تحریر: روہیل اکبر آجکل ایک بار پھر بول ٹیلی ویژن چینل اور اسکے مالک کے بڑے چرچے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام چینلز کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے کہ وہ اس معاملہ پر دن رات پروگرام چلائیں بلکہ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ایشو پر جیسے ایک مہم چلائی جارہی ہے بول نیٹ ورک کے مالک شعیب کی کمپنی ایگزٹ نے اگر آئی ٹی کے شعبہ میں کمال مہارت سے اپنا نام اور پیسہ بنا لیا ہے تو اس میں کون سی برائی ہے کیا۔
ہمارے سیاستدانوں سے لیکر بیوروکریٹس تک نے مال نہیں بنایا کیا لوگ جعلی ڈگری کے زریعے الیکشن لڑ کر ایم پی اے اور ایم این اے منتخب نہیں ہوئے اور ثابت ہونے کے بعد عوام نے پھر انہیں ہی دوبارہ منتخب کرلیااور کیا ہم صبح سے لیکر شام تک گھٹیا ،غیر معیاری ،دو نمبر نہیں بلکہ جس کا نمبر ہی کوئی نہیں ہوتا ملاوٹ شدہ اور جعلی مرچ مصالحوں اور دودھ سے لیکر گدھے کاگوشت تک نہیں کھا رہے ؟ کیا ہمارے سیاستدانوں نے باہر سے اعلی قسم کا کا سامان منگوا کر ضبط کروانے کے بعد اربوں کا مال لاکھوں میں نہیں اٹھایا ؟کیا ہمارے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے ہمارے بچوں کو آگ میں جھلسنے سے بچا پائے؟
کیا ریسکیو 1122جیسے ادارے کے اندر بیٹھے ہوئے موٹی توندوں والوں نے قبضہ نہیں کررکھا؟ کیا فائر بریگیڈ جیسے ادارے کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ناکارہ نہیں بنا دیا گیا؟ کیا پبلک ریلیشنز کی آڑ میں بیٹھا ہوا مافیا مک مکا نہیں کررہا ؟کیا پٹواری سے لیکر وزیر اعظم اور صدر پاکستان تک افراد عیش وعشرت میں زندگی نہیں گذارہے؟ کیا پولیس کے تھانے اور ہماری جیلیں جرائم کی پرورش گاہیں اور یونیورسٹیاں نہیں ہیں ؟کیا کراچی جیسے بڑے شہر میں تعلیم فروخت نہیں ہورہی ؟کیا پانی اور زمین پر قبضے نہیں کیے جارہے؟ کیا ایک رہڑی والے سے لیکر اوپر تک کرپشن اور چور بازاری کا بازار گرم نہیں ہے؟ کیا ہمارے ٹھیکیداروں سے لیکر اوورسیئر ،ایس ڈی او ، ایکسیئن اور اوپر تک کمیشن نہیں جاتا؟ کیا گذشتہ روز علماء دین کی طرف سے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات کے خلاف لگنے والے فتوے کے لیے اخبارات کے پاس سنگل کالم خبر اور ٹیلی ویژن چینلز کے پاس ایک ٹکر کی بھی جگہ نہیں تھی؟
Axact
اگر یہ سب کچھ کھلے عام ہورہا ہے تو پھر ایگزٹ کے کام پر اتنا شور شرابہ کیوں کیا یہ صرف ایک چینل کو مارکیٹ میں آنے سے باز رکھنے کے لیے ہے یا واقعی حکومت ملک سے ہر طرح کی کرپشن اور چور بازاری ختم کرنا چاہتی ہے اگر ایسا ہے تو پھر سب سے پہلے ایسی رقم پاکستان واپس لائی جائے جو یہاں سے لوٹ کر بیرون ملک رکھی گئی ہے ایسے ججوں ،جرنیلوں اور صحافیوں کا بھی احتساب کیا جائے جن پر کرپشن کے کیسز ہیں ایسے افسران کو بھی گرفت میں لایا جائے جن کی تنخواہ تو 50ہزار کے قریب ہے مگر انکے اخراجات لاکھوں میں ہیں جنہوں نے سرکاری خزانے کو لوٹنے کی قسم کھا رکھی ہے جو اپنی ذاتی گاڑیوں میں بھی سرکاری پیٹرول ڈلواتے ہیں اور ایسے افسران کا بھی محاسبہ کیا جائے جو سرکاری ملازمین کو اپنے ذاتی کاموں میں مصروف رکھتے ہیں۔
اگر یہ سب کچھ نہیں ہونا اور یہ نظام ایسے ہی چلنا ہے روٹی چرا کر کھانے والے کو جیل اور اربوں لوٹنے والے حکمران بنتے رہیں گے تو پھر ایگزٹ کے کام پر اتنا شور شرابہ کیو ں؟کیا اس طرح کے کاموں سے نیا چینل نہیں آئے گا ہوسکتا ہے کہ حکومت بول کا لائسنس کینسل کردے مگر وہ کسی اور نام سے کوئی اور چینل مارکیٹ میں لے آئیں گے پھر انکے مخالفین کیا کرینگے۔
اسکے ساتھ ساتھ ہمارے اداے اور ایجنسیاں کہاں سوئی تھی کہ جن کو آج تک یہ ہی نہیں معلوم ہوسکا کہ پاکستان میں کون کیا کررہا ہے اگر ہم نے ساری کاروائیاں اخباروں کے زریعے ہی کرنی ہیں تو پھراداروں میں مزید رپورٹروں کو بھرتی کرلیا جائے جو ہمارے ان اداروں کی خامیاں دور کرسکیں رہی بات بول ٹی وی کی اسکی انتظامیہ نے بہت عرصہ سے تیاریاں شروع کررکھی ہیں جتنی انہوں نے اشتہار بازی کردی ہے ہوسکتا ہے کہ یہ کسی کو پسند نہ آئی ہو اس لیے بول کو بھی اب منظر عام پر آثابت کرنا پڑے گا بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