اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17 رکنی فل کورٹ 18 ویں، 21 ویں آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کے خلاف کیس کی سماعت کر رہی ہے۔
وفاق کے وکیل خالد انور نے اپنے دلائل میں کہا آئین کا بنیادی ڈھانچہ اگر ہو تو تبدیل نہیں ہو سکتا، جو تبدیل ہو جائے وہ بنیادی ڈھانچہ نہیں ہو سکتا۔ بھارت کا آئین گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے، ہمارے ہاں بنیادی ڈھانچے کے نقطے پر آئینی ترمیم کالعدم نہیں ہو سکتی۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا بھارتی عدلیہ نے اندرا گاندھی کیس میں بنیادی ڈھانچے کی غلط تشریح کی۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کا کلی اختیار رکھتی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بنیادی ڈھانچے کا المیہ بھارت میں تو رہا ہوگا، ہمارے ہاں ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔
یہاں بادشاہت نہیں کہ حقوق دے کر واپس لے لیے جائیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آئین بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اگر بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے تو پھر روایات بھی نہیں ہونگی۔ کیا پارلیمنٹ بنیادی حقوق کو کم یا ختم کر سکتی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فرقہ واریت کو قرآن میں مرض قرار دیا ہے۔
آئین میں فرقہ واریت کا لفظ شامل ہونے کے بعد ملکی حالات آج کہاں پر ہیں۔ 1985ء سے پہلے ملک میں کوئی فرقہ واریت نہیں تھی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آرٹیکل 2 اے کو آئین کا حصہ 1985 میں بنایا گیا۔
آئین میں فرقہ واریت کا لفظ آمر نے متعارف کرایا، آئین میں فرقہ واریت کا لفظ شامل کیے جانے پر ہماری معاونت کریں۔