تحریر : محمد شاہد محمود پاکستان کے قیام کے 68برس بیت گئے لیکن اس ملک میں غریب کی حالت نہیں بدلی،حکمران آتے ہیں ،الیکشن کے دنوں میں سہانے خواب دکھاتے ہیں اور جیتنے کے بعد ہمشیہ کے لئے ہی عوام کو بھول جاتے ہیں،پاکستان میں ایک غریب مزدور کی تنخواہ دس ہزار روپے ہے جو وقت پر ملتی ہی نہیں اس کے مقابلے میں وزیراعظم نے اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافے کا نوٹفکیشن جاری کر دیا شاید پاکستان کے سب سے غریب منتخب عوامی نمائندے ہیں ۔ دنیا چاند پرپہنچ چکی ہے اور پاکستان کے بچے آج بھی گندگی کے ڈھیروں میں رزق تلاش کر رہے ہیں ڈگریاں کاغذ کے بے جان ٹکڑے بن گئے ہیں بڑے عہدے اور اعلیٰ مناصب پر خاص طبقہ قابض ہے
اس نظام میں غریبوں کیلئے رونے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بوسیدہ عدالتی نظام کے باعث یہاں انصاف بکتا ہے یہ نظام صرف سرمایہ داروں کیلئے ہے بینکوں نے آج تک کسی غریب کو قرضہ نہیں دیاغریب بدحال ہے اس نظام نے آج تک غریب عوام کو ایک زبان بھی نہیں دی ۔ ملک کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ بدامنی لاقانونیت ،دہشت گردی،غربت ،مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کیلئے عوام کو اب اس مٹھی بھر اشرافیہ کاکڑا احتساب کرنا ہوگا۔ اب پارٹیاں بدلنے والے سیاسی پنڈتوں کا دور گزر گیا ۔ عوام اب انکی آنے والی نسلوں کو بھی پہچان چکے ہیں اب عوام کو دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔
ملک میں 68سال سے غریبوں کے ساتھ شودروں جیسا سلوک ہو رہا ہے سیاسی پارٹیاں برہمنوں کے ٹولے بن چکی ہیں ۔ ان کے اندر جمہوریت نہیں بلکہ آمریت ہے۔ ملک پر چند مغل شہزادوں کا راج ہے جن کے رشتہ دار سیاسی پارٹیاں چلا رہے ہیں۔ ظالمانہ واستحصالی نظام کی وجہ سے لوگ اپنے جگر گوشوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیںجب تک ملک میں اسلام سیاسی طور پر نافذ اور شریعت کا نظام نافذ نہیں ہوتا اس وقت تک ملک وقوم مسائل کے دلدل سے نہیں نکل سکتے۔ قیام پاکستان کے 68سال کے بعد ایک دن بھی اسلامی قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کیا گیا،
Pakistan
یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کا بچہ بچہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا مقروض ہے۔ ملک میں استحصالی نظام کی وجہ سے عوام کے اندر حکمرانوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے ۔ طبقاتی نظام تعلیم سے امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے ۔ امیروں کے بیٹے حکمران بنتے ہیں اور غریبوں کے بچے زندگی کی ایک ایک سہولت کو ترستے رہتے ہیں ۔ موجودہ طبقاتی اور استحصالی نظام نے تانگے، ریڑھی، چھابڑی اور رکشہ والوں کے لیے زندگی کو ایک بھیانک خواب بنادیا ہے ۔ معصوم بچے محنت مزدوری پر مجبور ہیں ۔ غریب سارا دن محنت مشقت کرنے کے بعد بھی مسائل سے دوچار رہتے ہیں ۔ اقتدار پر قابض چند سیاسی خاندانوں نے انتہائی مکاری اور عیاری سے عوام کو تقسیم کیاہے ۔عوام ان کے لیے نعرے لگاتے ہیں ووٹ دیتے ہیں اور انہیں کندھوں پر بٹھاتے ہیں مگر یہ ظالم اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر ایک دوسرے کے مفادات کے محافظ بن جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دیتے ہیں لیکن عوام کی بدحالی دور کرنے کے لیے وہ کچھ نہیں کرتے۔
