہ کوقتل کیا ، گویااُس نے پوری خُدائی کوقتل کردیا (مفہوم)۔پھروہ کون تھے ؟۔شایدیزیدی فوج کے سپاہی جن کی شباہت تومسلمانوں جیسی تھی لیکن کربلاکی تپتی ریت کوخانوادۂ رسولۖ کے خون سے رنگین کرنے والے بھی وہی۔ انجام ”یزیدیوں” کابھی بُراہوا اورلاریب اِن کابھی ہوناطے کہ جن کانام پتہ نہیں طالبان ہے یاداعش یاپھرفرقہ واریت کوہوادینے والے وہ ناسورجو دھرتی ماںکے آنگن میںلاشوںکے ڈھیرلگاتے رہتے ہیں۔

انسانیت کے یہ دشمن 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاورکے معصوموںکے خون سے ہولی کھیل کربڑے اتراتے پھرتے تھے لیکن پھر چشمِ فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ یہی بزدل چوہوںکی طرح اپنے بلوںمیں گھستے پھرتے اورپاک فوج کے جری جوان اُنہیںبلوں سے نکال نکال کرواصلِ جہنم کرتے رہے۔اب بھی کچھ چوہے اپنے بِلوںمیں گھسے ہوئے ہیںجنہیں جہنم کاایندھن بنایاجا رہاہے ۔کوئی دِن جاتاہے جب میری سو ہنی دھرتی انسانیت کے اِن دشمنوںسے پاک ہوجائے گی ۔ہم سمجھتے ہیںکہ کراچی میںہونے والاالمناک ”سانحہ صفورا”بجھتے دیئے کی لَوہے کہ دِیاجب بجھنے لگتاہے تواُس کی لَو آخری باربھڑکتی ضرورہے ۔سانحہ پشاورپر پوری قوم نے یہ عزم کیاکہ وہ دہشت کے ہرنشان کوحرفِ غلط کی طرح مٹادے گی اوراب ”سانحۂ صفورا”میںاِس عزم بالجزم کی تجدیدہوگئی۔ اسماعیلی کمیونٹی کی بَس پرحملہ انشاء اللہ دہشت گردی کے تابوت پرآخری کیل ثابت ہوگا۔

اسماعیلی کمیونٹی کے اِن معصوموںکا قصورتھا توفقط اتناکہ وہ انتہائی محبِ وطن، شریف النفس اورمرنجاںمرنج لوگ تھے۔ مرنے والوںکی تعداد سینتالیس ہوچکی جن میںانیس خواتین بھی شامل ہیں۔ہمارے سپہ سالارجنرل راحیل شریف سری لنکاکے تین روزہ دَورے پرجانے کے لیے تیار بیٹھے تھے کہ اِس سانحے کی اطلاع مِل گئی ۔اُنہوںنے اپنادَورہ منسوخ کیااور کراچی پہنچ گئے۔ وزیرِاعظم صاحب پاک چین اقتصادی راہداری پرمتفقہ مؤقف کے لیے آل پارٹیز کانفرنس میںمصروف تھے ۔وہ کئی گھنٹوںپر محیط اِس کانفرنس کے بعدانتہائی تھکن کے باوجود رات ہونے سے پہلے کراچی پہنچ گئے ۔پھرسیاسی اورعسکری قیادت سَرجوڑ کربیٹھی اوردہشت گردی کے خلاف اِس جنگ کوآخری اورفیصلہ کُن مرحلے میںداخل کرنے کے لیے اختیارکی جانے والی تدابیر کی نوک پلک سنواری جانے لگی۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

اعتراض ہواکہ وزیرِاعظم صاحب کانفرنس چھوڑکر فوری طورپر کراچی کیوںنہیں پہنچے ۔ایک صاحب جوبیک وقت کالم نگار،اینکر ،گلوکار ،اداکار ،مصلح اورپتہ نہیں کیاکیا کچھ ہیں ،نے اپنے کالم میںلکھا ”کمال تویہ ہے کہ کراچی میں لاشوںپر لاشیں اُٹھائی جارہی تھیں اورقوم کے ”عظیم رہنما” ملکی تاریخ کے ”اہم ترین اجلاس” میں آئس کریم ،کباب ،سموسے ،ڈرائی فروٹ اوردیگر ”اشیائے بحالیٔ توند”مزے لے لے کرتناول فرمارہے تھے ،کراچی جاناکسی کے لیے ضروری نہیںتھا ۔اسفندیار ولی نے آنکھیں نکال کرمنع کیاتو فضل الرحمٰن نے عام ساحادثہ قراردے کر نظرانداز کردیا۔مشاہدحسین کے لیے اجلاس ضروری تھاکیونکہ ”آئس کریم ”بہت اچھی تھی اورتحریکِ انصاف کویہاںسے ایک اوردھرنے کی خوشبو آرہی تھی”۔ محترم نے جوکچھ لکھا، شایددلی درد کے ساتھ لکھالیکن اُنہیںیہ غورتو کرناچاہیے کہ جوطاغوتی طاقتیںپاک چین اقتصادی راہداری کے پلان کوسبوتاژ کرناچاہتی ہیںآخراُنہوں نے سانحہ صفوراکے لیے عین اُسی دن کاانتخاب کیوں کیا

