تحریر : محمد صدیق پرہار ویڈیولنک کے ذریعے سول سیکرٹریٹ لاہور میں اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پنجاب کے عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لیے اربوں روپے کے رمضان پیکج کی منظوری دے دی ہے۔ صوبہ بھرمیں تین سواٹھارہ سستے بازار جبکہ دو ہزار مدنی دسترخوان لگائے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پیکج کے تحت عوام کو رمضان بازاروں اور اوپن مارکیٹ میں سستے آٹھے کے تھیلے فراہم کیے جائیں گے۔
صرف سستے آٹے کی فراہمی پرپنجاب حکومت ساڑھے تین ارب روپے کی سبسڈی دے گی۔اوپن مارکیٹ میں آٹے کابیس کلوگرام کاتھیلا نوے روپے جبکہ رمضان بازاروںمیں ایک سوتیس روپے کم قیمت پرملے گا۔رمضان المبارک کے دوران آٹا،چینی، دالیں ،گھی،سبزیاںاورپھل رعائتی نرخوںپردستیاب ہوں گے۔عوام کے لیے یہ خوشخبری ہے کہ رمضان المبارک میں بیس کلوگرام آٹا کا تھیلا اوپن مارکیٹ میں نوے روپے اوررمضان بازاروںمیں ایک سوتیس روپے مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پرملے گا۔ اس بات کا اعلان بھی خوش آئند ہے کہ اشیائے خوردونوش بھی مارکیٹ ریٹ سے رعائتی نرخوںپردستیاب ہوں گی۔
تاہم اس میں یہ نہیں بتایاگیا کہ آٹانوے روپے اورایک سوتیس روپے سستا کس وقت کے مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پرملے گا۔مارکیٹ کے ریٹ روزانہ یکساں نہیں رہتے۔ ان میں اتارچڑھائو جاری رہتا ہے۔ خاص طورپرجب رمضان المبارک قریب آرہاہو مارکیٹ میں یکسانیت رہے یہ ہوہی نہیں سکتا۔کیونکہ ہمارے ملک میں کاروباری طبقہ اس مقدس مہینہ میں صارفین کودونوںہاتھوں سے لوٹ مارکرنا فرض سمجھتاہے۔جوں ہی رمضان المبارک قریب آنے لگتا ہے ۔ روزمرہ کے استعمال کی چیزوں اوراشیاء خوردونوش کی قیمتوںمیں آہستہ آہستہ اضافہ ہونا شروع ہوجاتاہے۔ رمضان المبارک شروع ہونے تک اشیائے صرف کی قیمتوںمیں نمایاں اضافہ ہوچکا ہوتاہے۔ پھرجب ان قیمتوںمیں رعائت دی جاتی ہے ۔تو منافع خورپہلے ہی اپناانتظام کرچکے ہوتے ہیں۔عام صارفین ریلیف ملنے کے باوجودبھی اس سے محروم رہتے ہیں بلکہ لوٹ مارکاشکاررہتے ہیں۔اب بتائیں جوچیزرمضان المبارک سے ڈیڑھ دومہینہ پہلے دس روپے فی کلوگرام دسیاب ہو۔
وہی چیزرمضان المبارک شروع ہونے کے وقت یااس سے دوچاردن پہلے پچاس روپے فی کلوگرام فروخت ہونے لگے۔ پھر حکومت عوام کودس روپے فی کلوگرام ریلیف بھی دے دے۔ اس چیزکی قیمت دس روپے فی کلوگرام کم کردے ۔ وہی چیزجورمضان المبارک سے ڈیڑھ دومہینہ پہلے دس روپے فی کلوگرام مل رہی ہو۔ اب وہی چیزرمضان المبارک شروع ہونے کے وقت یا دوچاردن پہلے حکومتی ریلیف اوررعائت کے بعد چالیس روپے فی کلوگرام فروخت ہونے لگے۔ اسے آپ ریلیف اوررعائت کہیں گے یاکچھ اور۔اس لیے شہبازشریف کی طرف سے رمضان پیکج کاجواعلان کیاگیا ہے اورعوام کوقیمتوںمیں کمی کی خوشخبری سنائی گئی ہے کہ انہیں اوپن مارکیٹ اوررمضان بازاروںمیں اشیائے خوردونوش عام مارکیٹ سے سستے داموں دستیاب ہوں گی۔اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس وقت کے عام مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پرملیں گی۔ جس وقت اس پیکج اورریلیف کا اعلان کیا جارہاہے اس وقت کے عام مارکیٹ ریٹ سے یاجس وقت یہ پیکج دیاجارہا ہوگا اس وقت کے عام مارکیٹ ریٹ سے۔
