تحریر: محمد شہباز، کمالیہ حسن کا گرویدہ کون نہیں ہوتا۔ اوپر سے کوئی کتنا ہی سخت طبع کیوں نہ ہو، دل تو سب کے پاس ہوتا ہے۔ اور ازل سے نرم و ملائم دل محبت کا طالب رہا ہے۔ حالات اور جمادات کی تلخیوں سے یہ موم دھیرے دھیرے منجمد ہوئی اور دل سے ایک پتھر کا وجود ظاہر ہوا۔ پتھر ٹوٹ تو سکتا ہے مگر دوبارہ کبھی موم نہیں بن سکتا۔ جب وہ لوگوں سے اس پتھر دل کے موم ہونے کا تذکرہ کرتا ہے۔ تو حقیقی طور پروہ اپنا دوگلاپن ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ پتھر اور موم کا کیا تعلق؟ یہ دونوں تو متضاد حقیقتیں ہیں۔
وہ شاید موم سے پتھر کے سفر پر گامزن نادان مسافر، جسے اپنی مسافت کا پتہ ، نہ ہی منزل کی خبروہ تو بس دیوانوں کی طرح اس کی کھوج میں نکلا،اپنے آپ سے بے وفائی کا داغ لئے اک عجیب داستان رقم کرنے کے لئے زندگی کے پہاڑ جیسے ٹیلوںپر چل رہا تھا۔ اور بھر پور طریقے سے اپنے اتیت کو بھلانے کی جستجو نے اْسے دنیا سے بے خبر کر ڈالا۔ وہ دوسروں کے دکھوں کا چارہ گر بھی کیسے بنتا جو خود دکھوں کے سمندر میں بے سہارا غوطہ زنوں کی طرح غوطے کھا رہا تھامگر اس کی زندگی میں موم سے پتھر کا سفر مکمل نہیں ہونا تھا اور اسے ایک ایسا رہبر مل گیا جو اس کے گزشتہ راہزن کی یادوں کو بھلانے کے لئے بہتر محسن تھا۔
Life
پہلی نظر کا پیار شاید ہوتاہو مگر وہ اس محسن کے دل سے با خبر تو نہیں تھا مگر یہ عجب بات تھی کہ اپنے محسن کا دیدار اسے پھر سے ان پرانی یادوں میں سمو رہا تھا کہ جسے بھولنے کے لئے وہ اس محسن کو اپنا سمجھ بیٹھا تھا اب کی بار اسے رسوائی کا ڈرتھا نہ ہی بے مروتی کا، وہ تو جیسے ان حروف کو اپنی لغت سے نکال چکا تھا۔
محبوب اتنا بھی بے وفا نہیں ہوتا کہ محبت کا قرض نہ چکا ئے۔ اگر دکھ دینا اس کی صفت ہے تو اب کی بار بھی اْسی نے اس محبت کو ہوا دی تھی جسے وہ اپنے محسن کے لئے محسوس کر رہا تھا وہ بار بار اس کے نقوش بناتا اور مٹا دیتا کہ اس نقش میں ابھی بھی بہت سی خامیاں ہیں جو کہ اس کی تخلیق کی ناپختگی تھی یا پھر اس کی محبت کا درجہ اولیٰ۔
نقش نقشہ تیرا نقشے پہ بنائوں کیسے تو کبھی دیر تلک پاس میں ٹھہرا ہی نہیں وہ جا ن چکا تھا کہ اب یاد ماضی کو عذاب جان بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ یادِ ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اب تو وہ خود کو “تونہیں کوئی اور سہی۔۔۔اور نہیں کوئی اور سہی” کے فلسفے پر حتی الوسا مطمئن کرنے کی ا ن تھک کوشش میں مصروف عمل تھا اور شاید اسے یہ احساس بھی ہو چکا تھا کہ” انگور کھٹے ہیں”ساتھ ہی “Love Never Dies” کا فلسفہ بھی بار بار اپنی یاد دہانی کرا رہا تھا کہ جو محبت تمہیں اب میسر ہے یہ پرکشش توہے مگر اس گزشتہ محبت ہی کا ایک جزو ہے۔
اسے غصہ تھا تو محض دل کی کارستانیوں پر کہ یہ بھی کیسے کیسوں پر آ جاتا ہے کہ جنہیں محبت کے تقاضوں اور اس کی قدر کا پتہ بھی نہیں ہوتا وہ جان بوجھ کر اس کے نقش کو مٹا کر ایک نیا نقش، نقشہ دل پر پانی اور خشکی کے درمیانی حصہ میں تخلیق کرنے جا رہا تھا اور اس نے اس تخلیقی محبت کو ایک نسبتی لقب بھی عطا کر ہی ڈالا کہ “میں نے تمہارا عکس ڈھونڈھ لیا ہے۔