تحریر: صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی کارگاہ ِحیات میں زندگی اور موت تو ایک عام سی بات ہے زندگی کی پہلی آواز ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ساز ِحیات کے اس تار کو ٹو ٹنا ہے زندگی اور موت کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے اس فانی دنیا میں ہزاروں لوگ آنکھیں کھولتے ،بند کرتے ہیں جس پر کسی کو حیرت ہے اور نہ تعجب! کتنے ہی دارا و سکندر آئے اس ”دار الفناء ” کوچھوڑ کر” دار البقائ” کی طرف چلے گئے۔۔۔۔کتنے ہی مہ وِشوں،لالہ رخوں، مہ جبینوں، گل بدنوںکا سورج چمکا، دلوںکی وادیا ںزیر وزبر ہوئیں ،خون کی ندیاں بہیں ،ہزاروں گردنیں کٹیں ،خرام ِناز کی حشر آفرینی سے ایک عالم تہہ وبالا ہوا ،مگر شہرِ خموشاں میں کسی بھی گوشے میں دور دور تک ان کا نام و نشان نہیں ملتا ،مگر نہیں !انہیں ہزاروں لاکھوں زندگیوں میں کسی کی موت اور زندگی ایک ایسا حادثہ بن جا تی ہے کہ جس کی یادوں کے سائے سے دامن بچانا بے حد دشوار ہو جا تا ہے ان کے بچھڑنے کا غم اگر بھلانا بھی چاہیں تو بھلایا نہیں جا سکتا ،کچھ اس طرح کا حا دثہ ہما رے بہت ہی مہر بان ،شفیق ، کرم فرما اورتحریک انصاف کے راہنما بابر افتخارعلی کھتران کی پیاری اماں جان اپنے لختِ جگر کو کا ر گاہِ حیات میں داغِ مفارقت دے کر بچھڑ گئیں اور چپ چاپ کسی کو بتائے بغیر اکیلی عازم سفر ہو گئیں۔
ان کے یوں بچھڑ جانے کی اطلاع اِن کے لختِ جگر کے دوست احباب کی سماعتوں سے جب ٹکرائی توگو یا یوں محسوس ہو نے لگا کہ کائنات کی کوئی عزیز ترین چیز گم ہو گئی ہے جو با وجود تلاش کے بھی نہیں مل سکے گی ،مجھے کل سید جان پٹھان نے اطلاع دی کہ بابر بھائی کی والدہ محترمہ اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئی ہیں ، ابھی والد مرحوم کی جدائی کا صدمہ بھولا نہیں تھا کہ پیاری والدہ کی جدائی کا داغ سینہ زخمی کر گیا ،بابر افتخار کھران صاحب کی ا ماں جان انتہائی سادہ اور پر خلوص تھی ویسے ساری مائیں ہی اپنی فطرت میں سادہ اور پر خلوص ہی ہوتی ہیں،اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر وقت وردِ زباں اور حِرزِ جاں اُن کا معمول تھا ، روز و شب کئی ہزار مرتبہ اللہ کے صفاتی اور ذاتی نام کے ساتھ ساتھ رسول ِ رحمت ، پیغمبر ِ انسانیت حضور سیدِ عالم حضرت محمد مصطفیٰ ۖکی بار گاہِ قدسیت میں درودو سلام کا نذرانہ پیش کرتی تھیں ، مزاج میں سادگی اور خلوص رچا ہوا تھا ،خاندان میں ہر ایک کے ساتھ محبت و شفقت کا برتائواُنہی کا خاصہ تھا ،اُن کے بیٹے نے بھی ماں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اُن کا لختِ جگر اپنی والدہ مر حومہ کے اشارہ ابرو کا منتظر رہتا تھا پلکوں کی جنبش سے پہلے ہی وہ اپنی ماں کے قدموں میں اپنی پلکیں بچھانے کے لیے بے تاب رہتا تھا پورے خاندان میں بیٹے کی ماں کی بے لوث خدمت کے حوالے سے مثالیں دی جاتی تھیں معاشرہ میں بہت کم ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ ایک شخص ماںکو بھی خوش رکھے اور بیوی کو بھی خوش رکھے، ماں اور بیوی کے حقوق بہت ہی احسن انداز سے برادر بابر افتخار علی کھتران نے نبھائے ۔۔۔۔۔:
