لاہور (جیوڈیسک) معروف صحافی کامران خان کا کہنا تھا کہ نیویارک ٹائمز کی خبر سے پہلے پاکستانی اداروں کو ایگزیکٹ کے بارے خیال کیوں نہ آیا تھا ؟۔ اگر الزامات صیح نہ ہوئے تو کون ذمہ داری لے گا؟۔ کامران خان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہزاروں نوجوان ایگزیکٹ کمپنی سے منسلک ہیں۔
اگر ملازمین کی نوکریاں چلی گئیں تو کون ذمہ دار ہوگا؟۔ اگر کوئی الزام ہے تو انویسٹی گیشن کرنی چاہیے لیکن ملازمین کو ہراساں نہ کیا جائے۔ اگر انویسٹی گیشن میں مدد چاہیے تو کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر الزام ثابت ہو جاتا ہے تو میرا بول آرگنائزیشن سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
سینئر صحافی افتخار احمد نے کہا کہ وہ بول گروپ سے وابستہ ہیں لیکن ایگزیکٹ کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ادارے پر پاکستان کے خلاف کاموں میں ملوث ہونے کا الزام ثابت ہو جاتا ہے تو پھر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ادارے سے وابستگی رکھنی ہے یا نہیں۔ افتخار احمد نے کہا کہ دیگر سکینڈلز پر بھی ایسے ہی کارروائی ہونی چاہیے جیسے ایگزیکٹ کمپنی کے خلاف ہو رہی ہے۔