بدھ کی صبح کا وقت تھا معمولات زندگی اپنے سفر پر گامزن تھی۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آج ہماری سانسیں چھین لی جائے گی۔ کراچی صفورا گوٹھ ایک سنسان علاقہ ہے۔ اس کے نزدیک الازہر گارڈن کا علاقہ اور اسکی رہائشی عمارتیں نہایت پرسکونیات کا تاثر دیتی ہے۔ اس علاقے میں رہنے والے تمام لوگوں کا تعلق اسماعیلی برادری سے ہے۔ اور یہ لوگ شہر میں سفر کرنے کے لیے مختلف شٹل سروسز کا استعمال کرتے ہیں۔60 مسافروں کو لے کر شٹل جیسے ہی الازہر سے باہر نکلی انسانی صفت درندوں نے بس کو روک کر معصوم جیتے جاگتے ہسنتے مسکراتے 43 انسانوں کو موت کی نیند سولا دیا اور باقی لوگوں کو زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا کردیا۔ زمین دہل گئی آسماں پر فضائوں نے اداسی کا لبادہ پہن لیا،چیخ و پکار مچ گئ۔ بس خون میں تر ہوچکی تھیں۔ زندگی کے چراغ بجھ چکے تھے۔ شمعیں گل ہوچکی تھیں۔
الازہر گارڈن کی گللابی بس کا رنگ لال ہوچکا تھا۔ اسکے دروازے خون میں لت پت ہوچکے تھے۔ گھروں میں صفہ ماتم بجھ چکی تھی۔ ہسپتال کے اندر اسماعیلی برادری کے لوگوں کا ہجوم اکھٹا تھا۔ لوگ ہلاک و زخمی ہونے والوں کے نام پوچھ رہے تھے۔ انہی میں سسکیاں لیتی ایک خاتون نے کہا کہ ہم نے کبھی کسی کے لیے برا نہیں سوچا مگر آج ہمارے ساتھ برا کیوں ہوگیا۔ ہمیں کس جرم کی سزا دی گيں ہے،
مادر وطن میں یہ کوئی نیا سانحہ نہیں ہیں، اور یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ہر دو چار مہینوں میں کوئی نہ کوئی سانحات ہونا اب ہمارے معاشرے میں بہت عام ہوگیا ہے، چھ ماہ پہلے 16 دسمبر کو پشاور آرمی پبلک اسکول کا نا قابل فراموش سانحہ ہوا جو آج تک ہمارے دل و دماغ پر نقش ہے۔ جس میں ہمارے ننھے معصوم پھولوں کو مستقبل کے معماروں کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا تھا۔ اس سانحہ کو چھ ماہ بیت چکے مگر ہمیں اب تک یہ کل کا سا واقع لگتا ہے۔ اور شاہد ہی ہم اس سانحہ کو بھولا پائے۔ عرصہ ہوگیا مادر وطن کو خون میں نہاتے نہاتے زخموں سے چور کراہتے کراہتے مادر وطن کی معصوم عوام کو ہر دو چار ماہ بعد دکھ غم ملنا معمول بن چکا ہے۔ اب تو صبح گھروں سے نکلنے والوں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ یہ شام کو زندہ سلامت گھر واپس آئے گے یہ نہیں۔
ShikarpurTragedy
16 دسمبر کا سانحہ ہوا پھر شکار پور سانحہ ہوا اب اسماعیلی برادری پر حملہ ہوا اس سے پہلے ہزارہ برادری پر متواتر حملے بھی ہوچکے ہیں۔ ہر سانحہ ہونے کے بعد میڈیا پر بریکنگ نیوز چلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ میڈیا کو بھی اپنی ریٹنگ بڑھانے سے سروکار ہوتا ہے۔ صحافی تجزیہ نگار قلم اٹھا کر تبصرے لکھ ڈالتے ہیں۔ اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے۔ نیوز چینلز پر تبصرے تجزیے شروع ہوجاتے ہیں۔۔ مگر نتیجہ کچھ نہیں نکالتا حکمرانوں کے سروں پر تو جوں تک نہیں رینگتی۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں آج انسانی جانوں کی کوئی قدروں و قیمت نہیں رہی راہ چلتے سر بازار جسکو چاہا مار دیا جیسے چاہا جلا دیا۔