اس دلفریب کائنات میں ماں ہی ایک ایسا رشتہ ہے جو خلوص کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے با قی تمام رشتوں میں خود غرضی اور مفادات کی کہیں نہ کہیں ملاوٹ ضرور ہوتی ہے ماں کے یوں اچانک بچھڑ جانے کی خبر تو ان کے لختِ جگر پر بجلی بن کے گری جس شاخ کے سہارے وہ اپنا نشیمن تعمیر کرنا چاہتے تھے وہ شاخ ہی ٹوٹ گئی، مستقبل کے سارے منصوبے ایک خوابِ پریشاں ہو کر رہ گئے ۔ ہا ئے رے بے بسی !زندگی کے ہر موڑ پر اپنی اولاد کے لیے ہر لحظہ ، ہر لمحہ دعائوں کے گجرے ،سجرے اور پھول نچھا ور کرنے والی ہستی اب اس دنیا میں نہیں رہی، ماں کی شفقتوں کی ٹھنڈی چھا ئوں ،ممتا کی بے چینیوں کی نرم دھوپ اور گُداز پلکوں کے سائے سے محروم بابر افتخار کھتران کو اب اس پُر خار دنیا میں خاموشی سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے ذرا احتیاط سے قدم رکھنا ہو ں گے کیونکہ پہلے تو بے دھڑک کلام کا سلسلہ جاری تھا مگر ،،ماں ،،کی نورانی آنکھوں کا چراغ بجھتے ہی اب کلام بھی احتیاط کے تمام تقاضوں کو مد نظر رکھ کر کرنا ہو گا کیونکہ جب تک ،،ماں،،حیات تھیں تو حضرت موسٰی علیہ السلام بھی بے دھڑک کوہ ِطُور پر اپنے رب تعالیٰ سے کلام فرما لیتے تھے مگر جونہی ،،ماں ،، کا دامن چھوٹا تو رب تعالیٰ کوبھی فرمانا پڑا کہ اے موسی ”اب ذرا سنبھل کر میرے پاس آنا اور کلام کرناکیونکہ تیرے لیے دعائوں کے پھول نچھاور کرنے والی ہستی اس دنیا میں موجود نہیں ہے”
Praying
برادر بابر افتخار کھتران صاحب کو بھی ،،ماں ،،کی دعائوں کے سہاروں نے کا ئنات کی اس خطر ناک بھیڑ میں زندگی کے اس سٹیج تک پہنچایا ہے جہا ں سے شعور و آگہی کا قرینہ حاصل کیا جاتا ہے الفاظ کی دنیا میں ،،ماں ،، ہی ایک ایسا لفظ ہے جس کو کسی بھی زبان میں اگر ادا کیا جائے تو ادائیگی کے وقت دونوں ہونٹوں کا ملنا قدرتی امر ہے گو یا اس بات کی دلیل ہے کہ ،،ماں ،، ہی ایک ایسی عظیم ہستی ہے جو اس دنیا میں ٹوٹے اور شکستہ دلوں کو جوڑنے کا سبب بنتی ہے ۔ہندی میں میا،انگریزی میں ممی یا مدر ،فارسی میں مادر ،عربی میں اُم ،اردو میں ماں،امی یا اماں،پنجابی میں ماں،ان تمام لفظوں کو ادا کرنے سے جوڑنے کا تصور اور ملاپ کا خیال ذہن کے دریچوں اور سوچوں کے روزنوں میں ابھرتا ہے اگر اس ہستی کا وجود دھرتی پر موجود نہ ہو تو دل شکستہ، حوصلے پست ،ارادے ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور سوچیں منتشر ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔۔ہمتیں شکست و ریخت کا مقدر ٹھہرتی ہیں ماں ایک ایسی ہستی ہے جو زندگی کے جھلستے صحرا میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو تی ہے اور زندگی کے نشیب و فراز میں مصائب کی کڑاکے کی دھوپ میں ماں کی ہستی ایک شجر سایہ دار کی حیثیت رکھتی ہے جس کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھائوں تلے زمانے کی گرمی سے جھلسا ہوا انسان سکون لے کر یوں محسوس کرتا ہے گویا جنت کے درخت تلے سکون لے رہا ہے
