تحریر: ایم سرور صدیقی سانحہ ٔ ماڈل ٹائون کی JIT نے بالآخر وزیر اعظم، وزیراعلی ٰ سمیت تمام حکومتی وزراء کو اس واقعہ سے بری الذمہ قرار دیدیا ہے جس پر منہاج القرآن کے رہنمائوںنے شدید احتجاج کیا ہے اس ہولناک واقعہ اور خونی سانحہ پر غور کریں تو لگتاہی نہیں یہ پاکستانی پولیس کے جوان ہیں ۔۔نہتے شہریوںکو ان کے اپنے خون میں لہو لہان کرنے والے۔۔
خواتین پر تشدد کی انتہا اور درجنوں افرادپر سٹیٹ گولیاں برسانے والے ۔۔دل مانتا ہی نہیں کوئی پاکستانی اتنا شقی القلب بھی ہو سکتاہے ۔۔۔اپنے ہم وطنوں سے انسانیت سوزیہ سلوک کہ دل کانپ کانپ جائے ۔ نوجوانوں بوڑھوں، عورتوں سے کوئی امتیاز نہ تمیز ۔۔ ایسا سنتے آئے تھے کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی درندوںنے ظلم وبربر یت کا بازار گرم کررکھاہے یا پھر ہمارے شیر جوانوں نے انگریز دورمیں جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کی یاد تازہ کردی ۔۔۔لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے ہیں سانحہ ٔ لاہور کیونکر پیش آیا؟ پورے لاہور میں ہرپوش آبادی۔ہر بااثر شخصیت کی رہائشگاہ اور ہرپولیس اسٹیشن،بڑے سکول، کالج اور محکمے کے مین گیٹ پر بیریئر لگے ہوئے ہیں بلکہ دہشت گردی کے پیش ِ نظر حکومت نے خود ایسا کرنے کی ہدایات دی ہوئی ہیں ماڈل ٹائون میں درجنوں مقامات پر بیریئر لگے دکھائی دیتے ہیں اس کے باوجود صرف منہاج القرآن سیکرٹریٹ سے بیریئر ہٹانے کا حکم دینا ایک معمہ بلکہ عجوبہ ہے۔
اس مقصد کیلئے آدھی رات کو پولیس کی بھاری اور مسلح نفری کے ساتھ اپریشن کلین اپ کرنا بد نیتی ظاہر کرتاہے یہاں بیرئیر ہٹانا مقصودہوتاتو ایسے حالات پیدا ہی نہیں ہوسکتے تھے۔لوگ کہتے ہیں پولیس نے منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر اس انداز سے دھاوا بولا جیسے کوئی غیر ملکی دہشت گردیا جا سوس گرفتار کرنا ہوں اس کے ساتھ ساتھ گلو بٹ نامی شیر ِ لاہورنے مار دھاڑسے بھرپور اداکاری کرکے مولا جٹ کو مات دیدی۔ایک بات سمجھ سے بالا ہے کہ منہاج القرآن سیکرٹریٹ سے بیرئیر ہٹانااتنا بڑا یا حساس معاملہ نہ تھا جس پرپولیس نے کشت وخون سے ہلاکو خان کا کردار ادا کرنا اپنا فرض جان لیا دنیا بھرمیں جہاں سنگین معاملات بھی درپیش ہوں قانون نافذ کرنے والے ادارے ہمیشہ لوگوںپرظلم کرنے سے گریز کرتے ہیں احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پانی کی تیز دھاریں پھینکی جاتی ہیں حالات زیادہ حدسے گذر جائیں تو ربڑکی گولیاں مارنے پر اکتفاکیا جاتا ہے۔ گولی چلانے کی اجازت انتہائی مجبوری کے عالم میںدی جاتی ہے کوشش کی جاتی ہے کہ ہوائی فائرنگ کی جائے یا مظاہرین کی ٹانگوںمیں فائر کئے جائیں تاکہ جانی نقصان کم سے کم ہو لیکن سانحہ ٔ لاہور میں نہ جانے کیوں پولیس نے نشانہ باندھ کر سٹیٹ گولیاں برسا ڈالیں یہ تو ٹارگٹ کلنگ والی صورت ِ حال ہوئی نا! منہاج القرآن سیکرٹریٹ سے بیریئر ہٹانے کے معاملہ پر لگتاہی نہیں یہ پاکستانی پولیس کے جوان ہیں۔
بہرحال یہ معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں لگ رہا جتنا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے شنیدہے کہ ” اپریشن مڈ نائٹ” کا سب سے بڑا مقصد منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر قبضہ کرنا تھا جہاں کارکنوں سے موجودہ حکومت کے خلاف طاہر القادری کا ساتھ دینے کیلئے عہدو پیمان اور حلف لیا جارہا تھا ۔ جب پولیس نے دھاوا بولا اسی وقت شیخ الاسلام کو خبر کردی گئی جنہوں نے ذاتی طورپرپل بھر میں ملکی و غیرملکی میڈیا کو با خبر کردیااوریوں پل پل کی رننگ کمنٹری دنیا بھر میں دیکھی جانے لگی نہتے شہریوںکو ان کے اپنے خون میں لہو لہان کرنے والوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کر میاں شہباز شریف کی کوئی خدمت نہیں کی۔ باخبر لوگوںکا کہناہے کہ سانحہ ٔ لاہورپر خادم ِ اعلیٰ خاصے مضطرب اور اداس اداس ہیں لیکن لرگ کہتے ہیں کہ ایک بات کی ابھی تک سمجھ نہیں آئی18گھنٹے کا اپریشن، میڈیا پر لمحہ بہ لمحہ کوریج ،آنکھوں دیکھا حال اورنہتے لوگوںکی ہلاکت کے باوجود میاں شہباز شریف کا لاعلم رہنا تجاہل ِ عارفہ ہے یا واقعی جان بوجھ کر انہیں حالات سے بے خبر رکھا گیاہے ۔اس بات پر ہر دردِ دل رکھنے والامتفق ہے جو کچھ ہوا وہ ہرگزنہیں ہونا چاہیے تھا اختلاف رائے برداشت کرنا جمہوریت کا حسن اور صحتمند روایت ہے مخالفین کو جان سے مارڈالنا درندگی کی انتہا اور فسطائیت کی علامت ہے۔میاں نواز شریف اورمیاں شہباز شریف اپنے وزیروں ،مشیروں اور پارٹی عہدیداروں کو بھی انسانیت سے محبت کی تلقین کریں اتنا ظلم اور احتجاج کے باوجود اب بھی کچھ ”سیانے” حکومتی دفاع میں بے سروپا باتیں کرکے ماحول خراب کرنا چاہتے ہیں۔
Shahbaz Sharif
پرویز رشید نے ایک ایسی بات کہہ ڈالی جس کی امید بھی نہیں کی جا سکتی تھی ا ن دنوں انہوںنے فرمایا تھا سانحہ ٔ لاہور میں طاہرالقادری بھی ملوث ہو سکتے ہیں یعنی گولیاں برسانے والے پولیس اہلکار شیخ الاسلام نے بھجوائے ہوں گے اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ درجن بھرسے زائد لوگوںکی ہلاکت کے بعد بھی اگرکسی نے کچھ نہیں سیکھا تو پھر ایسی سوچ پر انا للہ وانا الیہ ِ راجعون ہی پڑھا جا سکتاہے ہمارے شیر جوانوں نے انگریز دورمیں جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کی یاد تازہ کردی اور حکومتی سیانے اس کے حق میں بھی دلیلیں دے رہے ہیں یار کمال ہوگیا اقتدار کا جادو اتنا سر چڑھ کر بولتا کبھی کبھارہی دیکھنے میں آتاہے۔ میاں شہباز شریف سانحہ ٔ لاہور کے ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہچانے کی بات کرتے ہیں اور ان کے ساتھی اس کے برعکس باتیں کرکے اپنے ہی وزیر ِ اعلیٰ کی کوششوںکو سبوتاژ کررہے ہیں اب معلوم نہیں یہ بوکھلاہٹ ہے، نئی حکمت ِ عملی یا پھرحالات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ۔۔۔کہ عوام یونہی تقسیم درتقسیم ہوتے رہیں اور سیاستدانوںکے گلشن کا کاروبار بھی چلتا رہے۔ جو ہونا تھا ہو چکا اب ٹھنڈے دل و دماغ سے حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔کہتے ہیں اس تحریک کو کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا جس کی خون سے آبیاری کی گئی ہو طاہر القادری کے” انقلاب” کو خود حکومت نے ایک درجن سے زائد بے گناہوںکا خون مہیا کر کے آسان بنا دیا ہے۔۔۔
حکومت مخالف سب جماعتیں بظاہر عوامی تحریک کے ساتھ ہیں اس ہولناک واقعہ اور خونی سانحہ پر سب نے مذمت کی ہے اتنے لوگوںکاقتل اور انصاف نہ ملتا ایک سوالیہ نشان ہے۔۔۔سانحہ ماڈل ٹاؤ ن لاہورکے باعث عوام کے دل میں طاہر القادری کیلئے نرم گوشہ پیدا ہو گیاہے اورپھر نظام بدلنے کی جو باتیں تواترسے شیخ الاسلام کررہے ہیں یہ عوام کی محرومیوںکو زبان ملنے والی بات ہے جس سے ہمدردیاں یقینا ان کے حصہ میں آرہی ہیں بلاشبہ طاہر القادری عوام کا لہو گر ماکر سوئے ہوئے جذبات آگ لگا نے کی صلاحیت رکھتے ہیںجبر،ظلم اور نامعقولیت سے اس نقلاب کو روکا گیا تو عوامی جذبات بپھر سکتے ہیں یاد رکھیں جذبات بھی پانی کی مانند ہوتے ہیں پانی کو راستہ نہ ملے تو وہ خود راستہ بنا لیتا ہے جذبات کو راستہ نہ ملے تو سب کچھ تہس نہس بھی ہو سکتاہے جب انقلاب ناکام ہو جائے تو خانہ جنگی قوموں کا مقدر بن جاتی ہے۔۔۔ خدا خیر کرے