تحریر: اِقراء سحر آج میں جس ہستی کے متعلق لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں وہ اتنی عظیم ہستی ہے کہ میرے جیسی ادنیٰ انسان کو ان کے قدموں کی خاک ہونے کے لئے بھی بے پناہ محبت ِ دین، عشقِ رسولۖ اور عباداتِ الہٰی کی ضرورت ہے۔ یہ وہ ہستی ہیں کہ جن کے محض نام لینے سے ارواح اس قدر لطافت محسوس کرتی ہیں کہ اس کے جہانِ کل کی ہر شے سرورِ عبادت و محبت نظر آتی ہے۔ میں بات کر رہی ہوں حضورِ اقدس ۖ کے رفیق، اسلام کے عظیم جانثار، محرم اسرار نبوت، ثانی اثنین فی لغار سیدنا ابوبکر صدیق کی۔ آپ کا نام عبداللہ، کنیت ابوبکر اور لقب صدیق ہے۔ آپ کے والد گرامی کا نام قحافہ تھا۔ آپ قبیلہ قریش کی شاخ بنی تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ چھٹی پشت سے آپ کا گھرانہ پاک پیغمبر حضرت محمد ۖ سے جا ملتا ہے۔ آپ کا گھرانہ زمانہ جاہلیت ہی سے نہایت معزز تھا اور اسلام کے ابتدائی اور ارتقائی ادوار میں تو آپ نے وہ عظیم الشان خدمات و قربانیاں سرانجام دیں کہ جن کی مثال نہ تو کبھی آپ سے پہلے مل پائی اور نہ ہی رہتی دنیا تک مل پانا ممکن ہے۔ آپ کے خاندان کی عظمت کی مثال یہ ہے کہ قریش کے نظام سیاسی میں خون بہا کے مال کی امانتداری کا عہدہ آپ ہی کے گھرانے کے ذمہ تھا۔
اسلام سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق کا پیشہ تجارت تھا۔ آپ ابتداء ہی سے سلیم الفطرت تھے چنانچہ زمانہ جاہلیت مٰں بھی آپ کا دامن اخلاقِ عرب کے عام مفاسد جیسے شراب نوشی، جوا، پانسے، سود خوری، بددیانتی، ریاکاری وغیرہ سے بالکل پاک تھا اور اسی زمانہ سے لوگوں پر آپ کے حسن خلق، راست بازی، متانت اور سنجیدگی کا سکہ بیٹھا ہوا تھا اور شرفائے مکہ میں آپ کو بڑی عزت وتکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ تقریباً آنحصرتۖ کے ہم عصر تھے۔طبیعت کی یکسانیت و سنجیدگی کی وجہ سے بچپن ہی سے دونوں میں گہرے تعلقات و روابط استوار ہو گئے تھے۔ انہی روابط کی بنا پر دونوں ایک دوسرے کی سیرت اور اخلاق و عادات سے اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے۔ چنانچہ جس وقت آنحضرتۖ نے پہلی مرتبہ اسلام کی دعوت دی تو حضرت ابو بکر صدیق نے بغیر کسی ہچکچاہٹ، بنا کسی شک و شبہ کے اس کی تصدیق کی۔ مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد آپ نے اسلام کی تبلیغ میں آپ ۖ کے دست راست بن گئے اور راہِ خدا میں جان و مال ، عزت و آبروسب کچھ نثار کر دیا۔ یہاں تک کہ میدانِ جنگ میں بھی کوئی دوسرا صحابی آپ سے بازی نہ لے جا سکا۔ بعض مواقع پر گھر کا سارا اثاثہ خدا کی راہ میں دے دیا، جب حضورِ اقدسۖ نے پوچھا کہ کچھ اہل و عیال کے لئے بھی چھوڑا ہے؟ تو عرض کیا ان کے لئے اللہ اور اس کا رسول ۖ ہی کافی ہے۔ (ترمذی مناقب ابی بکر)
کسی صحابی کی اسلامی خدمات آپ کے برابر نہیں۔ ان کی مختصر فہرست یہ ہے کہ قریش کے سن رسیدہ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا، مکہ کی پر خطر اور مظلومیت کی زندگی کے ہر مرحلہ میں آنحضرتۖ کے پشت پناہ رہے، تبلیغ اسلام میں آپ ۖ کی رفاقت کرتے رہے، جہاں حضور اکرمۖ تشریف لے جاتے، انہیں ساتھ لے جاتے اور دونوں اپنے جانے والوں سے ایک دوسرے کا تعارف کرواتے۔ (کنز العمال)۔حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور حضرت عثمان بن مظعون جیسے اکابر صحابہ آپ کی کوششوں سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ (بخاری، باب مانفٰی النبیۖ و اصحاب من الشرکین)۔ الغرض آغازِ اسلام سے لے کر وفاتِ نبوی ۖ تک ہر مرحلہ میں حضرت ابو بکر صدیق نے آنحضرت ۖ کی جانثارانہ رفاقت کی۔ آپ پر ان کی قربانیوں کا اتنا اثر تھا کہ فرماتے تھے کہ ”جان و مال کے لحاظ سے مجھ پر ابو بکر کے سوا کسی کا حق نہیں”۔ (بخاری باب فضائل ابی بکر)۔