اس لیے مقولہ ہے کہ ،، ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ،، ایک مفکر کا قول ہے کہ” ماں جتنی بڑی ہوتی ہے بیٹا اتنا ہی عظیم پیدا ہوتا ہے” فاطمہ رضی اللہ عنہا نہ ہوتیں تو امام عالی مقام رضی اللہ عنہ میدانِ کر بلا میں نیزے کی نوک پر قرآن کی تلاوت کیسے سناتا،ماں عظمت کے سانچے میں نہ ڈھلی ہوتی تو محمد بن قاسم ایک مظلوم بہن کی پکارپر کیسے لبیک کہتا ،ماں عظیم نہ ہوتی تو طارق بن زیاد عظیم الشان تا ریخ کیسے رقم کرتے اور یہ بھی عظیم ماں ہی کا کمال تھا کہ جس نے اپنے بیٹے کو سلطان العارفین بنایا اگر ماں صالح ،تہجد گزار،انسانیت کی خدمت گزار نہ ہوتی تو آج بابر بھائی یوں خدمت ِانسانیت فی سبیل اللہ کے لیے شبانہ روز مصروف عمل نہ ہوتے؟ یہ سب اس عظیم ماں کی تر بیت کا اثر ہے کہ آج بابر بھائی بے ریا جذبوں سے لیس ہو کر ایک عزم اور ہمت سے دکھی اور پریشان حال امت کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ماں ہی ایک ایسا شجر سایہ دار ہے جس کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھائوں اولاد کو سکون و راحت نصیب کرتی ہے ماں اپنی اولاد کے لیے سراپا شفقت و محبت ہو تی ہے ،دنیا کے تمام تر رشتے مفادات کی کچی ڈوری سے بندھے ہو ئے ہیں مگر کریم و رحیم آقانبی حضرت محمد ۖ کی مبارک و محترم ہستی کے بعد ایک ایسا رشتہ ایسا بھی ہے جو مفادات کے بندھنوں سے آزاد ہے اور وہ پاکیزہ ، اخلاص کے سانچے میں ڈھلا اور بے غرض و بے لوث رشتہ ماں ہی کاہے
کسی نے ماں کو کیاریوں میں کھلتے ہوئے گلاب کے پھول کی مہک سے تشبیہہ دی تو کوئی بلبل کی چہک سے متعارف کراتا ہے ،کسی نے شبنم سے تو کسی نے بادِ نسیم کے جھونکوں سے ،مگر ان تمام تر حیثیتوں سے بڑھ کر حیثیت جس کی ہے وہ ماں ہی ہے ،پھول کچھ دیر کے لیے کھِلا پھر مرجھا گیا ،بادِ نسیم بھی کچھ دیر کے لیے چلتی ہے پھر وہی بادِ سموم کے تھپیڑے ،بُلبُل بھی صرف باغوں میں چہکتی ہے باغ جب اُ جڑ جاتے ہیں تو پھر چہکنا بھی بھول جاتا ہے ،ہاں ہاں مجھے کہنے دیجئے کہ اس کا ئنات ِ رنگ و بو میں ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کو ربِ لم یزل نے سدابہاری کے روپ سے نوازا ہے ، بہار ہو یا خزاں ، گرمی ہو یا سردی ، صبح ہو یا شام ، عسرت ہو یاےُسرت ، خس و خاشاک سے تیار کردہ جھونپڑی میں رہائش پذیر ہو یا سنگِ مر مر سے آراستہ و پیراستہ عالیشان محل میں تشریف فرما ہو ، جوانی ہو یا بڑھاپا ، اولاد کے لیے اس کے پیار و محبت،شفقت اور دل لگی میں ذرا برابر بھی فرق نظر نہیں آئے گا کیو نکہ اللہ رب العزت نے ماں کی ہستی میں اپنی ربو بیت کو گوندھ دیا ہوا ہے جس طرح وہ کریم رب انسانوں کو ہر حوالوں ، ہر حیثیتوں سے ، ہر جہتوں سے ہر لمحہ نوازتا رہتا ہے
اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عظیم صفت ربوبیت کے پیکر میں ڈھلی عظیم ترین ہستی ماں بھی اولاد کے لیے ہر عمر میں سراپا شفقت و محبت کا سر چشمہ ہو تی ہے ،سیانے کہتے ہیں ”جس گھر میں ماں کی عزت نہیں وہ گھر ضرور بر باد ہو گا ”اور یقیناََ ایسے ہوتے دیکھا بھی گیا ہے کیو نکہ ماں برکت دینے کے لیے پیدا کی گئی ہے ماں کے بغیر گھر میں برکتیں نازل نہیں ہوتیں جہاں ماں کا احترام ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ بھی خوش ہو تا ہے ماں ایک ایسی ہستی ہے جو اپنی اولاد کو آزادی سے زندگی گزارنے اور با وقار طریقے سے زندہ رہنے کا سبق دیتی ہے حدیث ِ پاک میں آتا ہے کہ ”اور تم اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو تو تمہاری اولاد تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے گی ” اپنی اولاد سے سراپا مامتا کے پیکر میں ڈھلی ماں کی محبت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ۖ چند صحابہ کرام کے ساتھ جنگل کے سفر پر روانہ ہوئے چلتے چلتے ایک صحابی نے چڑیا کے گھونسلے سے چڑیا کے بچے نکال لیے ،اس پر چڑیا نے شور مچانا شروع کر دیا ، کائنات کے لیے سراپا رحمت بن کر تشریف لانے والے کریم و شفیق آقاۖ نے پو چھا ، کیا ماجرا ہے ؟ عرض کیا !چڑیا کے بچے میرے پاس ہیں اس لیے شور کر رہی ہے آپ ۖ نے فرمایا کہ ”چڑیا کے بچے واپس گھونسلے میں رکھ دو ”
Heart
ماں کا دل اتنا وسیع ہے کہ ساری کائنات اس میں سما سکتی ہے بو علی سینا نے بہت خوبصورت بات کہی ہے کہ ”اس بات سے بچو کہ ماں نفرت کے لیے یا بد دعا کے لیے ہاتھ اٹھا ئے ”دل میں تمنا کا چراغ اور عزم کی لو رکھنے والے برادر بابر افتخار کھتران کو میں نے پہلی مرتبہ ٹوٹا ہوا اور بکھرا ہوا دیکھا ہے، دعا ہے کہ اللہ رب العزت برادر بابر افتخار کھتران کو کائنات کی عظیم ترین چیز بچھڑ جانے پر صبرجمیل اوران کی امی جان کے درجات بلند فرمائے اور آپ کی تربت پر کروڑہا برکتیں نازل فرمائے (آمین) یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ معاشرے کا حسن ، وقار اور استحکام کا راز مائوں کی پر خلوص جدوجہد اور لا زوال قر بانیوں میں پنہاں ہے اگر چہ ایک حقیقی اسلامی معاشرے کے اندر عورت اپنے ہر روپ میں ہر لحاظ سے تحسین و تکریم کے مراتب پر فائز ہو تی ہے ۔۔۔۔ماں کو جو عظیم مقام و مرتبہ اسلام نے عطا کیا ہے اس کی بنیادی وجہ اس کا وہ کردار ہے جو مامتا کے روپ میں ادا کرتی ہے اسلام واشگاف الفاظ میں اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ایک عورت صرف ماں کی شکل میں ہی قوم کی معمار کہلاتی ہے یہ ماں ہی ہوتی ہے جو اہل مصور کی طرح محبت ، رحمت ، شفقت ، مودت اور ہمدردی کے حسین جذبات سے رنگوں کا کام لے کر زندگی کے کینوس میں رنگ بھرتی چلی جاتی ہے ممتا کی یہ قوت اس قدر قوی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق اور صفت رحمت میں زیادہ حصہ ماں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے
جب اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات تخلیق فر مائی آپ نے 100رحمتیں بھی پیدا فرمائیں اور ان میں سے ایک رحمت کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر نازل فرمایا اور ماں کے دل میں بچوں کے لیے رحمت کا جذبہ اسی ایک رحمت سے ہی تعلق رکھتا ہے ،اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ اسلام میں ممتا کو اس قدر اہمیت کیوں حاصل ہے ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ساری کائنات کا خالق ہے کو معلوم ہے کہ یہ صرف ماں ہی ہوتی ہے جو ایک حقیقی اور صحت مند مسلمان امت کی نشوونما اور پرورش کر سکتی ہے یہ اس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ اسلام کی سچی تعلیمات کی روشنی میں اپنے بچوں کو پروان چڑھائے اور اس کے صلے میں جنت ماں کے قدموں تلے بچھا دی جاتی ہے ایک ممتا جن فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہوتی ہے وہ کارِ نبوت سے ملتی جلتی ذمہ داری ہے ماں کی گود بچے کے لیے ابتدائی مدرسے کی حیثیت رکھتی ہے جس کے اثرات بچے کی ذہنی اور نفسیاتی شخصیت کا مستقل حصہ بن جاتے ہیں آج مغربی معاشرے کی تصویر ہمارے سامنے ہے
وہ اس ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہاں پر عورت انسان سازی کی ذمہ داریوں سے بے نیاز ہو چکی ہے وہ اس کو اپنے لیے اعزاز اور رحمت کی بجائے ایک بوجھ اور بے مقصد ذمہ داری سمجھتی ہے آج مغرب میں بچوں کو فخر و انبساط کے ساتھ دنیا میں اور پھر مکمل ذمہ داری اور خلوص کے ساتھ اس کی پرورش کرنے کی بجائے کبھی اس کا اسقاط کیا جاتا ہے ، کبھی معصوم روح کو گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے اور کبھی خاندانی منصوبہ بندی کا سہارا لیا جاتا ہے ممتا اور بچوں کی پیدائش کے حوالے سے اس قدر غیر ذمہ دار رویوں نے مجر مانہ ذہنیت رکھنے والے نوجوانوں کے ایسے گروہوں کو جنم دیا ہے جو یا تو والدین میں سے کسی ایک سے محروم ہوتے ہیں یا ان دونوں کی موجودگی کے باوجود یتیم اور مسکینوں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ یہ اپنی راتیں سڑکوں پر بسر کرتے ہیں، جسمانی تشدد کا شکار رہتے ہیں اور بھوک اور سخت سردی کے تھپیڑے برداشت کرتے ہیں، گویا سائے کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور زندہ درگور ہو کر موت کی تاریکیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔”
Child Care
آج ماں بچوں کی صورت گری کے بجائے زیادہ تر توجہ اپنے کیرئیر اور پیشے پر دیتی ہے اور اس مقصد کے لیۓ اکثر اوقات بچوں کی پرورش جیسی اہم اور بنیادی ذمہ داری کو یکسر چھوڑدینے یا بھلا دینے کے لیۓ بھی تیار رہتی ہے وہ اپنی ذاتی پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی کے حصول کے لیۓ بچوں کو ایک بہت بڑی رکاوٹ سمجھتی ہے۔بد قسمتی سے آ ج مسلمان مائیں بھی اس رستے پر چل رہی ہیں، اپنے پیشے کی خاطر وہ بھی اپنے گھر اور بچوں کو قربان کرنے پر تیار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان کو اس رویے کے ہولناک نتائج سے آگاہ کیا جائے اس لیے مسلمان مائیں اپنے بچوں کو مخلص مسلمان اور تہذیب یافتہ انسان بنانے کے لیے ان کی پرورش کی ذمہ داری کو اپنے لیے تفاخر اور اعزاز کا ایک ذریعہ سمجھیں۔ ۔۔۔۔۔۔آج مسلمان مائوں کو یہ حقیقت قطعاً نہیں بھولنی چاہیے کہ ان کی نجات اور ابدی کامیابی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ اپنے بچوں کی پرورش اسلام کی پھیلائی ہوئی روشنی میں کی جائے یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو غلط اور صحیح، نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی میں تمیز کرنا سکھائیں۔ان کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو حقوق وفرائض کا واضح تصور دیں، ماں اپنے بچے کی زندگی میں ابتدائی مدرسے کی حیثیت سے نہ صرف ان کی پرورش کے لیے جواب دہ ہوتی ہے