Flour Prices
یہ ہم پاکستانیوںکی نمایاں خوبی ہے کہ جب بھی کوئی مقدس ایام آتے ہیں یاکوئی تہوارآتاہے توہم یہ دیکھتے ہوئے کہ عوام اب ان چیزوںکااستعمال زیادہ کریں گے ان کی قیمتیں بڑھادیتے ہیں۔دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاناہم ضروری سمجھتے ہیں۔شہبازشریف نے یہ خوشخبری توسنائی ہے کہ رمضان المبارک میں اوپن مارکیٹ اوررمضان بازاروںمیں اشیائے خوردونوش سستے داموں دستیاب ہوں گی۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ کون سی چیزکس قیمت پردستیاب ہوگی۔کیاہی بہترتھا کہ رمضان پیکج کااعلان کرتے وقت اورمنظوری دیتے وقت وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف یہ اعلان بھی کردیتے کہ کون سی چیزرمضان المبارک میں اوپن مارکیٹ میں اوررمضان بازاروںمیں کس قیمت پردستیاب ہوگی۔عوام کوابھی سے بتادیا جاتا توبہترتھاکہ آٹا رمضان المبارک میں اوپن مارکیٹ میں اتنے روپے میں ملے گا اوررمضان بازاروںمیں اتنے روپے میں دستیاب ہوگا۔ دالیں، سبزیات، پھل، گھی وغیرہ کی قیمتیں یہ ہوں گی۔ان قیمتوںکااعلان نہ صرف پرچون ریٹ میںکیاجائے بلکہ تھوک ریٹ کی قیمتوںکااعلان بھی کیاجائے۔حکومت کی طرف سے ریلیف کاجواعلان کیاجاتا ہے اوراس پرعملدرآمدکے لیے جوسختیاںکی جاتی ہیں ان کی زد میںعام طورپرپرچون فروش ہی آتے ہیں۔ان میں ایسے دکانداریاچھابڑی فروش بھی ہوتے ہیں جوتھوک مارکیٹ سے روزانہ خریدکرروزانہ فروخت کرتے ہیں۔ ان کے پاس اتناسرمایہ بھی نہیںہوتا کہ وہ دوچاردن کاسامان ایک ساتھ خریدسکیں۔اب ایسے دکانداروں یاچھابڑی فروشوںکومجبورکیاجائے تویہ چیزیں حکومت کے اعلان کردہ ریٹس پربیچو۔یہ نہ دیکھاجائے وہ تھوک مارکیٹ سے کس قیمت پرلے آیاہے۔ ان چھوٹے کاروباری طبقہ کے ساتھ ناانصافی نہیں تواورکیاہے۔ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں اب پھریاددہانی کرارہے ہیں کہ قیمتوںمیں کمی یااستحکام لانے کے لیے ضروری ہے کہ پرچون سے زیادہ تھوک ریٹ پرتوجہ دی جائے۔ کیونکہ تھوک مارکیٹ میں چیزوںکی قیمتیں کم ہوجائیں گی توپرچون مارکیٹ میں خودبخودقیمتیں کم ہوجائیں گی۔تھوک مارکیٹ میں قیمتوںمیں کمی کے بعد کوئی پرچون فروش قیمتیں کم نہیں کرتا تواسے سزادی جائے یہ ناانصافی نہیںہوگی۔تھوک مارکیٹ میں بھی قیمتوںمیں اتنی کمی کی جائے کہ پرچون میں بھی قیمتوںمیںکمی کی جا سکے۔