Muhammad PBUH
حضور اقدسۖ کی حیاتِ طیبہ میں آپ ہمہ وقت آپۖ کے ساتھی و ہمنوا تھے۔ لیکن اصل امتحان حضور پر نورص کے رحلت فرما جانے کے بعد شروع ہوا۔ آپ ۖ کا اس دنیا سے رحلت فرما جانا ہی آپ کے لئے اتنا بڑا صدمہ تھا کہ پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو کہ اس آفت ناگہانی پر صبر کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو، لیکن اس صورت میں بھی آپ کو خلافت کی ذمہ داری اٹھانا پڑی، آپ ابھی غم و دکھ کی شدید کیفیت سے گزر رہے تھے اور پاک پیغمبر کی تجہیز و تدفین بھی نہ ہوئی تھی کہ سقیفہ بنی ساعدہ کا مسلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو سیدنا ابوبکر صدیق کی جدوجہد اسلام کا حقیقی دور پاک پیغمبرۖ کے اس دنیا سے رحلت فرما جانے کے بعد شروع ہواکیونکہ حضور اکرمۖ کی صحبتِ طیبہ میں رہتے ہوئے تو پاکیزگی و راست بازی و جانثاری کا عالم ایک بندہ خدا کے لئے بجا سی بات ہے لیکن آپ ۖ کے ناموجود ہوتے ہوئے اپنی خصوصیات کو برقرار رکھنا اور خدمات پر جمے رہنا اور عظیم الشان کارنامے سرانجام دینا بہت بڑی بات ہے۔
رحلتِ محبوبِ خدا ۖ کے بعد جو سب سے پہلی مشکل پیش آئی اسے تاریخ میں سقیفہ بنی ساعدہ کے نام سے رقم کیا گیا ہے۔ مدینہ میں منافقوں کی جماعت جن کا اچعار دوستی کے پردہ میں اسلام کا شیرازہ بکھیرنا تھا، ہمیشہ سے موجود تھی اور ہر موقع پر انی اسلام دشمنی کا ثبوت دیتی تھی۔ چونکہ رسول اللہ ۖ نے کسی کو اپنا جانشین نامزد نہیں فرمایا تھا اس لئے آنحضرت ۖ کی وفات کے بعد اس جماعت کو فتنہ انگیزی کا موقع مل گیا۔ چنانچہ آپ ۖ کی وفات کے بعد تجہیز و تکفین سے پہلے ہی منافقین کی سازش سے آپۖ کی جانشینی کا مسلہ چھڑ گیا اور انصار نے سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو کر جانشینی کا دعویٰ کیا۔ یہ مسلہ ایسے نازک وقت چھڑا تھا کہ اگر فوراً اس کا تدارک نہ کیا جاتا تو بڑی نازک صورتحال پیدا ہو جاتی ۔ لیکن حضرت ابو بکر کو بروقت اس کی اطلاع ہو گئی اور آپ فوراً حضرت عمر اور امین الامت حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو ساتھ لے کر سقیفہ بنی ساعدہ پہنچے، یہاں دیکھا تو دوسرا ہی گل کھلا ہوا تھا، انصار مدعی تھے کہ آنحضرتۖ کی جانشینی میں انہیں بھی حصہ ملنا چاہئے اور قریش کے ساتھ ان کی جماعت کا بھی ایک امیر نائب الرسولۖ ہونا چاہئے لیکن ایک شخص کے دو جانشین ہونے کے نتائج بالکل ظاہر ہیں اس لئے اس صورت کو قبول کرنے کے معنی خود اپنے ہاتھوں سے اسلامی نظام درہم برہم کرنے کے تھے۔ یہ ہو سکتا تھا کہ تنہا انصاریوں کو ہی یہ منصب مل جاتا لیکن اس میں دقت تھی کہ اولاً قریش خود قریش، پھر دوسرے عرب قبائل قریش کے علاوہ اور کسی خاندان کے سامنے سر نہیں جھکا سکتے تھے۔ پھر انصاریوں میں اوس و خزاج دو مقابل جماعتیں موجود تھیں
ان میں سے جسے بھی یہ منصب دیا جاتا دوسرا اسے قبول نہ کرتا اور پھر نتیجتاً مواخاتِ مدینہ کے ذریعے اوس و خزاج کے درمیان جس لڑائی جھگڑے کو ختم کر کے مواخات کا رشتہ قائم کیا گیا تھا، وہ پھر سے جنم لے لیتا اور یوں اسلامی مملکت میں ایک نیا فساد برپا ہو جاتا اور اسلامی انقلاب درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔ اس نازک موقع پر حضرت ابو بکر صدیق نے نہایت نرمی و آشتی اور تحمل سے کام لیتے ہوئے انصار کو سمجھایا اور یہ بااثر تقریر کی ، ” مجھے تم لوگوں کے فضائل و مناقب اور تمہاری خدماتِ اسلامی سے انکار نہیں لیکن عرب، قریش کے علاوہ اور کسی خاندان کی قیادت تسلیم نہیں کر سکتے، پھر مہاجرین اپنے تقدم فی الاسلام اور آنحضرتۖ کے ساتھ خاندانی تعلق کی بنا پر آپۖ کی جانشینی کے زیادہ مستحق ہیں۔ یہ ابو عبیدہ اور عمر بن الخطاب موجود ہیں، ان میں سے جس کے ہاتھ چاہو بیعت کر لو”۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر نے حضرت ابو بکر کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر فرمایا ”آپ ہم سب میں بزرگ ہیں، ہم سب میں بہتر اور رسولۖ اللہ کے سب سے مقرب ہیں، اس لئے ہم آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرتے ہیں”۔ (بخاری ج 1، ص518)