بلکہ وہ ان کو اسلام کی بنیادی و اخلاقی اقدا رسکھانے کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے تاکہ ان کے بچے صحیح معنوں میں اعلیٰ اسلامی اقدار اور روایات کے علمبردار بن سکیں، مائیں صرف بچوں کی جسمانی نشوونما اور ضرورت پورا کرنے کے لیے جوابدہ نہیں ہوتیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ بچوں کی تعلیمی، اخلاقی اور فکری ضروریات کو پوری کرنے کی بھی پابند ہوتی ہیں۔ ایک مستحکم خاندان ایک مضبوط اور مستحکم معاشرے کے قیام کی ضمانت دیتا ہے اور اس کی چابی ماں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، بچوں کی پرورش اور نگرانی کے حوالہ سے مائوں کو اپنی ذمہ داریوں سے مکمل طور پر آگاہ ہونا چاہیے کیونکہ اس حوالے سے ان کو اپنے رب کے سامنے بھی جواب دینا پڑے گا قرآن کریم میں ارشاد ہے:
(وَاتَّقُواللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہ وَ الْاَ رْحَامَ) ”اور اس سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر رحم کے ساتھ تعلق جوڑتے ہو۔” سرکاری اور غیر سرکاری فیصلہ ساز تنظمیں اس حوالے سے بہت بڑا کام کرسکتی ہیں۔ خواتین کو اس بابت باقاعدہ تربیت دی جاسکتی ہے کہ ایک صحت مند انسانی نسل اور معاشرے کی تشکیل اور نشوونما کیسے کی جا سکتی ہے ان کو یہ تربیت ورکشاپوں کے ذریعے دی جاسکتی ہے۔ اسلام اس لیے بھی ممتا کے اس عظیم منصب کو اس قدر اہمیت دیتا ہے کہ اگر بچوں کی جسمانی ، ذہنی اور فکری نشوونما کے لیے مناسب تعلیم وتربیت اور فنون کا سہارا نہ لیا جائے تو وہ آسانی کے ساتھ اجنبی تہذیب اور طرز زندگی کو سینے سے لگا لیتے ہیں۔ آج کا یہ بچہ کل کا مستقبل ہے۔اسلامی تہذیب کا درخشاں مستقبل آج کے دور میں بچوں کو دی جانے والی تعلیم و تربیت کی مضبوط بنیادوں پر منحصر ہے۔صرف اور صرف یہ بات ہی مستقبل میں احیائے اسلام کی ضمابت بن سکتی ہے کہ بچے اور ان کی مائیں اسلام کو ایک جامع نظام زندگی کے طور پر سمجھ جائیں اور اب تو اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔ ہماری قسمت کی شب تاریک کو منور کرنے اور مضبوط معاشرے کے قیام کے لیے صرف مائیں ہی نوید سحر بن سکتی ہیں اور صرف ممتا کا مستحکم ادارہ ہی ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ ۔۔۔۔حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے ایک پورا باب امومت پر باندھا ہے جس کا عنوان ہے:
درمعنی ایں کہ بقائے نوع از امومت است وحفظ و احترام امومت اسلام است ”امت کی بقاء ممت میں پوشیدہ ہے اور ممتا کی بقاء اسلام کے سوا کچھ نہیں” تمام زعمائے ملت نے تہذیب کی اساس خاندان کو اور خاندان کا مرکز نگاہ عورت کو قرار دیاہے۔علامہ اقبال نے بھی مسلمان عورت کو مخاطب کرکے اپنی اجتماعیت اور اپنے معاشرے کی حفاظت کرنے کا سبق دیا ہے وہ مسلمان عورت کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں: ”ہمارے بچے نے جب اپنی زبان کھولنی شروع کی تو سب سے پہلے تجھ سے کلمہ لاالہ الا اللہ سیکھا۔ ہماری بجلی جب تیرے ابر پر چمکی تو اُس نے صحرا اور فلک بوس پہاڑوں سب میں ہمارا پیغام پہنچا دیا۔تہذیبِ جدید ہمارے دین پر ڈاکا ڈالنے کے درپے ہے۔ یہ بے باک اور بے پروا تہذیب ہے جو کہ معصوم لوگوں کی گھات میں بیٹھی ہے اِس پُر فریب تہذیب کے گرفتار لوگ اپنے آپ کو آزاد اور اِس کے مارے اور ڈسے ہوئے لوگ اپنے آپ کو زندہ و متحرک سمجھتے ہیں۔۔۔تُو ہماری بکھری ہوئی ملت کو جمع کرنے والی ہے، اپنے آپ کو سودوزیاں سے آزاد کر لے اور سوداگیری اور تجارتی ذہن سے آزاد ہو کر اپنے آبا کے نقشِ قدم سے ایک گام بھی نہ ہٹنا۔ زمانے کے دست ِبرد سے ہوشیار رہ کر اپنی نسل کو محفوظ کر لینا۔نئی نسل کو جو اپنی تہذیب سے بیگانہ ہو رہی ہے اور اُن کے اندر اپنی اقدارراسخ نہیں ہوئیں، ایسے میں فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی طرح بن جانا اور اپنی نسلوں کی ایسی تربیت کرلینا کہ ہمارے گلزار کو پھر بہار کی نوید مل جائے اور پھر ہماری نسلوں میں ایک حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نمودار ہو جائے”
Men And Wonen
اس کے بعد فرماتے ہیں: عورت مرد کے سازکی آواز ہے۔ مرد کی زندگی کا ساز عورت کے بغیر بے آواز ہے۔ مرد کی صلاحیتیں عورت کے ساتھ دوبالا ہو جاتی ہیں۔ عورت کا وجود مرد کے لیے لباس کی حیثیت رکھتا ہے ،عورت کے دل کو لبھانے والا حسن عورت کی آغوش حقیقی عشق کی پرورش کرنے والی ہے۔ اُس کے خاموش مضراط(زخمہ) سے زندگی کا ساز نمودار ہوتا ہے۔ اُس ہستی ۖنے جس پر کائنات کو ناز ہے، عورت کا ذکر خوشبو اور نماز کے ساتھ ہے۔ وہ مسلمان جس نے کہا عورت مرد کی پوجا کرنے والی بنے۔اُس نے قرآن حکیم کی حکمت کے راز کو سمجھا ہی نہیں۔ اگر تم ٹھیک اور صحیح فکر کے مالک ہو تو جان لو کہ ممتا رحمت ہے کیونکہ اُسے نبوت سے مُعلّمی کی نسبت ہے۔ اس کی شفقت گویا شفقتِ پیغمبری ہے جو قوموں کی سیرت کی صورت گری کرتی ہے۔امومت کی وجہ سے ہماری تعمیر زیادہ پختہ اور مضبوط ہو جاتی ہے اور اِس کے چہرے میں ہماری تقدیر پوشیدہ نظر آتی ہے۔ اگر تمہاری لغت میں صحیح فہم تک پہنچنے کی صلاحیت ہے تو اُمت کے ایک حرف میں ایک جہان پوشیدہ ہے۔حضور ۖ جو کائنات کی وجہ مقصود ہیں نے فرمایا کہ” جنت مائوں کے قدموں تلے ہے”۔۔۔۔۔۔رحم کی عزت و تکریم کرنے سے ہی ملت اور قوم بنتی ہے ورنہ زندگی کا سارا کاروبارخسارہ میں ہے۔ زندگی کی رفتار ممتا سے رواں دواں ہے اور زندگی کے پوشیدہ راز ممتا سے ہی کھلتے ہیں۔ اُمومت کے فیض سے ہمارے چشمے اُبل رہے ہیں۔ ہمارے چشموں کو موجیں اور تیز رفتاری اور ساری حرکت ممتا کی برکت سے ہیں
