تحریر: امتیاز شاکر: لاہور 42 سال تک کوما میں رہنے والی بھارتی نرس کو بل آخر موت آ ہی گئی۔وہ ارونا شنباگ ممبئی کے کنگ ایڈورڈ میموریل اسپتال میں جونیئر نرس تھیں جنہیں 1973 میں ان کے ایک ساتھی نے جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ زیادتی کی کوشش کے دوران ارونا کے سرپر سخت چوٹ آئی تھی جس کے باعث ان کے دماغ کو آکسیجن کی فراہمی متاثر ہوئی تھی اور وہ کوما میں چلی گئی تھیں۔کنگ ایڈورڈ میموریل اسپتال کے سربراہ پراوین بنگر نے میڈیا ورلڈلائن کو بتایا کہ ارونا پر گزشتہ ہفتے نمونیا کا حملہ ہوا تھا جس کے بعد وہ گزشتہ چند روز سے مشینوں کے سہارے زندہ تھیں۔
ارونا کی ایک سہیلی اور ان پر کتاب کی مصنفہ پنکی ویرانی نے 2011ء میں بھارت کی سپریم کورٹ سے انہیں ٹیوب کے ذریعے خوراک دینے پر پابندی عائد کرنے اور انہیں “ان کی تکلیف دہ زندگی سے نجات” دلانے کی استدعا کی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔مقدمے کی سماعت کے دوران کنگ ایڈورڈ اسپتال کی نرسوں اور عملے نے اس درخواست کی سخت مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ وہ ارونا کی دیکھ بھال کریں گے۔ارونا کے اہلِ خانہ نے کئی برس قبل ان کی نگہداشت کے اخراجات برداشت کرنے سے معذرت کرلی تھی۔ اسپتال کی نرسوں اور عملے نے ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی جسے انہوں نے 42 سال تک نبھایا۔ ارونا شنباگ جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بننے کے فوراًبعد دم توڑ جاتی تو دنیا میں خوتین کے حقوق کی آواز بلند کرنے تنظیموں اور حکمرانوں کی بچت ہوجاتی پر وہ بڑی بہادر خاتون نکلیں کو جو مرکر بھی 42برس ترقی یافتہ معاشرے کے چہرے پر تمانچے مارتی رہیں۔
خواتین کے حوالے بات کرتے ہوئے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ماضی قر یب تک عورت کا کام محض مردو ں کے جنسی جذ بات کی تسکین کرنا ، بچے پالنا اور گھریلو ذمہ داریاں ادا کر نا تھا جبکہ عورت کے حقو ق کا کہیں ذکر نہیں تھا پر راقم کا یہ منانا ہے کہ آج بھی جاہل معاشروں میں عورت صرف ایک جسم ہی ہے۔اسلام سے پہلے لڑکیو ں کو پیدا ہو تے ہیں زند ہ در گو ر کر دیا جا تا تھا۔سب سے پہلے اسلا م میں قرآنی پیغام کے ذریعہ پیغمبر انسا نیت حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کے حقوق کا علم بلند کیا اور انہیں معا شرے کا معزز فرد گردا نہ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عملی کر دا ر کے ذریعے عورت کے معا شرہ میں مقا م کو بہت بلند کر دیا۔جب مغر ب نے خواب غفلت سے انگڑائی لی تو ظلم وجبر کے دوسر ے بہت سے پہلوئوں کی طر ح عورتو ں کے حقو ق کی آواز بھی بلند ہو ئی۔عو رتو ں کے حقو ق کے تحفظ کے لئے نجی اور حکو متی سطحو ں پر بہت کام ہو ااور با لآخر خوا تین کے حقوق کو ملکی قوا نین اور یو این او جیسی بین الاقوا می تنظیمو ں کے چا رٹر کے ذریعے تحفظ فرا ہم کر دیا گیا۔
Aruna Shanbaug
اگر چہ آج حا لا ت ما ضی سے بہت بہتر ہو چکے ہیں پراب بھی حکو متی اور بین اقوامی ادا رو ں کے ذریعے عو رتوں کو فر اہم کئے گئے حقوق کو عملی شکل دینے کے لئے لمبی جدو جہد کی ضرورت ہے۔ عورتو ں پر ہو نے وا لے مظا لم کا ایک بھیا نک رخ ان کو جلا نا دینا ہے۔جلانے کے اس عمل میں عورت یا تو اس جہان فا نی سے کوچ کر جا تی ہے یا پھر وہ زند گی بھر کے لئے معا شرے میں نا قا بل قبو لاور اچھو ت بن کر رہ جا تی ہے۔