اب تھوک مارکیٹ میں کسی چیز کی قیمت بیس روپے فی چالیس کلوگرام کم ہوجائے اسی چیزکی قیمت پرچون ریٹ میں ایک روپیہ فی کلوگرم بھی کم نہیںکی جاسکتی۔اب اگرپرچون فروش کومجبورکیا جائے کہ جوچیزتھوک مارکیٹ میں بیس روپے فی چالیس کلوگرام سستی مل رہی ہے وہی چیزپرچون میں ایک روپیہ فی کلوگرام سستی فروخت کرتویہ اس کے ساتھ ناانصافی نہیںہوگی توکیا ہوگی۔ اس طرح تواس دکانداریاچھابڑی فروش کونفع کی بجائے نقصان ہی ہوگا۔اس لیے ضروری ہے کہ پرچون کے ساتھ ساتھ تھوک مارکیٹ کی قیمتیں بھی مقررکی جائیں۔یہ قیمتیں پانچ کلوگرام، دس کلوگرام، بیس کلوگرام، چالیس کلوگرام اورسوکلوگرام کی مقررکی جائیں۔سبزی اورفروٹ منڈیوں میں بھی بولی کانظام ختم کرکے تھوک وپرچون قیمتیں مقررکی جائیں۔دس کلوگرام کاکریٹ اتنے روپے میں ملے گااورچودہ کلوگرام کاکریٹ اتنے روپے میں۔ کھلی سبزیاں اورفروٹ کے ریٹ بھی فی کلوگرام، پانچ کلوگرام، دس کلوگرام، بیس کلوگرام اورچالیس کلوگرام کی قیمتیں مقررکی جائیں۔شہبازشریف کاکہناتھا کہ سترہ ماڈل بازاربھی سستے بازاروںمیں تبدیل ہوجائیں گے۔چینی رمضان بازاروںمیںمارکیٹ ریٹ سے آٹھ روپے کلوکم نرخوںپردستیاب ہوگی۔انڈے اورمرغی کاگوشت مارکیٹ ریٹ کے مقابلے میں ستے داموں دستاب ہوگا۔رمضان بازاروںمیں یوٹیلٹی سٹور کے سٹال بھی لگائے جائیں گے۔یہ چیزیں کس وقت کے مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پرملیں گی۔ جس وقت یہ اعلان کیاجارہا ہے اس وقت کے مارکیٹ ریٹ سے یااس وقت کے مارکیٹ ریٹ سے جس وقت یہ چیزیں سستے داموں فروخت کی جاری ہوں گی۔
Ramadan Package
مزیدتفصیل ہم اس تحریرمیں پہلے ہی لکھ چکے ہیں۔جوں ہی رمضان المبارک قریب آنے لگتاہے تونہ صرف اشیائے خوردونوش اورعام استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بتدریج بڑھناشروع ہوجاتی ہیں بلکہ اوربھی بہت سی چیزوںمی قیمتوںمیں اضافہ ہوناشروع ہوجاتاہے۔ہم ایک ہوٹل سے آئے روزچائے پیتے ہیں۔ کبھی دس روپے اورکبھی پندرہ روپے والی پیالی چائے پیتے ہیں۔ یہ سطورلکھتے وقت پندرہ دن بھی نہیں ہوئے جب ہم اس ہوٹل میںگئے توہم نے دس روپے والاچائے کاکپ بنانے کاکہاتوہوٹل والے نے کہا کہ اب دس روپے کاکپ نہیں ملے گا۔ہم نے کہا کہ ہم نے توکبھی اعتراض نہیں کیا کہ چائے اتنی کم کیوں ہے۔ کیونکہ اکثرگاہک یہ شکایت کرتے ہیں کہ چائے کم ڈالی گئی ہے۔ تو اس ہوٹل والے نے کہا کہ کیاکریں رمضان المبارک جوقریب آرہا ہے اس لیے میٹریل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔چینی پہلے اس ریٹ میں لے آتے تھے اب اس ریٹ میں مل رہی ہے۔ چائے کی پتی پہلے اتنے روپے میں ملتی تھی اب اتنے روپے میں مل رہی ہے۔ اب خود بتائیں دس روپے کاکپ کیسے دیں۔ہم نے اپنے الفاظ کہ دس روپے والاکپ بنادوواپس لینے میں عافیت سمجھی۔وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ محکمہ زراعت تین سو٣٥ فیئرشاپس قائم کرے گا جبکہ ١٤٧ گرین چینل بھی کھولے جائیں گے ۔جہاں کسان براہ راست اپنی شیاء فروخت کرسکیں گے۔