اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے 18 ویں اور 21 ویں آئینی ترامیم سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا کام دہشت گردوں کے خلاف لڑنا ہے لیکن فوج کو جج بنا کر اس پر مزید بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17رکنی فل کورٹ نے 18ویں اور 21 ویں آئینی ترامیم سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس ناصر الملک نے حکومتی وکیل خالد انور سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کو آئینی ترمیم ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔
جس پر خالد انور نے کہا کہ سپریم کورٹ فوجی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی، 21 ویں آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کا اختیار محدود کردیا گیا ہے، چیف جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ دو روز تو یہ دلائل دیتے رہے کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار ہے،جس پر حکومتی وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس وہی اختیارات ہیں جو آئین دیتا ہے، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے 21 ویں آئینی ترمیم ضروری تھی، سپریم کورٹ کا لیاقت حسین کیس کا فیصلہ ناکام ہوا، دہشت گردی سے متعلق فوجی عدالتوں کا قیام ضرورت ہے، فوجی عدالتوں کا قیام کڑوی گولی ہے لیکن ہمیں کھانی پڑے گی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ مقدمات طوالت کا شکار ججز کی وجہ سے نہیں بلکہ استغاثہ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوج کو جج بنا کر ان پر مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے، آرمی چیف فیصلہ کریں گے یادوسرے معاملات چلائیں گے، آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا کام دہشت گردوں کے خلاف لڑنا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ کہتے ہیں کہ انصاف 2 سال کے لئے معطل کر دیں، کیس کی مزید سماعت 25 مئی پیر کو ہوگی۔