وہ مغربی تہذیب کی دلدادہ عورتوں اور اُمت کی مطلوب عورتوں کا فرق بیان کرتے ہوئے مثال پیش کرتے ہیں: ”وہ لڑکی جو دہقان کی گنوار، جاہل اور بد صورت بیٹی ہے اور تہذیب جدید کے آداب اور اس کی رنگینیوں سے نا واقف ہے۔ اُس کی چشم بصیرت بھی بہت دوررس نہیں ہے مگر ممتا کی تکلیفوں سے اُس کا دل اُمنگ سے خالی ہو چکا ہے۔ ماں بننے کے دشوار گزار عمل سے اُس کی آنکھوں میں حلقے پڑ چکے ہیں۔مگر اُس کے وجود سے ملت کو ایک حق پرست انسان میسر آجاتا ہے تو ہماری ملت کا وجود اُسی کے مر ہونِ منت ہے۔ مگر اس کی آغوش خالی ہے۔اُس کی فکر مغربی تہذیب و دانش سے آراستہ ہے۔ ظاہراً وہ عورت ہے مگر دراصل اُس کا باطن نازن ہے۔ملت کے مسلمہ اصولوں اور بندھنوں کو اُس کے علم نے توڑا ہے اور اُس کی نازو انداز والی فتنہ گر آنکھوں نے اور اُس کی آزادی اور ڈھٹائی نے فتنے اُبھارے ہیں اور حیا سے نا آشنا آزادی نے اور اُس کے علم نے اُسے بارامومت کے گراں بار فریضے کو ادا کرنے سے باز رکھا ہے اور اُس کی شام پر ایک ستارہ بھی چمکنے نہ پایا۔ہمارے ملت کے باغ میں ایسی عورتوں کے پھول نہ ہی کھلیں تو بہتر ہے۔ اِس کے وجود کے داغ سے ہماری ملت کا دامن پاک رہے تو زیادہ بہترہے اِن اشعار میں آج کی آزاد اور مغربی اقدار کی دلدادہ خواتین کو علامہ نے آئینہ دکھایا ہے وہ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مسلمان خواتین کے لیے نمونہ کامل اور آئیڈیل راہنما خاتون سمجھتے ہیں۔ لہذا ایک پورا باب حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نذر کیا ہے وہ ملت وقوم کا سرمایہ مال و دولت کو نہیں بلکہ نئی نسل کو سمجھتے ہیں جواب حقیقت بھی بنتی ہے
جب تک انسانی وسائل نہ ہوں تو مادی وسائل کسی کام کے نہیں رہتے قوم را سرمایہ ای صاحب ِنظر نیست از نقد و قماش سیم وزر مال او فرزند ہائے تندرست تر دماغ و سخت کوش چاق و چست ”صاحب نظر اور صاحب بصیرت اقوام کے لیے مادی وسائل، روپے پیسہ اور سونا چاندی کوئی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ قوم کا سرمایہ ذہین، محنتی، صحت مند اور متحرک نسل ہوتی ہے” حافظ رمز اخوت مادراں قوت ِقرآن و ملت ِمادراں
انسانیت اور بھائی چارے اوراخوت کی علامت مائیں اورقرآن کی قوت اور قوموں کادارومدار مائوں کے دم سے ہے۔ماں ہمارے خاندان کا دھڑکتا ہوا دل ہے اور ممتا اِس دل کے دھڑکنے کی آواز ۔ آئیے اپنی مائوں کی قدر کریں اور اپنے معاشرے کی عورتوں کو ممتا کا خوبصورت فریضہ ادا کرنے میں سہولتیں اور محبتیں عطا کردیں تاکہ پھر سے حضرت فاطمة الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیزیں اِس ملت کو عطا ہوں اور پھر سے اُن کی شاخوں پر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قافلے کے راہرو کھِل سکیں۔۔۔۔۔ماں شفیق اور مہربان تھی کہ جس نے اپنی اولاد کی تربیت اس انداز سے کی کہ آج ما شا ء اللہ بابر بھائی خدمت انسانیت میں مصروفِ عمل ہیں اور آخر میں میری زبان کی تھر تھراہٹ ، دل کی دھڑکنوں اور سانسوں کی روانیوں سے یہ دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ :کا ئنات کی ہر چیز اتھل پتھل ہو جا ئے موت کی خوفناک وادی میں دھکیل دی جائے پر ”شالا کِسے دی ماں نہ مرے ،، ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ خدائے قانوں ہے کہ ”کُلُ نفسِِ ذائقة المَوت،،اس کے آگے کسی کا زور نہیں چلتا