رمضان بازاروںمیں یوٹیلٹی سٹورکے سٹال بھی لگائے جائیں گے۔انہوںنے ہدایت کی کہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بلاامتیازکارروائی عمل میںلائی جائے۔یہ بھی ہماری خوبی ہے کہ ہم جب دیکھتے ہیں کہ ان اشیاء کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے یاجب کوئی خاص دن آتے ہیں اورہم بخوبی جانتے ہوتے ہیں کہ ان چیزوںکی فروخت میں اب اضافہ ہوجائے گا۔ عوام یہ چیزیں ہرقیمت پر خریدیں گے۔ توہمیں قیمتوںمیں اضافہ کرنے کااورکوئی جوازبھی نہ مل رہا ہوتوہم ان چیزوںکی مصنوعی قلت پیداکردیتے ہیں۔
اس کاسب سے بڑافائدہ یہ ہوتاہے کہ صارفین مجبوری سے ان چیزوںکی قیمتیں ازخودبڑھادیتے ہیں۔ یوں ان چیزوںکی قیمتوںمیں اضافہ بھی ہوجاتاہے اورکاروباری طبقات مہنگائی کرنے قیمتوںمیں اضافہ کرنے کے جرم سے اپنے طورپربھی محفوظ رہ جاتے ہیں۔کیونکہ وہ گاہک کونہیںکہتے کہ جوچیزقلت سے پہلے دس روپے فی کلوگرام دستیاب تھی ۔اب وہ اس کے بارہ روپے یاپندرہ روپے دیں۔ وہ توگاہک سے کہتے ہیں کہ ان کی مطلوبہ چیزہے ہی نہیں۔ اب جس کواس چیزکی سخت ضرورت ہوتی ہے وہ خود کہتا ہے کہ بارہ، تیرہ، پندرہ روپے کلوکے لے لو ۔ یہ چیزمجھے دے دو۔ پھردکاندارکہتا ہے اچھا آپ مجبورکررہے ہیں۔ لگتا ہے تمہیں اس کی سخت ضرورت ہے چلوتمہارے لیے کوشش کرتے ہیں اورتلاش کرتے ہیں۔ امیدہے جتنی آپ کوچاہیے مل جائے گی۔پھروہ خفیہ جگہوںسے گاہک کی مطلوبہ چیزنکال کے لے آتے ہیں۔ذخیرہ اندوزی نہ صرف قانونی طورپرجرم ہے بلکہ اخلاقی ،معاشی اورمعاشرتی طورپربھی جرم ہے۔یہ ذخیرہ اندوزی بھی بڑے بڑے کاروباری حضرات کرتے ہیں۔ چھوٹے دکانداتوزیادہ خریداری بھی نہیں کرسکتے وہ ذخیرہ اندوزی کیسے کریں گے۔ قارئین کویادہوگا کہ ملک میں پٹرلیم مصنوعات کی قیمتوںمیںنمایاں کمی کے بعدضلعی انتظامیہ کی طرف سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوںمیں کمی کااعلان کیاگیا۔ توضلعی انتظامیہ کے اس اقدام کے خلاف دکانداروںنے احتجاج کیا۔ دکانیں بندرکھیں اورریلی بھی نکالی۔ ان دکانداروںکاکہنا تھا کہ انہیں یہ قیمتیںمنظورنہیں ہیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ دکاندارجوٹرکوں کے ٹرک سٹورکیے ہوئے تھے ۔ انہیں قیمتوںمیں معمولی کمی کی وجہ سے اپنے سٹورکیے گئے مال میں کروڑوں روپے کے نفع میں نقصان کااندیشہ لاحق ہوگیا۔کسی کے نفع میں کروڑوں روپے کی کمی ہوجانے کاخطرہ ہواوروہ خاموش بیٹھارہے یہ ہوہی نہیں سکتا۔ حکومتیں ذخیرہ اندوزی کے خلاف اقدامات کرتی رہتی ہے۔ تاہم پچھلے چندسالوں سے ایسے اقدامات دکھائی نہیں دے رہے۔ہم نے پچھلے کئی سالوں سے نہ توسناہے اورنہ ہی کسی اخبارمیں پڑھاہے کہ ذخیرہ اندوزوں کے خفیہ گوداموںمیں چھاپے اتنامال برآمد۔ذخیرہ اندوزی روکنے کے لیے اقدامات ساری سال جاری رہنے چاہییں۔ناجائزمنافع خوری اورذخیرہ اندوزی سے عام صارفین کامعاشی استحصال ہوتاہے۔ذخیرہ اندوزی روکنے کے لیے مخبروںکی ٹیم بنائی جائے جوبڑے بڑے کاروباری طبقات کے خفیہ گوداموںکوتلاش کرکے متعلقہ افسران کوبتائیں۔ پھران پرچھاپے مارکرسٹورکیاگیا مال برآمدکرلیاجائے۔ان کاکہنا تھا کہ دالیں اوردیگراشیاء ذخیرہ کرنے والوں کی جگہ جیل ہے۔