عالمی اقتصادی فورم کی طرف سے افرادی قوت انڈیکس سے متعلق جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اس حوالے سے دنیا کے 124 ملکوں میں سے 113 نمبر پر ہے جس کی ایک بڑی وجہ تعلیم کے شعبے میں اس کی خراب کارکردگی ہے۔ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ اس لحاظ سے حکومتی عدم توجہی کا شکار رہا ہے کہ اس کے لیے سالانہ قومی بجٹ کا صرف دو فیصد ہی مختص کیا جاتا ہے جب کہ ماہرین مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد صرف کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں سکول جانے کی عمر کے تقریباً اڑھائی کروڑ بچے بھی سکول نہیں جاتے جس کی وجہ غربت اور سکولوں تک بہت سے لوگوں کی رسائی نہ ہونا بتائی جاتی ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی رپورٹ میں بھارت 124 ملکوں میں سے سویں نمبر پر ہے جب کہ ایشیا میں صرف جاپان کی صورتحال قابل ذکر ہے جس کا نمبر پانچواں ہے۔پلڈاٹ نے وفاقی حکومت کے پہلے سال کی کارکردگی رپورٹ جاری کر دی جس کے مطابق حکومت غربت ، بے روزگاری اور مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔
آسمانی آفات سے نمٹنے ، خارجہ پالیسی کی بہتری ، بھرتیوں اور ترقیوں کے حوالے سے میرٹ پالیسی پر بھی صرف 60 فیصد اہداف حاصل ہو سکے۔ سکور کارڈ آن فیڈرل گورنمنٹ کوالٹی گورننس کے سے نام جاری رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت کے پہلے سال کے دوران سب سے خراب کارکردگی غربت کے خاتمے کی کوششوں کے حوالے سے ریکارڈ کی گئی۔ اس شعبے میں اہداف کے حصول کی شرح صرف 22 فیصد رہی۔ رپورٹ کے مطابق حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں بھی ناکام رہی یہاں صرف 37 فیصد اہداف حاصل کئے جا سکے۔ بیروزگاری ، اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور ریگولیٹری ادارے اپنے فرائض کی ادائیگی میں صرف 38 فیصد کامیابی حاصل کر سکے۔ نظام کی شفافیت کے حوالے سے بھی حکومت کو بری طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور سکور صرف 27 رہا۔
Utility Store
صحت کی نگہداشت ، ماحولیاتی استحکام اور نادہنگان سے یوٹیلیٹی بلوں کی وصولی میں بھی کامیابی کا تناسب صرف 32 فیصد ریکارڈ کیا گیا جبکہ ٹیکس وصولیوں کی کوششوں میں بھی 45 فیصد کامیابی مل سکی۔ آبادی کنٹرول کرنے میں حکومت صرف 33 فیصد اہداف حاصل کر سکی۔ پلڈاٹ کے مطابق خارجہ پالیسی کی مینجمنٹ میں نواز شریف حکومت 60 فیصد درست سمت میں چلتی رہی جبکہ آسمانی آفات سے نمٹنے کی تیاری اور انتظامات میں 62 فیصد نمبر حاصل کئے۔ سرکاری محکموں میں میرٹ پر بھرتیوں اور تبادلوں میں بھی حکومت کو 61 فیصد کامیابی ملی۔ تعلیم اور آبی وسائل کی ترقی اور انتظامی معاملات میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی کارکردگی کا 100 میں سے 42 بتایا گیا ہے۔
ملک میں غربت ، جہالت ، مہنگائی ، بے روزگاری اور بدامنی کے ذمہ دار وہ حکمران ہیں جنہوں نے تمام وسائل پر قبضہ کررکھاہے ۔ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی تمام پالیسیاں اشرافیہ اور امیروں کو فائدہ پہنچانے تک محدود ہوتی ہیں ۔ آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضوں کا عوام کوکو ئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
یہ قرضے حکمرانوں کے پیٹ میں جاتے ہیں اور مقروض عام پاکستانی ہوتاہے ۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل اس گلے سڑے نظام کیخلاف بغاوت کا اعلان کریں۔ یہاں قانون صرف غریب آدمی کیلئے ہے۔تعلیم سے لیکر سیاستدانوں تک دہرے قانون ہیں،غریبوں کیلئے ایک تو امیروں کیلئے الگ قانون ہے،جب تک امیر اور غریب کی تفریق ختم اور قانون سب کیلئے برابر نہیں ہوتا ملک ترقی اور عوام کی قسمت تبدیل نہیں ہوگی