Syedna Abu Bakar Sidique
حضرت ابو بکر کی شخصیت ہر جماعت میں ایسی محترم تھی کہ اس انتخاب پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر کی بیعت کے ساتھ مسلمان بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے اور ابو بکر کی بر محل تقریر اور بیعت میں حضرت عمر کی پیش قدمی سے ایک زبردست انقلاب ہوتے ہوئے بچ گیا۔ اس کے دوسرے دن مسجد نبویۖ میں عام بیعت ہوئی اور ربیع الاول 11 ھ میں حضرت ابوبکر سند خلافت پر متمکن ہوئے۔ بیعت عام کے بعد آپ نے حسبِ ذیل تقریر فرمائی:۔ ”لوگو! میں تم پر حاکم بنایا گیا ہوں حالانکہ میں تمہاری جماعت میں سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کام کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر کچ روی اختیار کروں تو سیدھا کر دو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں دوسروں سے اس کا حق اس کو نہ دلا دوں اور تمہارا قوی شخص بھی میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک میں اس سے دوسروں کا حق نہ حاصل کر لوں۔ یاد رکھو! جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے خدا اس کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے خدا اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر میں خدا اور اس کے رسولۖ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور ان کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں”۔(طبقاتِ ابن سعد)
اس طرح ایک فتنہ کا تدارک کرتے ہوئے حضرت ابو بکر نے خلافت سنبھالی، تاریخ گواہ ہے کہ آپ کا اپنا ذاتی ارادہ یا خلافت کے لئے ذاتی پسندیدگی کسی صورت بھی نہ تھی۔ آج مسلمین کے بعض مکاتبِ فکر کا یہ کہنا ہے کہ سقیفہ میں ہونے والی سازش میں خود سیدنا ابوبکر و عمر بذاتِ خود شامل تھے جو کہ سراسر غلط اور قطعاً ناجائز ہے۔ یہ گھٹیا فعل آپ کے ذمہ اس لئے عائد کیا جاتا ہے کہ آپ حضرات وہاں پر موجود تھے لیکن اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ آپ وہاں فتنہ کے تدارک کے لئے موجود تھے نہ کہ خود شمولیت کی غرض سے۔ اور آپ نے خلافت سنبھالی وقت کی نذاکت اور سنگین حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے نہ کہ ذاتی خوشنودی کے لئے۔ اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اگر اس نازک دور میں ملت اسلامیہ کو صدیقِ اکبر جیسا رہنما نہ ملتا تو امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا اور اسلام کے نام لیوائوں میں سے صرف چند ایک باقی رہتے، دنیا کے کسی ایک کونہ میں پوشیدگی سے اسلامی قوانین پر عمل پیرا ہوتے، اسلام عالم میں، عالم اسلام کے طور پر پھیلا نہ ہوتا۔
سند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حضرت ابو بکر درپیش مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان سبھی کا ذکر تو محال ہے چند کا تذکرہ حسب ذیل ہے۔ حضورۖ کی وفات کے بعد آپ خلافت پر متمکن ہوئے تو مہاجرین و انصار نے سر تسلیم خم کر لیا تاہم سعد بن عبادہ جن کو خلیفہ بنانے کی تجاویز تھیں، نے بیعت نہیں کی۔ اکابرین بنو امیہ جو فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے تھے، قبائلی تعصب اور نسلی تفاخر کو ہوا دے رہے تھے چنانچہ ابو سفیان نے حضرت علی کے پاس آ کر کہا، ” یہ کیا غضب ہو گیا، قریش کے سب سے چھوٹے قبیلے کا آدمی کس طرح خلیفہ بنا دیا گیا؟ اے علی! اگر تم چاہو تو خدا کی قسم میں ا س وادی کو سواروں اور پیادوں سے بھر دوں”۔ مگر حضرت علی نے جواب دیا، ”اے ابو سفیان! تم ساری زندگی اسلام اور اہلِ اسلام سے دشمنی کرتے رہے مگر تمہاری دشمنی سے نہ اسلام کا کچھ بگڑا اور نہ اہل اسلام کا۔ ہم ابوبکر کو اس منصب کا اہم سمجھتے ہیں”۔ (صدیقِ اکبر از مولانا سید احمد الہ آبادی)
Muslim
یعنی مسلمانوں میں ہی ایسے عناصر موجود تھے جو اتحاد مسلمین کا شیرازہ منشر کرنا چاہتے تھے لہذا آغاز خلافت ہی سے جناب صدیقِ اکبر غیر معمولی عزم و استقلال اور احتیاط سے کام لیتے ہوئے داخلی انتشار پر قابو پانا تھا۔ نبی اکرمۖ کے پردہ فرما جانے کے بعد ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا تھا جسے پر کرنا ناممکنات میں سے تھا۔ خود مومنین اس حادثہ ناگہاں سے ہراساں و پریشان تھے اس حادثہ عظمیٰ کا کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ قبائل عرب تک جب یہ خبر پہنچی تو نو مسلم بدو اسلام سے منحرف ہونے لگے۔ مرکز سے دور قبائلی سرداروں نے مرکزی حکومت سے علیحدگی کا زرین موقع جانتے ہوئے صنم پرستی پر غور کرنا شروع کر دیا۔ بعض روایات کے مطابق مکہ اور طائف میں ارتداد کی تیاریاں ہونے لگیں۔ مرتدین کی ایک جماعت صریحاً یعنی کھلم کھلا، مکمل طور پر اسلام سے منحرف نہیں ہوئی تھی البتہ انہوں نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا دعویٰ ھتا کہ ارشاد ربانی” خذمن اموالھم صدقة تطھرھم و تزکیھم بھا” سورة الخ کے مطابق صرف خدا کے رسول ۖ کو ان سے زکوٰة لینے کا حق تھا اور اب ان کی وفات کے بعد یہ حق کسی اور کو حاصل نہیں۔
آنحضرت ۖ کی حیات مبارکہ میں ہی نصاری شام کے تصادم کا آغاز ہو گیا تھا۔ جنگ موتہ اور غزوہ تبوک میں عیسائیوں نے شوکت و شجاعتِ اسلام کا اندازہ کر لیا تھا لیکن رومی سلطنت کی پشت پناہی اور تائید کی وجہ سے ان کے جارحانہ عزائم ابھی خاک آلود نہ ہوئے تھے۔ آنحضرت ۖ نے اس فتنہ کے استحصال کے لئے حضرت اسامہ بن زید کی سربراہی میں ایک لشکر شام کی جانب روانہ فرمایا مگر یہ لشکر رسالت ماب ۖ کے وصال کی خبر سن کر واپس لوٹ آیا۔ المختصر مصائب و مسائل کا پہاڑ جو خلیفہ رسول کی آنکھوں کے سامنے کھڑا تھا اور اگر بر وقت ان سب کا تدارک نہ کیا جاتا تو اسلام عام میں نہ پھیل پاتا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیان ہے کہ ”حضور ۖ کے وصال کے بعد ہم مسلمانوں کو ایسے حالات سے سابقہ پڑا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو ابوبکر عطا نہ کرتے تو ہم لوگ ہلاک ہو جاتے” حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ”رسول ۖخدا کا وصال ہوا اور میرے باپ پر ایسے مصائب و حوادث ٹوٹ پڑے کہ وہ حوادث بڑے بڑے مضبوط پہاڑوں پر پڑتے تو وہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے”۔ لیکن حضور اکرم ۖ جیسے ساتھی کی جدائی کے غم کے باوجود آپ نے تمام عزم و استقلال کو یکجا کیا
تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خندہ پیشانی سے نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ حضرت اسامہ کی بربراہی میں وہ لشکر جو حضور اکرم ۖ نے شام میں بغاوت کو فرو کرنے لے لئے بھیجا تھا وہ لشکر وصال رسول ۖ کی خبر سن کر مقام جرف سے واپس آگیا تھا، حضرت ابو بکر سب سے پہلے اس لشکر کی روانگی چاہتے تھے چونکہ مدینہ باغیوں کی زد میں تھا اس لئے بعض صحابہ اکرام کی رائے یہ تھی کہ اس لشکر کی روانگی فی الحال ملتوی کر دی جائے۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ مدینہ میں حضور اکرمۖ کی ازواج مطہرات ہیں اس لئے ان کی حفاظت کے خیال سے بھی مدینے کو مہاجرین سے خالی نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت ابوبکر صدیق کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے (آمین) یہ انہی کی شان تھی، فرمایا کہ ”لشکروں کی اس طرح روانگی سے اگر مجھے یقین ہو جائے کہ مدینہ خالی ہو جائے گا اور یہاں تنہا رہ جائوں گا، درندے حضور کی ازواج مطہرات کی نعشوں کو مدینے کی گلیوں میں گھسیٹتے پھریں گے تو پھر بھی اپنے عزم سے باز نہیں آئوں گا”۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق نے انصار کے ایما پر یہ کہا کہ ”اگر لشکر کو بھیجنے کا فیصلہ فرما ہی چکے ہیں تو اس لشکر میں تجربہ کار اور سن رسیدہ صحابہ موجود ہیں، تو آپ بجائے اسامہ کے کسی اور کو امیر لشکر مقرر فرمائیں” تو اس پر غصے میں فرمایا: ”اے خطاب کے بیٹے! جس شخص کو امیر لشکر حضور نے مقرر فرمایا ہو، ابوبکر کی مجال نہیں کہ اس کو تبدیل کرے”۔
Osama
یہ سن کر تمام صحابہ مطمئن ہو گئے اور اسامہ کی قیادت میں لشکر جانبِ شام روانہ ہوا۔ حضرت ابو بکر نے ان کو اس شان سے روانہ کیا کہ حضرت اسامہ گھوڑے پر سوار تھے اور حضرت ابوبکر ان کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے، ہدایات دے رہے تھے۔ حضرت اسامہ نے سن کر عرض کیا کہ ”اے امیر المومنین! مجھے اس سے شرم آتی یہ کہ میں سوار ہوں اور آپ پیدل۔ یا تو آپ بھی سوار ہو جائیں ورنہ میں بھی پیدل چلتا ہوں”۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا: ”نہیں تم سوار رہو گے اور میں پیدل ہی چلوں گا اس لئے کہ میں نے حضورۖ سے سنا تھا کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جائے اور دوسرا شخص اس کی مشابعت کے لئے اس کے ساتھ کچھ دور تک جائے تو اس شخص کو اس کے ہر قدم کے ساتھ سات سو نیکیاں ملیں گی۔ اس لئے میں تو اللہ کی راہ میں فضیلت حاصل کرنے کا محتاج ہوں”۔
حضرت اسامہ نے محاذ جنگ پر شاندار عسکری صلاحیتوں کا ثبوت بہم پہنچایا۔ شامیوں کو ہزیمت کی ذلت سے دو چار ہونا پڑا۔ آپ بے شمار مالِ غنیمت اور جنگی قیدی لے کر مدینہ واپس آئے اور صدیق اکبر نے مدینہ سے باہر نکل کر آپ کا استقبال کیا۔ لشکر اسامہ نے شاندار اثرات مرتب کئے جو قبائل مدینہ پر حملہ آور ہونے کے منصوبے بنا رہے تھے، تھم گئے۔ انہیں محسوس ہوا کہ مسلمانوں کے پاس بے پناہ فوجی طاقت ہے ورنہ سلطنتِ روم کے خلاف عسکری کاروائی نہیں کی جا سکتی۔ لشکر اسامہ کی روانگی سے قبل نصرانیوں کے حملہ کا خطرہ اس قدر شدید تھا کہ ایک دفعہ عتبان بن مالک نے یکبارگی حضرت عمر سے کہا: ”غضب ہو گیا” حضرت عمر نے ہراساں ہو کر پوچھا ”کیا ہوا؟ عیسائی آ گئے؟ ” یعنی عالم یہ تھا کہ ابھی حملہ ہوا، ابھی حملہ ہوا۔ لیکن حضرت اسامہ کی مہم سے عیسائی اس قدر مرعوب ہوئے کہ ابن عساکر کے بیاں کے مطابق قیصر روم نے پادریوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”دیکھو! یہ وہی لوگ ہیں جن سے میں تم کو خبردار کیا کرتا تھا لیکن تم نہیں جانتے تھے۔
تم ان عربوں کی جرات و ہمت ملاحظہ کرتے ہو کہ ایک مہینہ کی مسافت پر آ کر تم پر چھاپے مارتے ہیں اور محفوظ و مامون اسی وقت واپس چلے جاتے ہیں”۔ یہ سات ہزار کا لشکر جس میں مرتد قبیلے کے پاس سے گزرا وہ اسلامی لشکر کی شوکت و سطوت کو دیکھ کر ازسرنومسلمان ہو گیا۔ اسامہ بن زید کے لشکر کی روانگی صدیقِ اکبر کے جذبہ اتباع رسولۖ کی درخشاں مثال ہے۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے انسائیکلو پیڈیا کا عیسائی مقالہ نگار لکھتا ہے: ”پیغمبر اسلام ۖ نے اس بات کو محسوس کر لیا تھا کہ جب تک شام کی جانب مہمات روانہ نہ کی جائیں گی عرب قبائل پر امن نہیں رہ سکتے۔ ابوبکر صدیق اس کی سیاسی اہمیت سے واقف تھے۔ اسی لئے باوجود سخت خطرات اور شدید مخالفت کے انہوں نے اسامہ کی زیرِ قیادت ایک بڑا لشکر روانہ فرما دیا تھا”۔
Uprising
رسول خدا کا دنیا سے نشریف لے جانا تھا کہ پورے عرب میں یکایک بغاوت کا طوفان اس زور سے اٹھا کہ اسلام کی عمارت کے درو دیوار ہل گئے اور صحابہ اکرام اس میں محصور ہو گئے۔ تاریخ طبری میں ایک راوی کے بیان کے مطابق ”مسلمانوں کی حالت اس وقت اس بکری کی سی تھی جو موسم سرما کی بار ش والی رات میں کھڑی ہو”۔ جو لوگ مرتد، باغی یا مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہوئے یہ زیادہ تر وہ نو مسلم تھے جنہوں نے کسی لالچ یا دبائو میں آ کر اسلام قبول کیا تھا لیکن ابھی اسلام ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوا تھا۔ اسی بنا پر پروفیسر بھٹی لکھتے ہیں: ”حقیقت یہ ہے کہ وسائل آمدو رفت کی کمی، مبلغین کی باقاعدہ تنظیم کا فقدان اور قلت وقت ایسے اسباب تھے جن کی وجہ سے پیغمبر اسلامۖ کی زندگی میں جزیرہ نمائے عرب کی ایک تہائی سے زیادہ مسلمان نہیں ہو سکی۔ خود حجاز جو پیغمبرۖ اسلام کی سرگرمیوں کا مرکز تھا، اس کا حال یہ تھا کہ آپ ۖ کی وفات کے ایک یا دو سال پہلے مکمل طور پر مسلمان ہوا تھا۔ دو وفود پیغمبر ۖ اسلام کی خدمت میں آئے، ان کو پورے عرب کا ترجمان نہیں کہا جا سکتا تھا۔ کسی وفد کے مسلمان ہونے کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ اس قبیلے کے سرداروں نے اسلام قبول کر لیا”۔
اسلام کا جھنڈا بلند ہوا اور پے در پے فتوحات کے باعث اس کا قدم حجاز میں جب مضبوطی سے جم گئے اور مدینہ میں ایک بااقتدار اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آ گیا تو ایران و روم کو اپنی فکر ہوئی۔ اس لئے انہوں نے ان عرب قبائل کو جو ان کے دست نگر اور احسان مند تھے، اسلام کے خلاف بھڑکانہ شروع کر دیا اور آخر کار انہیں بغاوت پر آمادہ کر لیا۔ غزوہ موتہ کا اہتمام حضورۖ نے انہی لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیا تھا۔ ابھی اس مہم کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوا تھا کہ رسول ۖ خداکا وصال ہو گیا اور اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کا جو مواد اندر ہی اندر پک رہا تھا، بغاوت کے آتش فشاں کی شکل میں اچانک پھوٹ پڑا۔ اس فتنے کی آگ کو بجھانے کے لئے عزم کی ضرورت تھی۔ حضرت ابوبکر لشکر اسامہ کے منتظر تھے۔ جونہی لشکر فاتحانہ واپس آیا آپ نے سرکش قبائل کی سرکوبی کے لئے گیارہ دستے بنائے جو درج ذیل ہیں؛۔
1… امیر لشکر حضرت خالد بن ولید کو طلیحہ کی سرکوبی کے بعد مالک بن نویرہ کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔ 2… حضرت عکرمہ بن ابی جہلکو حضرت سلیمہ کذاب کے خلاف بھیجا۔ 3… حضرت شرجیل بن حسنہ کو حضرت عکرمہ کی امداد اور اس کے بعد حفرموت کے مر تدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔ 4… حضرت عمرو بن العاص کو مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔ 5…حضرت خالد بن العاص کو سرحد شام کے مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔ 6… حضرت حذیفہ بن محصن کو مرتدین ربا کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔ 7… حضرت طریفہ بن حاطر کو بنو مسلم اور بنو ہوازن کے مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔ 8… حضرت مرید بن مقون کو اہلِ تھامہ یمن کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔ 9…حضرت علا حضری کو بحرین کے مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔ 10… حضرت عرفجہ بن ہرتمہ کو مہرہ کے مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔ 11… حضرت مہاجر بن امیہ کو اسود عنسی کے پیردوں کی سرکوبی پر مامور کیا گیا۔ (پچاس صحابہ از طالب ہاشمی)
Siddiq e Akbar
ان لشکروں کی روانگی سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق نے قاصدوں کے ذریعے ایک عام اعلان تمام مرتد قبائل کی طرف بھیج دیا جس میں ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ سرکشی سے باز آ جائیں اور احکام اسلام کی پابندی اختیار کریں تو ان سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح ہر سپہ سالار کو جاتے وقت اس کے متعلق مختلف ہدایات دیں۔ مدینہ منوہ میں تین دن اور تین راتین ایسے گزریں کہ عورتوں اور بچوں کے سوا کوئی مرد شہر میں موجود نہ تھا۔ اللہ پاک نے حضرات صحابہ کی اس قربانی کو قبول فرما کر تمام مخالف فضا کو اسلام کے حق میں ہموار کر دیا اور لوگوں کے لئے ہدایات کے عمومی فیصلے فرما دئیے۔ حضور ۖ کی حیاتِ طیبہ ہی میں نبوت کے بعض جھوٹے دعویدار پیدا ہو گئے تھے۔ مسلیمہ نے آپ ۖ کی زندگی میں ہی نبوت کا دعویٰ کیا مگر شمع رسالت کی موجودگی میں اس کی نبوت کا چراغ نہ جل سکا۔ مرد تو مرد عورتوں کو بھی یہ جنون ہوا چنانچہ قبیلہ تمیم کی سجاح نامی عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا۔
اسی طرح طلیحہ اسدی بنی اس کا سردار تھا۔ رسول ۖاللہ کی بیماری کی اطلاع پاکر اس پر بھی نبوت کا خبط وار ہوا۔ اس نے اپنی قوم میں نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ بنو اس، طے اور بنو غطفان کے اکثر لوگ اس کے ہمنوا بن گئے۔ طلیحہ نے اس کثیر اجتماع کے ساتھ سرزمین نجد میں چشمہ رائو پر پڑائو ڈالا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت خالد بند ولید کو اس کی سرکوبی کے لئے بھیجا تھا۔ حضرت عدی بن حاتم کی تمام کوششوں سے قبیلہ طے کے تمام آدمی طلیحہ سے علیحدہ ہو گئے اور دوبارہ اسلام قبول کر کے خالد بن ولید کی فوج میں شامل ہو گئے۔ خالد اور طلیحہ کے لشکر کا بزاخہ کے مقام پر مقابلہ ہوا، طلیحہ کے لشکر کو شکت ہوئی۔ طلیحہ اپنی بیوی کے ہمراہ شام بھاگ گیا۔ مدینہ آکر دوبارہ مسلمان ہوا۔طلیحہ نے اس کے بعد عراق کی فتوحات میں شامل ہو کر بہادری کے جوہر دکھائے اور اپنے سابقہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی۔
رسول ۖ خدا کے وفات پا جانے کے بعد بنو تمیم میں سے بعض لوگ اسلام سے منحرف ہو گئے اس اثناء میں بنو ثعلب میں سے جو کہ بنو تمیم کی ایک شاخ تھی، سجاح بنت حارث نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ سجاح نے اپنے پیروکاروں کے لئے نمازِ پنجگانہ تو لازمی رکھی لیکن بعض فحاشی اور ناجائز باتوں کو جائز قرار دیا۔ بنو تمیم کی شاخ ہربوع کے لوگ اپنے سردار مالک بن نویرہ کے ساتھ سجاح کے ساتھ مل گئے مگر بنو تمیم کے کچھ لوگوں نے نہ صرف اس کی نبوت کو تسلیم نہ کیا بلکہ یہاں تک ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا کہ وہ یہاں سے یمامہ بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔ یہاں اس نے مسلیمہ کذاب سے شادی کر لی مگر دونوں ناکام و نامراد رہے۔ جب مالک بن نویرہ اکیلا رہ گیا تو اس نے فوج کو منتشر ہونے کا حکم دیا اور خود خالد بن ولید کے سامنے پیش ہو گیا۔ خالد بن ولید نے مالک بن نویرہ کو قتل کروا دیا۔
