تحریر : شاہد شکیل موجودہ ملکی حالات پر تبصرہ کرنے، اداروں پر الزام لگانے ،تنقید کرنے ، کسی واقعہ میں سست روی دکھانے یا فردِ واحد کو موردِالزام ٹھہرانے سے نہ تو مسائل میں کمی واقع ہوتی ہے اور نہ کسی ریاست میں خوشحالی اور ترقی کا دورآتا ہے کیونکہ جب تک ریاست کا بنیادی نظام درست نہیں ہوگا مسائل جوں کے توں رہیں گے اور بنیادی نظام کو درست کرنے میں حکومت جب تک ریاست میں شناختی اور رجسٹریشن سسٹم درست نہیں کرے گی آئے دن دہشت گردی اور دیگر جرائم میں اضافہ ہوتا رہے گا جس میں صرف بے گناہ افراد موت کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے ،حکومتی ادارے جب تک ریاستی قوانین جن میں سر فہرست شناختی سسٹم ہے کو جدید طریقے سے ڈیویلپ نہیں کرے گی اور سیکیورٹی سسٹم میں کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو گا خوشحالی نہیں آئے گی۔
کہنے کو تو کہا جاتا ہے کہ ملک میں قوانین موجود ہیں لیکن عمل درآمد نہیں کیا جاتا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں عمل درآمد نہیں کیا جاتا؟کن لوگوں پر قانون کی چھری چلتی ہے اور کون مجرم ہوتے ہوئے بھی باعزت زندگی گزارتے ہیں؟حکومتوں میں کرپشن کوئی نئی بات نہیں ہے اونچے عہدوں پر فائز لوگ اپنی کرسی کا ناجائز استعمال کرتے ہیں سرکاری افسران بعض اوقات حکومت کے پیسے کا غبن کرتے ہیں یا پھر مراعات اور سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں جنہیں استعمال کرنے کا حق انہیں نہیں ہے اکثر وہ اپنے رشتے داروں یا دوستوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہیں ،اگرچہ کرپشن کسی بھی انسانی تنظیم یا ادارے میں پائی جا سکتی ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ حکومت میں کرپشن سب سے زیادہ پائی جاتی ہے کاروباری اور حکومتی سطح پر کرپشن کا جائزہ لینے والے عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل نے دو ہزار چودہ میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ دنیا بھر کے لوگوں کا خیال تھا کہ پانچ اداروں میں سب سے زیادہ کرپشن پائی جاتی ہے ،
سیاسی جماعتیں ،پولیس ، سرکاری محکمے ،قانون ساز ادارے اور عدلیہ ، ادارے نے بتایا کہ حکومت میں کرپشن کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں تاہم اگر حکومتیں چاہیں تو اپنے انتظامات میں بڑی بڑی تبدیلیاں لا سکتی ہیں۔ دنیا بھر میں ایک ادارہ جسے رجسٹریشن آفس کہا جاتا ہے ریاست کا ستون بھی ہے اور ریڑھ کی ہڈی بھی کیونکہ اس ادارے میں ریاست کے عوام کے علاوہ غیر ملکیوں کی آمد ،رہائش ، اور اخراج تک کا بائیو ڈیٹا ہوتا ہے، اس ادارے میں ذمہ داری سے فرائض انجام دیئے جاتے ہیں،اگر کسی ریاست میں رجسٹریشن کا نظام درست نہیں وہاں کبھی قوانین کا احترام نہیں کیا جاتا،مغربی ممالک میں رجسٹریشن ایک لازمی جز ہے اس کے بغیر شاید ہی کوئی کام پایہ تکمیل تک پہنچتا ہو، کیونکہ شناختی کارڈ اور رجسٹریشن ہی وہ لازمی جز ہیں جس سے مسائل میں کمی اور ترقی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں،یہاں میں جرمنی میں رائج آئی کارڈ اور رجسٹریشن کا ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ اگر یہ نظام رائج نہ ہو تو جرمنی میں جرائم کی دنیا آباد ہوچکی ہو،
Law
علاوہ ازیں عوام میں بھی شعور پایا جانے کی بدولت قوانین کا احترام خود بخود جنم لیتا ہے۔بچے کی پیدائش سے اموات تک آئی ڈی کارڈ اور رجسٹریشن کا ساتھ تاحیات رہتا ہے،مثلاً بچے کی پیدائش کے بعد ہوسپیٹل میں ہی والدین کو رجسٹریشن فارم مہیا کر دیا جاتا ہے جس میں تمام کوائف کا اندراج ہوتا ہے کہ تین دن کے اندر بچے کی رجسٹریشن لازمی ہے ، جرمنی میں ہر بڑے چھوٹے شہر کے علاوہ قصبوں میں بھی رجسٹریشن آفس قائم ہیں بچوں کی پیدائش کے علاوہ روزمرہ زندگی کے تمام پہلوؤں کے پیشِ نظر ، عوام کو فائدہ اور سہولت پہنچانے کے علاوہ قوانین پر عمل کرنے میں آسانی پیدا ہو اسی بنا پر ضرویات زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا ہے،رجسٹریشن آفس بوقت ضرورت ہر ادارے سے تعاون کرتا ہے علاوہ ازیں پولیس ڈیپارٹمنٹ اور فارن آفس رجسٹریشن آفس کا خاص حصہ ہیں
بلکہ تینوں ادارے اکٹھا اپنے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں،پولیس پیٹرولنگ گاڑیوں میں جدید طرز کا کمپیوٹرائزڈ نظام ہے دوران چیکنگ صرف آئی کارڈ یا ڈرائیونگ لائسنس سے آن لائن باآسانی پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ رجسٹریشن درست ہے یا نہیں، موجودہ پتہ اور اس سے قبل کس جگہ اور کن شہروں میں کب تک مقیم رہا اور کسی جرم میں ملوث تو نہیں وغیرہ وغیرہ ۔نئی رہائش ، تبدیلی رہائش، منسوخی رہائش میں رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا ہے تین دن کے اندر رجسٹریشن آفس میں اندراج نہ کروانے پر کم سے کم پانچ سو یورو جرمانہ کیا جاتا ہے،رہائشی تبدیلی کے دوران رجسٹریشن آفس نیا شناختی کارڈ نئے پتہ کے ساتھ جاری کرتا ہے اور اس فرد کا تمام بائیو ڈیٹا پولیس ڈیپارٹمنٹ کو آن لائن ٹرانسفر کیا جاتا ہے
اس عمل سے حکومت ، پولیس اور عوام کو فائدہ ہوتا ہے ،ایمر جینسی یعنی ایکسیڈینٹ وغیرہ ہو جانے پر پولیس یا ریسکیو ڈیپارٹمنٹ بذریعہ شناختی کارڈ فوراً پتہ لگا لیتے ہیں اور لواحقین کو مطلع کرتے ہیں دوسرا فائدہ پولیس کو ہوتا ہے کہ اگر کوئی فرد جرم کے بعد فرار ہوگیا ہے اور مخبری یا نشاندہی سے پولیس کو مطلع کیا جاتا ہے تو پولیس ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے مخصوص جگہوں پر چھاپے مار کر مجرم کو گرفتار کر لیتی ہے،رجسٹریشن کے دوران آفس کو چند دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے
ID Card
مثلاً رجسٹریشن فارمولا، برتھ سرٹیفیکیٹ، اٹھارہ سال سے کم بچوں کا شناختی کارڈ ، مالک مکان سے تصدیق شدہ ایگریمنٹ کہ کب شفٹ ہوئے، شادی شدہ ہیں تو میرج سرٹیفیکیٹ وغیرہ، رجسٹریشن فارم آن لائن پُر کرنے کے بعد پرنٹ آؤٹ کیا جا سکتا ہے، رجسٹریشن سے متعلق تمام تفصیلات ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں،گاڑیوں کی خرید و فروخت اور نمبر پلیٹس کی تبدیلی وغیرہ مقامی ٹریفک آفس میں ایک ہفتہ کے اندر رجسٹر کروانا لازمی ہے،خلاف ورزی پر بھاری جرمانہ ہوتا ہے، کسی قسم کا کورس یا طالب علموں کی رجسٹریشن لازمی ہے مثلاً کس شہر سے آئے ہیں کس جگہ کورس یا تعلیم حاصل کر رہے ہیں،
تمام دستاویزات کے ساتھ رجسٹریشن لازمی ہے، بے روزگاری یا نیا جاب ملنے پر مقامی جاب سینٹر میں اطلاع دینا لازمی ہے، اگر بزنس ہے تو ایڈریس کی تبدیلی یا بزنس میں رد و بدل پر ٹیکس اتھارٹی یا متعلقہ ٹیکس آفس میں رجسٹریشن لازمی ہے، رہائش کی منتقلی میں بچوں کے سکول یا کنڈر گارڈن میں داخلہ و اخراج کے بعد رجسٹریشن لازمی ہے، گھر میں کتنے ٹی وی ،ریڈیو اور کمپیوٹرز استعمال ہوتے ہیں رجسٹریشن لازمی ہے حتیٰ کہ پالتو جانوروں کی رجسٹریشن اور ٹیکس دینا بھی لازمی ہے خلاف وزری کرنے پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ تمام مغربی ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کے چند ممالک میں ایسے قوانین کئی سالوں سے رائج ہیں عوام قوانین کا احترام کرتے ہیں اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔
دیارِ غیر میں بسنے والے کئی لوگ خواہش رکھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی اگر عوام کی بھلائی اور ملک کی خوشحالی کیلئے ایسے قوانین نافذ ہو جائیں اور خاص طور سے شناختی کارڈ و رجسٹریشن سسٹم کو جدید تیکنیک سے رائج کیا جائے تو کوئی غیر ملکی جرات نہیں کرے گا کہ جب جی چاہا دہشت گردی کی اور رفو چکر ہو گیا، غیر ملکیوں پر کڑی نظر رکھیں اور اگر وہ ملکی سلامتی اور تحفظ کیلئے خطرہ ہیں تو کسی قسم کی لچک یا نرمی نہ برتی جائے ، اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ، خوشحالی اور ترقی ہے۔
رجسٹریشن
Posted on May 18, 2015 By Mohammad Waseem کالم
Shortlink:
Registration
تحریر : شاہد شکیل
موجودہ ملکی حالات پر تبصرہ کرنے، اداروں پر الزام لگانے ،تنقید کرنے ، کسی واقعہ میں سست روی دکھانے یا فردِ واحد کو موردِالزام ٹھہرانے سے نہ تو مسائل میں کمی واقع ہوتی ہے اور نہ کسی ریاست میں خوشحالی اور ترقی کا دورآتا ہے کیونکہ جب تک ریاست کا بنیادی نظام درست نہیں ہوگا مسائل جوں کے توں رہیں گے اور بنیادی نظام کو درست کرنے میں حکومت جب تک ریاست میں شناختی اور رجسٹریشن سسٹم درست نہیں کرے گی آئے دن دہشت گردی اور دیگر جرائم میں اضافہ ہوتا رہے گا جس میں صرف بے گناہ افراد موت کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے ،حکومتی ادارے جب تک ریاستی قوانین جن میں سر فہرست شناختی سسٹم ہے کو جدید طریقے سے ڈیویلپ نہیں کرے گی اور سیکیورٹی سسٹم میں کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو گا خوشحالی نہیں آئے گی۔
کہنے کو تو کہا جاتا ہے کہ ملک میں قوانین موجود ہیں لیکن عمل درآمد نہیں کیا جاتا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں عمل درآمد نہیں کیا جاتا؟کن لوگوں پر قانون کی چھری چلتی ہے اور کون مجرم ہوتے ہوئے بھی باعزت زندگی گزارتے ہیں؟حکومتوں میں کرپشن کوئی نئی بات نہیں ہے اونچے عہدوں پر فائز لوگ اپنی کرسی کا ناجائز استعمال کرتے ہیں سرکاری افسران بعض اوقات حکومت کے پیسے کا غبن کرتے ہیں یا پھر مراعات اور سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں جنہیں استعمال کرنے کا حق انہیں نہیں ہے اکثر وہ اپنے رشتے داروں یا دوستوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہیں ،اگرچہ کرپشن کسی بھی انسانی تنظیم یا ادارے میں پائی جا سکتی ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ حکومت میں کرپشن سب سے زیادہ پائی جاتی ہے کاروباری اور حکومتی سطح پر کرپشن کا جائزہ لینے والے عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل نے دو ہزار چودہ میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ دنیا بھر کے لوگوں کا خیال تھا کہ پانچ اداروں میں سب سے زیادہ کرپشن پائی جاتی ہے ،
سیاسی جماعتیں ،پولیس ، سرکاری محکمے ،قانون ساز ادارے اور عدلیہ ، ادارے نے بتایا کہ حکومت میں کرپشن کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں تاہم اگر حکومتیں چاہیں تو اپنے انتظامات میں بڑی بڑی تبدیلیاں لا سکتی ہیں۔ دنیا بھر میں ایک ادارہ جسے رجسٹریشن آفس کہا جاتا ہے ریاست کا ستون بھی ہے اور ریڑھ کی ہڈی بھی کیونکہ اس ادارے میں ریاست کے عوام کے علاوہ غیر ملکیوں کی آمد ،رہائش ، اور اخراج تک کا بائیو ڈیٹا ہوتا ہے، اس ادارے میں ذمہ داری سے فرائض انجام دیئے جاتے ہیں،اگر کسی ریاست میں رجسٹریشن کا نظام درست نہیں وہاں کبھی قوانین کا احترام نہیں کیا جاتا،مغربی ممالک میں رجسٹریشن ایک لازمی جز ہے اس کے بغیر شاید ہی کوئی کام پایہ تکمیل تک پہنچتا ہو، کیونکہ شناختی کارڈ اور رجسٹریشن ہی وہ لازمی جز ہیں جس سے مسائل میں کمی اور ترقی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں،یہاں میں جرمنی میں رائج آئی کارڈ اور رجسٹریشن کا ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ اگر یہ نظام رائج نہ ہو تو جرمنی میں جرائم کی دنیا آباد ہوچکی ہو،
Law
علاوہ ازیں عوام میں بھی شعور پایا جانے کی بدولت قوانین کا احترام خود بخود جنم لیتا ہے۔بچے کی پیدائش سے اموات تک آئی ڈی کارڈ اور رجسٹریشن کا ساتھ تاحیات رہتا ہے،مثلاً بچے کی پیدائش کے بعد ہوسپیٹل میں ہی والدین کو رجسٹریشن فارم مہیا کر دیا جاتا ہے جس میں تمام کوائف کا اندراج ہوتا ہے کہ تین دن کے اندر بچے کی رجسٹریشن لازمی ہے ، جرمنی میں ہر بڑے چھوٹے شہر کے علاوہ قصبوں میں بھی رجسٹریشن آفس قائم ہیں بچوں کی پیدائش کے علاوہ روزمرہ زندگی کے تمام پہلوؤں کے پیشِ نظر ، عوام کو فائدہ اور سہولت پہنچانے کے علاوہ قوانین پر عمل کرنے میں آسانی پیدا ہو اسی بنا پر ضرویات زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا ہے،رجسٹریشن آفس بوقت ضرورت ہر ادارے سے تعاون کرتا ہے علاوہ ازیں پولیس ڈیپارٹمنٹ اور فارن آفس رجسٹریشن آفس کا خاص حصہ ہیں
بلکہ تینوں ادارے اکٹھا اپنے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں،پولیس پیٹرولنگ گاڑیوں میں جدید طرز کا کمپیوٹرائزڈ نظام ہے دوران چیکنگ صرف آئی کارڈ یا ڈرائیونگ لائسنس سے آن لائن باآسانی پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ رجسٹریشن درست ہے یا نہیں، موجودہ پتہ اور اس سے قبل کس جگہ اور کن شہروں میں کب تک مقیم رہا اور کسی جرم میں ملوث تو نہیں وغیرہ وغیرہ ۔نئی رہائش ، تبدیلی رہائش، منسوخی رہائش میں رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا ہے تین دن کے اندر رجسٹریشن آفس میں اندراج نہ کروانے پر کم سے کم پانچ سو یورو جرمانہ کیا جاتا ہے،رہائشی تبدیلی کے دوران رجسٹریشن آفس نیا شناختی کارڈ نئے پتہ کے ساتھ جاری کرتا ہے اور اس فرد کا تمام بائیو ڈیٹا پولیس ڈیپارٹمنٹ کو آن لائن ٹرانسفر کیا جاتا ہے
