تحریر: عبید شاہ سعودی انٹیلی جنس کا سربراہ کچھ بتانے کو تیار نہ تھامیں نے بالا آخر جھنجھلا کر اس کی کہنی زور سے پکڑی اور فیصلہ کن لہجے میں اس سے سوال کیاکہ تمہیں کیسا لگے گا اگر تمھیں نیویارک ٹائمز میں یہ اسٹوری پڑھنے کو ملے کہ دہشت گردوں کے ایک گروہ نے امریکی صدر کو قتل کرنے کا منصونہ بنایا ہے اور تم ان کی سرپرستی کر رہے ہو؟وہ اس دھمکی پر ڈھیر ہو گیااور طوطے کی طرح بولنا شروع ہوگیا۔انہوں نے سعودیہ میں دہشت گردی کی ایک کاروائی میں ملوث القائدہ کے کچھ لوگوں کو پکڑ رکھا تھااور ہمیں ان تک مکمل رسائی چاھیے تھی“۔ اس طرز کی ”دھمکی“ دینے اور مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جانے کا اعتراف کرنے والی شخصیت کوئی اور نہیں خود جارج ٹینٹ ہیں۔ موصوف 1997 میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ مقرر ہوئے اورجون 2004 میں ریٹائر ہوئے۔ملازمت سے سبکدوشی کے بعد انہوں نے ”ایٹ دی سینٹر آف اسٹارمز۔ مائی ڈیز ایٹ سی آئی اے“ کے عنوان سے اپنی یاداشتیں قلمبند کیں جو 2007 میں کتابی شکل میں شائع ہوئیں۔
امریکی سی آئی اے کے سربراہ اور سعودی انٹیلی جنس چیف کے مابین ہو نے والے اس مکالمے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے امریکی حکومت یا خفیہ ادارے اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے کس طرح اپنے ذرائع ابلاغ میں من پسند بلکہ من گھڑت اسٹوریز شائع کرانے پر دسترس رکھتے ہیں اور شائع شدہ خبروں کے بہانے کس نوعیت کے اہداف حاصل کرتے ہیں۔ ساری دنیا یہ بات جانتی ہے کہ عراق میں تباہ کن کیمیائی ہتھیاروں کی بڑی تعداد میں موجودگی کی خبر بھی نیو یارک ٹائمز نے ہی ”بریک“ کی تھی جسے بنیاد بنا کر صدام حسین پر دباؤ بڑھایا گیا اور اسے اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو اپنی تمام اہم تنصیبات کا معائنہ کرانے کا پابند کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام کرنے والی ایجنسی کے حکام نے اپنی رپورٹ میں ایسے کسی ہتھیار کی برآمدگی تو تسلیم نہیں کی مگر خدشات ظاہر کئے کہ کچھ ”باقیات“ سے اندازہ ہو تا ہے کہ شاید ایسے ہتھیار موجود تھے انہیں تلف یا کہیں اور منتقل کیا گیا ہے اسکے بعد بالا آخر انکل سام عراق پر چڑھ دوڑا، دنیا اسے روکتی ہی رہ گئی، ہتھیار تو آج تک نہ ملے مگر لاشوں کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
اگر پاکستانی آئی ٹی کمپنی ”ایگزیکٹ“ کے خلاف شائع شدہ نیو یارک ٹائمز کی اسٹوری کو اسی تناظر میں دیکھا جائے جو کہا جا سکتا ہے کہ یہ عالمی آئی ٹی مارکیٹ پر برق رفتاری سے چھائی ہوئی نظر آنے والی کمپنی کے خلاف کوئی بین الااقوامی سازش ہے۔ متعلقہ رپورٹر ڈکلین والش کو نا پسندیدہ سر گرمیوں میں ملّوث پائے جانے پرپاکستان سے ملک بدر کیا گیا تھا یہ پس منظر بھی ان شکوک کو تقویت بخشتا ہے بہر حال الزامات سچ ہیں یا جھوٹ حتمی طور پر اتنی آسانی سے کچھ کہا نہیں جا سکتا خود چوہدری نثار کہتے ہیں سائبر کرائمز کے ماہرین کو تفتیش کیلئے کم از کم ایک ماہ درکار ہے لیکن پاکستان میں میدان ِابلاغ کے چند شاہ سواروں نے تو فیصلہ سنا ہی دیا ہے۔ ایک طوفان پرپا ہو چکا ہے، لائیو ٹرانسمیشنز چلائی جا رہی ہیں، ایگزیکٹ کے ملازمین منہ چھپائے گاڑیوں میں بیٹھتے دکھائی دے رہے ہیں، سیاستدانوں کو فون کرکے مخالفانہ بیانات جاری کرنے کی فرمائشیں کی جارہی ہیں،لگتا ہے دنیا میں اس سے بڑی اسٹوری اب کوئی اور نہیں،کچھ بعید نہیں کہ اپنے ”ایڈیٹ باکسز“پر ہم یہ مناظر بھی دیکھیں کہ کوئی رپورٹر کہہ رہا ہوں ”ناظرین ہم ایگزیکٹ کے ایک ملازم کے گھر پر موجو د ہیں ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ انکی بیوی نے ان سے مطالبہ کر دیا ہے کہ وہ ایگزیکٹ کی ملازمت فوراً چھوڑ دیں یا پھر انہیں طلاق دیدیں“ فوراً ہی کوئی مفتی صاحب”بیپر“دیں گے کہ ”جناب ایگزیکٹ کی ملازمت حرام ہے اور وہاں کام کرنے والے تمام افراد کے نکاح فسق ہو چکے ہیں انکی تجدید لازم ہے“۔
Pakistani Media
اکثریت کا خیال ہے کہ نیویارک ٹائمز کی اس کارگذاری کے پیچھے اس مرتبہ امریکن سی آئی اے نہیں بلکہ پاکستانی میڈیا کے وہی مرد ار خور گدھ ہیں جو کل تک خودتاہم دست و گریباں تھے، اس میں دو گروپ تو ایسے ہیں جنکی لڑائی گذشتہ برس اس بات پر شروع ہوئی تھی کہ ایک گروپ نے مخالف گروپ کے ایک ”نوٹنکی“ تجزیہ کار کا استعفیٰ اپنے اخبار میں شائع کر دیا تھا،اب یہ دونوں ایگزیکٹ کے خلاف متحد ہیں کیونکہ ”دشمن کا دشمن دوست ہی ہو تا ہے“۔اس دشمنی کا آغاز یکطرفہ طور پر ایک فریق نے کیا تھا اور وجہ ظاہر ہے یہ تھی کہ ایگزیکٹ کمپنی نے آئی ٹی کے بعد میڈیا انڈسٹری میں بھی قدم رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا یہ ایسے ہی تھا جیسے گاؤں کے”کمّی“ نے بیٹے کو شہر میں لاء پڑھنے کیلئے بھیجنے کا اعلان کر دیا ہو، چوہدری کو تو آگ بگولہ ہونا ہی تھا اسے بھلا یہ بات کیسے ہضم ہو تی سو جنگ شروع ہو گئی۔ ایک بڑے گروپ کے سربراہ کے پاس ایسی اطلاعات تھیں کہ ایگزیکٹ کے چیئرمین شعیب شیخ کے اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر اسلام سے گہرے مراسم ہیں سو انہوں نے براہ ِراست ڈی جی ایس آئی کو او چھے طریقے سے ”ہِٹ“کرنے کی کوشش کی اور اپنے ہی پرَ جلوا بیٹھے اب جب ظہیر الاسلام ریٹائر ہو چکے ہیں تو ایک بار پھر سے پنجے تیز کرکے حملہ کیا گیا ہے۔ذرا دوسرے انداز سے۔
ایگزیکٹ پر الزام ہے کہ یہ ادارہ جعلی تعلیمی اسناد فروخت کرتا ہے، دنیا بھر میں اس نے 370 جعلی یونیورسٹیز، کالجز اور اسکولز کھول رکھے ہیں جو صرف ایک ویب لنک تک محدود ہیں، ان لنکس پر موجود ویڈیو کال کے آپشن پر کلک کیا جائے تو متعلقہ تعلیمی ادارے کے جو نمائندے طالب علم کو راہنمائی فراہم کرنے کیلئے آن لائن آتے ہیں ان میں سے اکثریت نے خود بھی کبھی یونیورسٹی کی شکل نہیں دیکھی ہوتی وہ محض اداکار ہو تے ہیں اور یہ طالبعلموں کو مختلف ٹیرفس کے مطابق فیس کی ادائیگی پر باآسانی ڈگری جاری کرنے کی پیشکش کرتے ہیں اس طرح چند نہایت آسان سے سوالات کا جواب آن لائن ہی دینے اور فیس ادا کرنے والا پندرہ منٹ کے اندر ڈپلومہ کی ڈگری حاصل کرسکتا ہے۔ الزام یہ بھی ہے کہ یہی ادارہ ان جعلی ڈگریوں کی جھوٹی تصدیق کا بھی اہتمام کر دیتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اسی ”طریقہئ واردات“سے ایروناٹیکل انجینئرز تک کی جعلی ڈگریاں جاری کی جاتی رہی ہیں اس طرح معصوم لوگوں سے دنیا بھر میں کروڑوں ڈالرز دھوکہ دہی سے بٹورے گئے۔