شہبازشریف نے کہا کہ تمام وزراء اورسیکرٹری صاحبان رمضان المبارک کے دوران اشیائے ضروریہ کی قیمتوںکی چیکنگ کے لیے دورے کریں گے۔وزراء اورسیکرٹریوں کے اس طرح کے دوروں سے مقامی انتظامیہ پرتودبائو رہتا ہے تاہم سابقہ تجربات یہی بتاتے ہیں کہ یہ دورے بھی بے سودہی رہتے ہیں۔اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوچکی ہیں کہ جوں کوئی وزیریاسیکرٹری کسی شہریاقصبہ کے دورے پرآتا ہے توراتوں رات رمضان بازاریاسستابازارقائم کردیاجاتا ہے۔ جوں ہی وہ وزیریاسیکرٹری اپنادورہ کرکے واپس چلاجاتاہے توسب کچھ فناہوجاتاہے نہ رمضان بازاررہتا ہے اورنہ ہی سستابازار۔اس طرح کی فنکاریاں سیلاب کے دنوںمیں بھی کی جاتی ہیں۔کہ حکام کے آنے پرریلیف کیمپ قائم ہوجاتے ہیں جبکہ ان کے چلے جانے کے ساتھ ریلیف کیمپ بھی رفوچکرہوجاتے ہیں۔ان کاکہنا تھا کہ رمضان بازاررمضان المبارک کی آمدسے ٣ روزقبل کام شروع کردیں گے۔ان کاکہنا تھا کہ عوام کورمضان المبارک کے دوران ریلیف کی فراہمی میںکوئی بہانے بازی نہیں چلے گی۔اشیائے ضروریہ، پھلوں ، سبزیوںاوردالوںکی کوالٹی پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔رمضان اورسستے بازاروںمیں یہ شکایات بھی پائی جاتی ہیں کہ وہاں پہلے سے ہی سستے برانڈاورغیرمعیاری اشیاء فروخت کی جاتی ہیں۔شہبازشریف کی یہ وارننگ ہی کافی نہیں۔ معیاراورمقدارکی چیکنگ کابھی روزانہ کی بنیادپرانتظام ہوناچاہیے۔
جب بھی صوبائی حکومت یاضلعی انتظامیہ کی طرف سے عام صارفین کوریلیف دینے کے لیے اورناجائزمنافع خوروں اورذخیرہ اندوزوں کی حوصلہ شکنی کے اقدامات کیے جاتے ہیں توکہا جاتاہے کہ دکانداروںکوناجائزتنگ کیاجارہا ہے۔گزشتہ سال رمضان بازارشہری آبادی سے دورلگائے گئے۔اس سال ایسا نہ کیاجائے بلکہ رمضان بازاراورسستے بازارشہری آبادی کے درمیان یاایسی جگہ لگائے جائیں جہاں شہری آسانی سے آسکیں۔اشیائے ضروریہ کی قیمتوں ،ان کے معیاراورمقدارکی چیکنگ کے لیے وزراء اورسیکرٹری صاحبان اگرچہ دورے کرتے رہتے ہیں۔ جعلی رمضان بازاروںکی شکایات بھی اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ان دوروں سے صرف ایک دن کے لیے ہی سب کچھ ٹھیک ہوتاہے پھرویساکاویساہوجاتاہے۔اس لیے صوبائی دارالحکومت میں شکایات سیل قائم کرکے اس کانمبرعام کردیاجائے ۔صارفین کسی بھی شکایت کی صورت میں ان نمبروںپررابطہ کرکے شکایت درج کرائیں۔ایک خاص نمبربھی جاری کیاجائے جوبااعتمادصارفین اورصحافیوںکودیاجائے۔جس پروہ حکومت کوصورتحال سے آگاہ کرسکیں۔عوام کوریلیف کی فراہمی میں تمام شعبہ جات تعاون کریں تواس کے بہترنتائج سامنے آسکتے ہیں۔