تحریر : احسان الحق اظہر 13 مئی 2015ء صبح ساڑے نو بجے کراچی ایک مرتبہ پھر لہولہان ہو گیا، انسانیت کی دشمنوں نے خون کی ایسی ہولی کھیلی کہ ہر دیکھنے سننے والی آنکھ نم ہو گئی۔ سچل گوٹھ تھانے کی حدود صفورہ چورنگی کے قریب ماروڈا گوٹھ اور غازی گوٹھ کے درمیان سنسان سڑک پر 3 موٹر سائیکلوں پر سوار 6 مسلح ملزمان اسماعیلی کمیونٹی کی بس روک کر اس میں داخل ہو ئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں بس میں سوار خواتین اور بچوں سمیت 48 کے قریب افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔
وقوعہ کا دورہ کرنے والے کاؤ نٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ کے افسروں کے مطابق اس بہیمانہ کارروائی میں ملوث قاتل شارپ شوٹر تھے کیوں کہ بس میں چلائی جانے والی گولیاں ٹھیک نشانوں پر لگائی گئیں اور گولیاں ضائع نہیں کی گئیں۔سانحہ صفورا میں ملوث ملزمان اپنی مذموم کارروائی کے بعد ایک پمفلٹ پھینک کر فرار ہوگئے ، ملزمان کے جو حلیے سامنے آئے ہیں اس حلیے کو ماضی میں ہونیو الے واقعات سے ملا یا جا رہا ہے۔
واقعہ کے بعد حسب سابق ایک طرف حکومتی حلقوں کی جانب سے ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے ، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے اظہارہمدردی ، فوری طور پر امداد کے اعلانات ، زخمیوں کو تمام طبی سہولیات کی فراہمی کے احکامات جاری ہوئے تو مخالفین نے اسے حکومت نااہلی اور غفلت سے تعبیر کرتے ہوئے اپنی توپوں کے رخ نہ صرف حکومت کی جانب کرلئے بلکہ اسے آڑے ہاتھوں لے لیا ۔ کراچی میں مختلف اداروں میں کام کرنے والے اور کاروبار کرنے والے افراد کو گھروں سے ان کی منزل تک لے جانے کیلئے 40کے قریب بسیں مختلف روٹس پر چلتی ہے’ ان بسوں میں بیٹھ کر مختلف کمیونٹی کے لوگ اپنے کام کاج پر جاتے ہیں’ زیادہ تر بسیں بولٹن مارکیٹ’ ٹاور ، آئی آئی چند ریگر روڈ آتی ہے اور شام کو ان تمام افراد کو واپس ان کے گھروں تک پہنچاتی ہیں۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ سرکار تمام افراد کوسکیورٹی فراہم کرے ، یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اردگرد ماحول پر نظر رکھیں اور کسی بھی غیر معمولی نقل و حرکت کو فوری طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علم میں لائیں۔
صفورا حملے کے محرکات سیاسی یا فرقہ وارانہ ہو سکتے ہیں۔ایک پرامن جماعت پر حملہ عقل سے عاری تشدد کی عکاسی کرتا ہے۔ اسماعیلی ایک پْر امن عالگیر برادری ہے جو دنیا بھر میں دوسرے نسلی اور مذہبی گروہوں کے ساتھ پر امن انداز میں رہتی ہے۔ ایک پْر امن کمیونٹی کے خلاف ایسی دہشت گرد کارروائی ناقابل فہم ہے۔
Terrorism
بسیں روک کر مسافروں پر فائرنگ دہشتگردوں کا آسان ہدف ہے۔ کراچی سے لے کر کوہستان تک اب تک متعدد بے گناہ انسان ایسے واقعات میں دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔سانحہ صفورا سے قبل 27 مارچ 2015 کو کراچی میں پولیس کی بس کو نشانہ بنایا گیا جس میں دو اہلکار جاں بحق ہوئے۔ 27 اپریل 2015 کو کوئٹہ میں نامعلوم دہشت گردوں نے زائرین کی بس پر فائرنگ کر دی جس سے تین افراد کی زندگی کا سفر ختم ہو گیا۔ 21 جنوری 2014 مستونگ میں زائرین کی بس پر فائرنگ سے 23 افراد جاں بحق ہو گئے۔ 26 اگست 2012 بولان میں دہشتگردوں نے دو بسوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور 4 افراد جاں بحق دس زخمی ہوئے۔ 28 فروری 2012 میں کوہستان میں مسافروں کو بس سے اتار کر گولیاں ماری گئیں۔ واقعے میں 18 افراد جاں بحق اور سات زخمی ہو گئے۔
کراچی میں اسماعیلی برادری پر بے رحمانہ دہشت گرد حملے کی گونج طویل عرصہ تک سنائی دے گی۔ درجنوں قیمتی جانوں کے نقصان پر ڈیڑھ کروڑ اسماعیلیوں کے رہنماء پرنس کریم آغا خان کو اچانک سوگوار چھوڑ دیا۔ 13دسمبر 1936 کو جنیوا میں پیدا ہونے والے پرنس شاہ کریم الحسینی یا آغا خان چہارم اسماعیلی فرقے کے49 ویں امام ہیں۔ ان کی پاکستانیوں سے بڑی گہری جذباتی وابستگی ہے۔ وہ سر سلطان محمد شاہ یا آغا خان سوئم(1877تا 1957 )کے پوتے ہیں۔ اسماعیلی ان کاروباری اور تجارتی اقلیتوں میں سے ہیں جنہوں نے1947 میں پاکستان کی تخلیق کے بعدملک میں بے شمار کاروبار اور تجارتی سرگرمیوںکو فروغ دیا۔ قیام پاکستان کے بڑے صنعتی خاندانوں کا تعلق میمن، بوہری، اسماعیلی ، خوجہ، پنجابی شیخ اور چنیوٹی برادریوں سے رہا ہے۔ اسماعیلی برادری نے1840 میں ہندوستان نقل مکانی اور ممبئی کو اپنا مستقر بنایا۔ بعض مورخین کہتے ہیں کہ اسماعیلیوں نے سب سے پہلے1799 میں گوادر کا رخ کیا۔ آغا خان کے خیراتی ادارے افریقا، ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ میں فلاحی کاموں پر سالانہ60 کروڑ ڈالرزخرچ کرتے ہیں۔پاکستان میں آ خان فائو نڈ یشن نے بھوک، افلاس، ناخواندگی اور بیماریوں کے خاتمے کیلئے کئی فلاحی پروجیکٹس قائم کئے۔ جن میں ہسپتال اور تعلیمی اداروں کا قیام شامل ہیں۔
ایسی انسان دوست کمیونٹی پر دہستگردی و انتہا پسندی کسی بھی معاشرے ، قوم کیلئے ہر گز ہر گز قابل قبول نہیں ہو سکتی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے اندر چھپے ہوئے دوست نما دشمنوں کو تلاش کر کے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا ۔ ہمیں دوسروں پر ذمہ داری ڈالنے کے بجائے اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا۔