الزام بلاشبہ بے تحاشہ سنگین ہے اور بھیانک ہے ظاہر ہے کہ یہ پاکستان کی رسوائی کا سبب ہے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین تو یہاں تک کہہ گئے کہ الزامات سن کر دماغ کے پرخچے اُڑ گئے مگر ایگزیکٹ کے چئیرمین شعیب شیخ کا اپنے دفاع میں کہنا ہے کہ ہم ایسے کسی کام میں ملّوث نہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ کیا کسی جعلی ڈگری پر ایگزیکٹ کا نام ہے؟ انہوں نے متعدد جعلی یونیورسٹیز اور ایگزیکٹ کی ہوسٹنگ ایک ہی سرور سے کئے جانے کے سوال پر تسلیم کیا کہ وہ اپنی ایپلی کیشنز اور سافٹ وئیرز کے ذریعے اساتذہ اور اسٹوڈنٹس میں رابطے کا کام انجام دیتے ہیں، یعنی ایک پلیٹ فارم مہّیاکرتے ہیں اس کے بعد ڈگری بیچنے اور خریدنے کے معاملے سے انکا کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے اپنی ”کلائنٹ“ یونیورسٹیز کے جعلی ہونے کا علم ہونے سے متعلق سوال پر یہ بھی تسلیم کیا کہ امریکہ میں کسی تعلیمی ادارے کیلئے رجسٹرڈ ہونے کی کوئی شرط نہیں یعنی کان پکڑا تو سہی مگر ہاتھ گھما کر۔ہمارے اردگردموجودجانے پہچانے،اسیِ کمپنی سے ملازمت چھوڑنے والے پاکستانی نوجوانوں کی ”آپ بیتیاں“سن کربھی یہی لگتا ہے کہ دال میں ”کچھ“ کالا ضرور ہے۔شعیب شیخ نے اس انٹرویو سے ایک روزقبل اپنے ٹی وی چینل کے تمام ملازمین کو ادارے کے آڈیٹوریم میں یکجا کیا اور کہا کہ یہ مہم ایگزیکٹ کے خلاف نہیں بلکہ انکے ٹی وی چینل ”بول“ کے خلاف ہے۔ انہوں نے بول کی نشریات کے آغاز کیلئے یکم رمضان کی تاریخ کا اعلان کر دیاانہوں نے یہ شعر بھی پڑھا۔
BOL Network
طوفان کر رہا تھا میرے عزم کا طواف دنیا سمجھ رہی تھی کشتی بھنور میں ہے چلئیے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں ایک نئے چینل کا اضافہ ہونے کو ہے اسے خوش آئندہ ہی گرداننا چاھئیے۔یہ درست ہے کہ”مدعا“ایگزیکٹ نہیں ”بول“ہی ہے سوال بھی تو یہی ہے کہ ایگزیکٹ کی کارگذاری سے کسی میڈیا گروپ کو 2006 سے لیکر اس وقت تک کوئی غرض کیوں نہ تھی جب تک اس نے ”بولنے“ کا ارادہ نہ کیا تھا گویا یہ کہنا چاھئیے کہ ایگزیکٹ نے اگر کچھ غلط کیا، اسکی کاروباری سرگرمیاں دھوکہ دھی پر مبنی تھیں تو اس سے اس وقت تک ہمارے معاشرے پر کوئی فرق نہ پڑتا تھا جب تک اس نے میڈیا گروپس کی ہم عصری کا ارادہ نہ کر لیا۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کا یہ رویہ کیا خود بھی پوری طرح ایک ماتم کا عنوان نہیں۔ایک بڑے میڈیا گروپ کا رویہ یہ ہے کہ ایک شحض کو عالم ِاسلام کا ایک مؤثر ترین اسکالر بنا کر پیش کیاگیا، اس کے امیج کے غبارے میں ہوا بھر بھر کر اسے خوب پھلایا گیا اور ہائی ٹی آر پی پر چھلانگیں ماری جاتی رہیں مگر جب وہ مخالف چینل سے منسلک ہو گیاتو اسکا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنے والی ٹیپس افشا کرا دی گئیں پھر اسے ”کٹ ٹو سائز“کرکے واپس بھی رکھ لیا گیا یہ تو محض ایک مثال ہے ان غلام گردشوں میں ایسی لا تعداد مثالیں بکھری پڑی ہیں عجیب تماشہ ہے قوم کو اخلاقیات کا درس دینے والوں کو خود کوئی اخلاقیات ہی نہیں۔