جس دِن وزیرِاعظم صاحب اسی اقتصادی راہداری کی بابت بلائی گئی آل پارٹیزکانفرنس میںمصروف تھے ۔صاف ظاہرہے کہ طاغوتی طاقتوںکا مقصدہی یہ تھاکہ افراتفری میںوزیرِاعظم صاحب عازمِ کراچی ہوںاور معاملہ لٹک جائے ۔ایوانِ وزیرِاعظم میںمنعقدہ آل پارٹیزکانفرنس کے تمام شرکاء کایہ متفقہ فیصلہ تھاکہ کانفرنس جاری رکھی جائے ۔اگریہ کانفرنس منسوخ کردی جاتی توپاکستان کی ترقی کے دشمنوںکا ایجنڈاپایۂ تکمیل تک پہنچ جاتا۔ کانفرنس کے شرکاء کے لیے ظہرانے کااہتمام پہلے سے کیاجا چکاتھا لیکن مصدقہ اطلاعات کے مطابق وزیرِاعظم صاحب نے دل گرفتگی کے عالم میںظہرانے کی میزکی طرف رُخ ہی نہیںکیا۔

محترم لکھاری نے اپنے کالم میںبھی ذکرکیا اورہمارے سیکرٹری خارجہ اعزازاحمد چودھری نے بھی اسلام آبادمیں ہونے والی ایک تقریب میںبرملا کہا ” پاکستان میںہونے والی دہشت گردی اورداخلی معاملات میں ”را” کی مداخلت کے ناقابلِ تردید شواہدسے بھارت کوباربار آگاہ کیاجا چکاہے۔اگربھارت نے پاکستان کوعدم استحکام کاشکار کرنے والی کارروائیوںکا سلسلہ بندنہ کیاتو پھرپاکستان بھرپورجواب دیناجانتا ہے ۔بھارت اپنی حَد میںرہے اور”را” کو بھی قابومیں رکھے ”۔ افغانستان کے مختصردَورے پربھی وزیرِاعظم صاحب اورچیف آف آرمی سٹاف صاحب نے افغانی صدرکو ایسے ناقابلِ تردید ثبوت پیش کیے جن سے ظاہرہوتا تھا

RAW

RAW

”را” کے ایجنٹ افغانستان کے راستے پاکستان میںتخریبی کارروائیاں کرتے ہیں۔افغانی صدراشرف غنی صاحب نے نہ صرف پاکستان کامؤقف تسلیم کیابلکہ یہاںتک کہہ دیاکہ اُن کے پاس بھی ایسے ثبوت ہیںجن سے ظاہرہوتا ہے کہ ”را”کے ایجنٹ افغانستان کے راستے پاکستان میںتخریبی کارروائیاںکرتے ہیں۔ سانحۂ صفورامیں یقیناََ”را” ہی کاہاتھ ہے اورمقصد اُس پاک چائنہ اکنامک کوریڈور منصوبے کوثبوتاژ کرناجس کے منظرِعام پرآتے ہی بھارت کے پیٹ میں مروڑاُٹھنے لگے ہیں۔

چلتے چلتے کچھ ذکرکپتان صاحب کے ملتان کے جلسے کا۔ تحریکِ انصاف نے ملتان میںہونے والے پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخاب کی ایک سیٹ کی خاطراپنے امیدوارکی حمایت میںجلسہ کرکے انتخابی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا۔ یہ معاملہ الیکشن کمیشن جانے یاتحریکِ انصاف ،ہمیں دکھ ہے تو صرف یہ کہ خاںصاحب کے پاس سانحۂ صفوراکے لواحقین کے دُکھ میںشریک ہونے کاتو وقت نہیںتھا ،کبھی خاںصاحب کی طبیعت خراب ہوتی رہی تو کبھی موسم کی ، اسلام آبادسے کراچی تک خراب موسم کے باوجودجہاز اُڑان بھرتے رہے

لیکن خاںصاحب کاطیارہ نہ اُڑسکا البتہ یہی طیارہ ”خوشی خوشی”ملتان ایئرپورٹ پرپہنچ گیا۔ سانحۂ صفوراکے لواحقین سے تعزیت تورکھیں ایک طرف ،تحریک کے جلسے میںتوناچ گانے کاوہی عالم تھاجو اب تحریک کے جلسوںکی پہچان بن چکاہے ۔اِس دفعہ توشاہ محمودقریشی صاحب بذاتِ خود”روسٹرم”پر کھڑے ”تھرکتے” پائے گئے ۔کم ازکم صرف دودِن پہلے ہونے والے دِلخراش سانحۂ صفوراچورنگی کاہی خیال کرلیا جاتا۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر