لاہور : بیرون ممالک میں حکومتیں صحافیوں کو وسائل اور سہولتیں فراہم کرتی ہیں مگر پاکستان میں حکومتی پالیسی یکسر مختلف ہے ۔بیرونی دنیا میں سچ لکھنے پر صحافیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے مگر پاکستان میں سچ لکھنے اور قومی مسائل کو اجاگر کرنے پر صحافیوں کو بدترین خطروں کا سامنا اور اکثر اوقات جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار سینئرصحافی ،کالم نگار وکالمسٹ کونسل آف پاکستان (سی سی پی ) کے مرکزی صدر ایم اے تبسم نے صحافیوں ،کالم نگاروں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا،وفدمیں بزرگ ،سینئر کالم نگارع۔م بدرسرحدی،اقبال کھوکھر،امتیازعلی شاکر،ساحرقریشی،ڈاکٹرنائلہ نزیر،عمرشفیق ملک ودیگر موجودتھے،ایم اے تبسم نے کہا کہ صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دینے کیلئے حکومت کی جانب سے مکمل تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔
ایم اے تبسم نے کہا کہ آج کے اس پر خوف ماحول میں تمام تر خطرا ت کے باوجود صحافی اپنی جانوں کی پرواہ نہ کئے ہوئے قلم کی حُرمت برقرار رکھنے کیلئے کوشاں ہے ۔انہوں نے کہا کہ صحافت پیغمبروں کا پیشہ ہے اور مقدس پیشہ سے جہاں ملک کے بڑے بڑے عظیم لوگ وابستہ ہیں وہاںملک کے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور انڈسٹریلسٹ نے ملک میں بڑے بڑے میڈیا ہائوسزقائم کر کے ملک میں اعزاز ی صحافت کے نام پر صحافیوں کا معاشی استحصال کررکھا ہے ۔آج تک صحافیوں کے بچے تعلیم،صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ صحافی ہی تھے جن کے باعث انقلاب فرانس برپا ہے،عوام کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کیلئے جدوجہد کرنے والے صحافی آج انتہائی کربناک صورتحال سے دوچار ہیں۔ملک میںمافیا کی حکومت ہے اور جب بھی صحافی ان کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، تو پھر صحافیوںکو اپنی زندگی سمیت دیگر خطروں سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ایم اے تبسم نے کہا کہ جب تک صحافی اکٹھے نہیں ہو نگے،باہمی اتحاد پیداء نہیں کریں گے تب تک صحافیوں کے مسائل میں کمی پیدا نہیں ہو سکے گی۔
انہوںنے کہا کہ 1998سے لیکر آج تک دنیا بھرمیں1500صحافی قتل ہو چکے ہیںاور پاکستان میں 300صحافی قتل ہو چکے ہیں اور یہ و ہ تعداد ہے جو کہ صرف رپورٹ ہوئی ہے مگر حقیقت میں ہلاکتیں ان سے کہیں زیادہ ہیں ۔ ملک بھر میں90فیصد صحافی اعزازی صحافت کی آڑ میںمعاشی استحصال کا شکار ہیں۔انہوں نے کہا کہ صحافی آج کے دور میں اتنا آزاد نہیں ہے ،اپنے پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کیلئے آج جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے اندازے کیلئے کوئی پیمانہ موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ تمام صحافی اپنے اپنے علاقے میں مقامی طور پر متحد ہو کر اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے باہمی اتحاد پیدا ء کریں۔