کراچی بس پر حملہ انتہائی افسوسناک واقع ہے، اسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں قتل و غارت روز مرہ کے معمولات کا حصہ بن چکا ہے۔ آج معاشرے میں خون بہت سستا ہوچکا ہے۔ ہمارے خون سفید ہوچکے ہیں۔ ہمارے ضمیر مردے ہوچکے ہیں۔ آج انسان انسان کا ہی قتل عام کررہا ہے۔ نا حق خون بہا رہا ہے۔ کہیں فرقہ واریت پر کہیں لسانیت کی بنیاد پر کہیں تعصب کی بنا پر کہیں کسی کو کافر قرار دے کر کسی کو غدار قرار دے کر مارا جارہا ہے۔ کسی بھی صورت میں کسی کو بے موت مارنا انسانیت کا قتل کرنا ہے۔ ہم مسلمان ہوکر اپنے ہی ملک میں رہنے والے لوگوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل کررہے ہیں۔ یہ بڑی تشویشناک صورتحال ہے۔ ہر سانحہ ہونے کے بعد مذمتیں کیں جاتی ہیں۔ سکیورٹی کو ہائی الرٹ کردیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جہاں دہشت گردی ہونے کا خدشہ ہوں وہاں فوری طور پر سکیورٹی کو ہائی الرٹ کردیا جائے تو انسانی جانوں کا ضیاع ہونے سے بچ سکتا ہے، مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں الٹا نظام چلتا ہے۔
دہشت گردی ہونے کے بعد سکیورٹی کو ہائی الرٹ کردیا جاتا ہے، مذمت کی جاتی ہے۔ ایک روزہ سوگ کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ لواحقین سے اظہار افسوس کیا جاتا ہے۔ اجلاس طلب کیے جاتے ہیں۔ 13 مئی کو اسماعیلی برادری پر حملے کے بعد ایپکس کمیٹی کا اجلاس طلب کیا اور کراچی میں جاری آپریشن میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا گیا، کراچی میں جاری آپریشن کو عرصہ ہوچکا ہے۔ جرائم میں کمی ہونے کے بجائے تیزی ہورہی ہیں۔ قانون کے محافظ خود ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہورہے ہیں۔ سابق حکومت اور موجودہ حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہی رہی ہیں۔
Karachi Opration
کراچی میں جاری آپریشن کو بلا تفریق اور غیر سیاسی طور پر ہونا چاہیے۔ کراچی پولیس میں خرابی کی سب سے بڑی وجہ پولیس پر سیاسی دبائو ہے۔ اہم تعیناتیوں پر افسران میرٹ پر لگانے کے بجائے حکمران جماعت کے منظور نظر فیصلے ہوتے ہیں۔ غور طلب بات ہے کہ جو حکمران اپنے سابق دور میں عوام کی جان و مال کا تحفظ نہیں کرسکے وہ اب کیسے کرسکتے ہیں۔ یہاں عملی اقدامات نہیں اجلاس میٹنگ ہوتی ہیں، کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے۔ حکمرانوں کی سکیورٹی پر ہزاروں اہلکار مامور ہیں۔ اور عوام کی حفاظت کے لیے ایک سکیورٹی اہلکار بھی دستیاب نہیں ہیں آخر میں امیر حسین کا یہ کلام
اسماعیلی تھے بریلوی تھے یا آغا خانی تھے جو بھی تھے ظالموں بندہ یذدانی تھے کچھ فرد مذاہب کے احوال میں گمراہ میرے لیے جسم و جان مسلمانی تھے، بجھتا ہی چلا گیا آتش اشتعال اپنی انساں نہ تھے جیسے دریا کا پانی تھے اپنے سینے سے لگاتے فردوس کو ہر دم اولاد کے ہاتھوں میں الہام قرآنی تھے مولا تو معبود ہم عابد اذل سے تو قائم ہمیشہ ہم فانی ہیں فانی تھے میں تحریر نہ کر پایا انکو حسین جو لمحات میرے اشکوں کے ذبانی تھے،