یمامہ کا ایک وفد حضور اکرمۖ کی زندگی میں ہی حاضر ہوا تھا اور اسلام قبول کیا تھا۔ اس وفد میں ایک شخص مسلیمہ بھی تھا۔ اس نے رسول ۖ خدا سے عرض کیا کہ میں اس شرط پر اسلام قبول کروں گا کہ آپ ۖ اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ بنائیں، مگر یہ یہاں سے ناکام لوٹا۔ حضور کی بیماری کے ایام میں مسلیمہ بہت زور پکڑ گیا اور اس کے قبیلے کے لوگ قبائلی تعصب میں اندھے ہو کر اس کے گرد جمع ہو گئے۔ حضرت ابوبکرصدیق نے عکرمہ بن ابی جہل کو اس کی سرکوبی کے لئے بھیجا اور ہدایات دیں کہ شرجیل بن حسنہ کی کمک کا انتظار کیا جائے مگر عکرمہ نے جوش میں جلد بازی کی اور حزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر حضرت ابوبکر نے خالد بن ولید کو بھیجا جنہوں نے ایک جونریز جنگ کے بعد مسلیمہ کو شکست دی اور وہ وحشی بن کر حرب کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اسود عنسی کی جماعت میں خود بخود اختلافات پیدا ہو گیا اور وہ اپنے ساتھی قیس کے ہوتھوں نشہ کی حالت میں مارا گیا۔ غرض چند دنوں میں نبوت کے تمام جھوٹے دعویداروں کا خاتمہ ہوا اور امت نے ایک بڑے عذاب سے نجات پائی۔
ایک فتنہ انکارِ زکوٰة بھی تھا، بعض قبائل جو نومسلم تھے انہوں نے باقی تمام ارکان اسلام کو مانتے ہوئے زکوة کا انکار کر دیا، انہوں نے اس مقصد کے لئے مدینہ وفد بھیج کر خلیفةالمسلمین سے مطالبہ بھی کیا کہ ان سے زکوة نہ لی جائے۔ آپ نے صحابہ سے مشورہ کیااکثر صحابہ کی رائے یہ تھی کہ فی الحاظ ان سے تعرض نہ کیا جائے۔ حضرت عمر اور حضرت علی نے بھی ان سے نرمی برتنے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا: ”خدا کی قسم! اگر یہ لوگ حضورۖ کے زمانے میں اونٹ کے ساتھ زکوة کے ساتھ رسی بھی دیتے تھے اور آج صرف رسی سے انکار کریں تو میں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔
Haztar Umar
آپ نے یہ الفاظ نہایت ہی جوش اور ولولے کے ساتھ ادا فرمائے، حضرت عمر نے آپ کی یہ باتین سن کر فریاما: ”یہ کلام سن کر میں نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کے سینے کو جہاد کے لئے کھول دیا ہے۔ جب لشکرِ اسامہ واپس آ گیا تو آپ انہیں مدینہ میں اپنا قائم مقام بنا کر عبس اور زیبان قبیلے کے مقابلے کے لئے روانہ ہو گئے اور ان قبائل کو شکست دے کر ان کی چراگاہیں مسلمان مجاہدین کے گھوڑوں کے لئے وقف کر دیں اور خود مدینہ میں واپس تشریف لے آئے۔ اس کاروائی کے بعد منکرینِ زکوٰة نے خود مدینہ حاضر ہو کر زکوٰة کی رقم بیت المال میں جمع کروائی”۔
اس آزمائش کے دور میں صدیقِ اکبر نے لشکروں کی تیاری، سپہ سالاروں کے صحیح انتخاب اور موزوں تر عمل و ہدایات جاری کرنے میں لاثانی مہم و فراست، تدبرودوراندیشی کا مظاہرہ کیا یہی وجہ ہے کہ بدترین دشمنانِ اسلام یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ ”اگرچہ صدیقِ اکبر کا دور مختصر ہے مگر آنحضرتۖ کے دین کی سربلندی آپ ہی کے کے مرہونِ احسان ہے۔ آپ نے نوزائیدہ اسلام کو ختم ہونے سے بچا لیا”۔
جس عظیم و لاثانی کارنامے کو دنیاوی حکمران برسوں میں انجام نہین دے سکتے ، صدیق اکبر نے نصرت ربانی سے اپنے چند مہینہوں میں پورا کردیا۔ کمزور ایمان والوں کی تطہیر قلب و نظ کی اور کے دلوں میں ایمان راسخ کیا اور اسلام کیا رفیع الشان عمارت کو غیر متنزل چٹان پر استوار کیا۔ جو لوگ ایمان کی کمزوری کے باعث اور پنے عقائد کو درست ثابت کرنے کی غرض سے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق کی ذات و شخصیت پر بے جا سوالات اٹھاتے ہیں انہیں وسیع النظری سے کام لیتے ہوئے صرف ایک بار تاریخ اسلامی میں رقم تمام حقائق و شواہد کی روشنی میں صدیق اکبر کی اسلامی خدمات و قربانیوں کا جائزہ لینا چاہئے۔ میرا بلکہ میرے ساتھ ساتھ تمام حقیقی مومنین کا یہ دعویٰ ہے کہ آپ پر انگی اٹھانے کی بجائے آپ کے ناموس پر انگلی اٹھانے والوں کے خلاف قلم بصورت ِ تلوار اٹھاتے ہوئے نظرآئیں گے۔