پاکستا ن میں بھی اس قسم کے واقعا ت تواتر سے منظر عام پر آتے رہتے ہیں جس میں عمو ماًگھر پر چو لہا پھٹ جا نے سے یا کسی دو سری وجہ سے عو رت جل جا تی ہے اور اکثر اوقا ت مو ت کے منہ میں چلی جا تی ہے۔1998کے دورا ن پنجا ب میں خوا تین کے جلنے کے282واقعا ت رپو رٹ کئے گئے۔ ان واقعا ت میں متا ثر ہ 65 فیصد خوا تین زخمو ں کی تا ب نہ لا تے ہو ئے وفا ت پا گئیں۔راولپنڈ ی اور اسلا م آباد کے ہسپتا لو ں میں 1994 ء میں لئے گئے تین سا ل کے اعدا د وشما ر کے مطا بق 739خوا تین جلنے کا شکا ر ہو ئیں۔یقینا ان متا ثر ہ خوا تین کی تعداد کئی گنا زیا دہ ہو گئی جن کے واقعا ت رپو رٹ نہیں ہو سکے یا وہسپتا ل تک نہ پہنچ سکیں۔
یہ با ت بہت اہم ہے کہ گھر یلو سطح پر خواتین پر تشدد عو رتو ں کے اعتما د اور عز ت نفس کی نفی کر تا ہے اور انکی صحت خرا ب کر تا ہے جبکہ عوا می سطح پر تشدد کا خو ف خوا تین کو معا شر تی تر قی میں ان کے جا ئز کر دا ر سے محر وم کر دیتا ہے۔مختلف معاہدا ت کی رو شنی میں یہ حکو مت پا کستا ن کی ذمہ دا ری ہے کہ گھریلو تشدد کی شکا ر خوا تین کا مکمل تحفظ فرا ہم کر ے۔پا کستا ن 1996 سے ”عورتو ں کے عا لمی کنو نشن”کا ممبر ہے۔اس کنو نشن کی رو سے حکو مت کی ذمہ دا ری ہے کہ ایسے سما جی طرز عمل اور رسم ورواج کو ختم کر نے کی بھر پو ر کوشش کر ے جو مر دو ں اور عو رتو ں کے درمیا ن بنیا دی حقو ق کے حوا لے سے تفر یق کر تے ہیں۔ پا کستا ن نے خوا تین کے خلا ف تما م اقسا م کے امتیا زی سلو ک کے خا تمے کے کنو نشن سی ڈی او پر بھی دستخط کر رکھے ہیں جس کے تحت ایسے تما م رسم وروا ج جو خوا تین کے خلا ف امتیاز پیدا کرتے ہیں ان کو ختم کر دیا جا ئے گا۔دفعہ 174 الف ضابطہ فوجدا ری پا کستان، یہ دفعہ تین حصو ں پر مشتمل ہے۔جلا نے سے شدید زخ ، جب کسی اایسے شخص جو کہ آگ، مٹی کے تیل ،کیمیا وی ما دے یا کسی بھی اور ذریعہ سے جلنے کے سبب شدید زخمی ہو گیا ہو کو میڈ یکل افسر کے رو برو لا یا جا ئے یا اگر جلنے کا کو ئی وا قعہ پو لیس سٹیشن کے افسر انچا رچ کے علم میںلا یا جا ئے تو وہ (میڈ یکل افسر یا پو لیس افسر انچا رج)قر یبی مجسٹر یٹ کو اس واقعہ کی فوری اطلا ع دینے کے پا بند ہو ں گے۔
Women Violence
سا تھ ہی سا تھ ڈیو ٹی پر مو جو د میڈ یکل افسر فوری طو ر پر زخمی شخص کا بیا ن قلمبند کر گا تا کہ حا لا ت و واقعا ت کا جا ئزہ لیا جا سکے نیز جلنے کی وجو ہا ت کا تعین کیا جا سکے۔مجسٹر یٹ کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایسے شخص کا بیا ن قلمبند کرے گا وہ اس وقت تک بیان دینے کے قا بل رہا ہو۔ نمبر دو ڈیو ٹی پر مو جو د میڈ یکل افسر یا بصورت دیگر مجسٹریٹ بیا ن قلمبند کر نے سے قبل اس با ت کا اطمینان کر لے گا کہ زخمی شخص کسی دھمکی یا دبا ئو کے زیر اثر تو نہیں ہے۔
اس بیا ن کی نقو ل متعلقہ ایس پی ، سیشن جج اور افسر انچا رج پو لیس سٹیشن کو بھیجی جا ئیں گیا نمبر تین اگر مضرو ب شخص کسی وجہ سے اس قا بل نہیں رہا ہے کہ مجسٹر یٹ کو اپنا بیا ن قلمبند کروا سکے توایسی صورت میں میڈ یکل افسر کا قلمبند کر دہ بیا ن سر کر کے مجسٹر یٹ کو یا ابتدا ئی سما عت کی مجا زعدا لت کو ارسا ل کیا جا ئے گا اور زخمی شخص کے انتقال کی صورت میں اس بیا ن نزعی کے طو ر پر شہا دت/ ثبو ت کی حیثیت میں تسلیم کیا جا سکتا ہے۔اگر چہ یہ قانون ازروئے آرڈی نینس 66 ،مو رخہ 17 نو مبر 2001 سے نافذ العمل ہے لیکن عوا م النا س کے علا وہ پو لیس افسرا ن ، قا نو نی ما ہر ین ، مجسٹر یٹ ،انسا نی حقو ق کے علمبردار ادارے اور میڈیکل افسرا ن بھی اس قا نو ن سے کما حقہ آگا ہی نہیں ہیں۔