اس عمل سے حکومت ، پولیس اور عوام کو فائدہ ہوتا ہے ،ایمر جینسی یعنی ایکسیڈینٹ وغیرہ ہو جانے پر پولیس یا ریسکیو ڈیپارٹمنٹ بذریعہ شناختی کارڈ فوراً پتہ لگا لیتے ہیں اور لواحقین کو مطلع کرتے ہیں دوسرا فائدہ پولیس کو ہوتا ہے کہ اگر کوئی فرد جرم کے بعد فرار ہوگیا ہے اور مخبری یا نشاندہی سے پولیس کو مطلع کیا جاتا ہے تو پولیس ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے مخصوص جگہوں پر چھاپے مار کر مجرم کو گرفتار کر لیتی ہے،رجسٹریشن کے دوران آفس کو چند دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے
ID Card
مثلاً رجسٹریشن فارمولا، برتھ سرٹیفیکیٹ، اٹھارہ سال سے کم بچوں کا شناختی کارڈ ، مالک مکان سے تصدیق شدہ ایگریمنٹ کہ کب شفٹ ہوئے، شادی شدہ ہیں تو میرج سرٹیفیکیٹ وغیرہ، رجسٹریشن فارم آن لائن پُر کرنے کے بعد پرنٹ آؤٹ کیا جا سکتا ہے، رجسٹریشن سے متعلق تمام تفصیلات ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں،گاڑیوں کی خرید و فروخت اور نمبر پلیٹس کی تبدیلی وغیرہ مقامی ٹریفک آفس میں ایک ہفتہ کے اندر رجسٹر کروانا لازمی ہے،خلاف ورزی پر بھاری جرمانہ ہوتا ہے، کسی قسم کا کورس یا طالب علموں کی رجسٹریشن لازمی ہے مثلاً کس شہر سے آئے ہیں کس جگہ کورس یا تعلیم حاصل کر رہے ہیں،
تمام دستاویزات کے ساتھ رجسٹریشن لازمی ہے، بے روزگاری یا نیا جاب ملنے پر مقامی جاب سینٹر میں اطلاع دینا لازمی ہے، اگر بزنس ہے تو ایڈریس کی تبدیلی یا بزنس میں رد و بدل پر ٹیکس اتھارٹی یا متعلقہ ٹیکس آفس میں رجسٹریشن لازمی ہے، رہائش کی منتقلی میں بچوں کے سکول یا کنڈر گارڈن میں داخلہ و اخراج کے بعد رجسٹریشن لازمی ہے، گھر میں کتنے ٹی وی ،ریڈیو اور کمپیوٹرز استعمال ہوتے ہیں رجسٹریشن لازمی ہے حتیٰ کہ پالتو جانوروں کی رجسٹریشن اور ٹیکس دینا بھی لازمی ہے خلاف وزری کرنے پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ تمام مغربی ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کے چند ممالک میں ایسے قوانین کئی سالوں سے رائج ہیں عوام قوانین کا احترام کرتے ہیں اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔
دیارِ غیر میں بسنے والے کئی لوگ خواہش رکھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی اگر عوام کی بھلائی اور ملک کی خوشحالی کیلئے ایسے قوانین نافذ ہو جائیں اور خاص طور سے شناختی کارڈ و رجسٹریشن سسٹم کو جدید تیکنیک سے رائج کیا جائے تو کوئی غیر ملکی جرات نہیں کرے گا کہ جب جی چاہا دہشت گردی کی اور رفو چکر ہو گیا، غیر ملکیوں پر کڑی نظر رکھیں اور اگر وہ ملکی سلامتی اور تحفظ کیلئے خطرہ ہیں تو کسی قسم کی لچک یا نرمی نہ برتی جائے ، اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ، خوشحالی اور ترقی ہے۔
Shahid Sakil
تحریر : شاہد شکیل
visit official site:
http://www.aghaz.eu/
by Mohammad Waseem
Mohammad Waseem - Editor at GeoURDU.com Pakistan