ایگزیکٹ پر ٹیکس چوری کا الزام لگانے والے خود اربوں روپے کے نادہندہ ہیں اور عدالتوں کے اسٹے آرڈرز کی آڑ میں چھپے پیٹھے رہتے ہیں اُدھر”عجب کرپشن کی غضب کہانیاں“عوام تک پہنچانے والوں کو دیکھئے کرارے کرارے نوٹوں کی خوشبو سونگھتے ہوئے انکھیں ایسی بند کیں کے ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے کچھ پتہہی نہ چلا۔
ایگزیکٹ انتظامیہ کے خلاف وزارت داخلہ کی ”پھرتیاں“لا محالہ اس ریموٹ کنٹرول کے سگنلز کے مطابق ہیں جو دو، تین بڑے میڈیا گروپس کے ہاتھوں میں باری باری جھول رہا ہے خدشہ ہے کہ جلد اس ریموٹ کنٹرول پر حق کا جھگڑا خود انکے درمیان بھی شروع ہو جائے گا صرف اتنا ہی نہیں ٹیکس چوری اورمنی لانڈرنگ کے الزامات کی فائلیں بھی کھلوا دی گئی ہیں۔ افسوس صد افسوس پاکستانی ذرائع ابلاغ اپنے دشمن آپ بن چکے ہیں اور اس صورتحال میں وہ جس معاشرے کی تشکیل کر رہے ہیں وہ نہایتبھڑکیلا، رنگ باز اور خون آشام ہوگا۔ایگزیکٹ کے خلاف تحقیقات ضرور ہو نی چاھئیں مگر شفاف،کسی دباؤ اور فیورٹ ازم سے پاک۔ اگر یہ ادارہ جعلی ڈگریوں کے مکروہ کاروبار میں ملوث پایا جائے تو شعیب شیخ اور دیگر”بینیفشریز“کے کپڑے تک اتار کر قومی خزانے میں جمع کرلئے جائیں مگر الزامات ثابت ہو نے سے قبل ہی اس ادارے کو گلا گھونٹ کر مارنے کی کوشش کرنا ٹھیک نہیں۔ چوہدری نثار کی پریس بریفنگ ”معصومانہ“تھی، انہوں نے اتنی ”میڈیا ہائپ“ پیدا کئے جانے پر حیرت کا اظہار کیا وہ تو ”بھولے“ ہیں مگر ایسے ”بھولوں“ کو چلانے والے تو ہوشیار ہیں ناں وہ اب بھی نہیں سمجھے تو بزبان شاعر عرض ہے آج اگر زَد یہ ہوں تو خوش گماں نہ ہو چراغ سب کے بجھیں گے ہو ا کسی کی نہیں
Scandals
ایسی مثالیں قائم کرنے سے اجتناب کرنا چاھئیے جن کی چوٹ کل خود بھی سہی نہ جا سکے۔ یہ اس سارے معاملے کا صرف ایک زاویہ ہے ایک اور زاویہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں خوفناک اسکینڈلز کی غیر جانبدارانہ اور بر وقت تفتیش کے معاملے میں حکومتوں کی کارکردگی صفر ہے،اربوں روپے کی کرپشن، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے الزامات خود موجودہ وزیر اعظم اور سابق صدر مملکت سمیت سینکڑوں طاقتور شخصیات پر لگتے رہے ہیں مگر آج تک کوئی کیفرِ کردار تک نہیں پہنچا یاد رہے خود ایک بڑے میڈیا گروپ کے بارے میں ہی اسی حکومت کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ”یہ گروپ غدار ہے میں نے ثبوت اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں“پھر ہواکیا سب کچھ ویسا ہی ہو گیا جیسا تھا یوں لگتا ہے جیسے ایگزیکٹ کے قضیے کا بھی وہی ہو گا جو دوسرے بہت سارے اسکینڈلز کا ہوا کیونکہ پیسے کی چکا چوند باقی سب چیزوں کو ماند کر دیتی ہے اور یہاں تو معاملہ کڑوڑوں ڈالرز کا ہے۔ اشفاق احمد یاد آتے ہیں انہوں نے کہا تھا”جس معاشرے میں سب کچھ چلتا ہے وہ معاشرہ پھر مشکل سے ہی چلتا ہے“۔