تحریر: ایم آر ملک بول ٹی وی کے خلاف سازش کا طوفان کھڑا کرنے والو ں کے مقاصد پورے ہوں یا نہ ہوں لیکن بول ٹی وی نے اپنی نشریات کا آغاز کرکے مخالفین کی نیندیں حرام کر دی ہیں کیا ہم حقائق سے نظریں چرا سکتے ہیں کہ بول ٹی وی کے خلاف ہونے والی سازش کے پیچھے حسد کی وہ آگ جل رہی ہے جو اتنے بڑے خود ساختہ سکینڈل کا موجب بنی ؟ امریکی جریدے نیویارک ٹائم کے جس رپورٹر کی رپورٹ کو سچائی تسلیم کر لیا گیا ہے اس صحافی کے ماضی میں جھانکنے کی کوشش کی ہی نہیں گئی سچائی نے انتقامی کارروائی کے بت کو پاش پاش کر دیا ہے ڈیکلن واش ایک ناپسندیدہ ترین شخص ہے جسے 11 مئی 2013 کے عام انتخابات کے روز ”ناپسندیدہ شخصیت ”قرار دیکر اُس وقت کی نگراں حکومت نے ملک بدری کے احکامات جاری کئے مگر یہ ناپسندیدہ شخص لاہور میں ہی روپوش ہو گیا وزارت داخلہ اور دفاع کا کردار اس حوالے سے قابل ستائش رہا کہ اُس نے اس ناپسندیدہ شخص کو کرنل ریٹائرد انیس عطاء اللہ کے گھر 18 جی گلبرگ تھرڈ سے پکڑ لیا اس ریاست دشمن شخص کو انیس عطا ء اللہ کے داماد جو ہومن رائٹس کمیشن کا عہدیدار ہے نے ایک محب وطن ڈی ایس پی سکیورٹی پرویز بٹ کی حراست سے چھڑانے کی ناکام کوشش کی تو ایک محب وطن نے اسے چھوڑنے سے انکار کردیا ہیومن رائٹس کے حوالے سے موصوف علی حسن کے اُس وقت کے نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی سے گہرے مراسم تھے جن کو استعمال میں لاکر علی حسن نے باقاعدہ فون پر محب وطن پولیس آفیسر پرویز بٹ سے نجم سیٹھی کی بات کرائی مگر وزیر اعلیٰ کے احکامات حب الوطنی کے آگے ہار گئے اور پر ویز بٹ نے یہ کہہ کر چھوڑنے سے انکار کردیا کہ وزارت داخلہ سے بات کی جائے
امریکی اپنے شہری کے ساتھ ہونے والے معاملات میں آخری حد تک جاتے ہیں ڈینئل پرل اور ریمنڈ دیوس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں مسلم لیگ ن سے رابطہ کیا گیا تو اُنہوں نے برسر اقتدار آنے کے بعد اُسے واپس لانے کا وعدہ کیا وطن عزیز کی قومی سلامتی کے ادارے نے حکومتی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ڈیکلن والش جیسے ریاست دشمن فرد کو این او سی تک جاری کرنے سے انکار کردیا آپ ڈیکلن واش کوایک اور ریمنڈ دیوس کہہ سکتے ہیںجس کا کام محض پاکستانی حکومت میں موجود اپنے ہمدردوں کی سر پرستی میں حساس اداروں کے خلاف آرٹیکلز تحریر کرنا ہے وہ اپنی سٹوریز میں حساس اداروں کو ٹارگٹ بناتا ہے اس سازش کو ہم سوچا سمجھا منصوبہ اس لیئے کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی نیوز پیپر نے کسی بھی ملک کی کسی کمپنی کو آج تک اس طرح ٹارگٹ نہیں کیا جبکہ نیو یارک ٹائمز کی 165 سالہ اشاعتی تاریخ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ایک کمپنی (ایگزکٹ ) کے بارے میں نہ صرف اس نے ایک من گھڑت اور مبالغہ آرائی پر رپورٹ شائع کی بلکہ مذکورہ اخبار نے ایک اداریہ بھی لکھ ڈالا اور پاکستان کے بعض میڈیا ہائوسز نے ”بول ٹی وی ”کی لانچنگ کے خوف سے اس خود ساختہ سٹوری کو سکینڈلائز کر کے پیش کیا
PPP MQM
حکومت وقت اس سکینڈل میں نہ صرف ملوث ہے بلکہ اس کی حلیف ”فرینڈلی اپوزیشن ”پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ایم کیو ایم کا کردار نمایاں ہے شہر قائد میں ہونے والے آپریشن کے خوف نے بھی پیپلز پارٹی اور متحدہ کو حساس اداروںکے خلاف ایک پلیٹ فارم پر متحد کر دیا ہے اس سازش کو سائبر کرائم کا وہ کیس بھی بے نقاب کرتا ہے جو بول انتظامیہ نے ایکسپریس کے سلطان لاکھانی کے خلاف دائر کر رکھا ہے جس کے مطابق تین افراد ایگزکٹ میں بھرتی ہوئے اور انہوں نے ایگزکٹ کا ڈیٹا چوری کر کے چوری شدہ سافٹ ویئرزسے اپنے مقاصد حاصل کئے ان تینوں ملزموں نے باقاعدہ اعتراف بھی کیا کہ اُنہوں نے ایسا سلطان لاکھانی کے ایما پر کیا اس طرح ایگزکٹ انتطامیہ نے سلطان لاکھانی کے خلاف بھی مقدمہ کا ندراج کرایا ایگزکٹ انتظامیہ اس حوالے سے بھی حق پر ہے کہ اُن کا ڈیٹا چوری کرنے والوں نے چوری شدہ سافٹ ویئر کو بول کی بدنامی کا ذریعہ بنایا سلطان لاکھانی کی کاروباری مخاصمت اس حوالے سے بھی طشت ازبام ہے کہ اس کی اپنی ایک بڑی کمپنی سائبر نیٹ کے نام سے کام کر رہی ہے علاوہ ازیں ایکپریس کا اخبار ٹریبیون نیو یارک ٹائمز کا پارٹنر ہے
اس لئے باقاعدہ ایک پلاننگ لانچ کی گئی جیو اور بول ٹی وی کی عدالتی جنگ تو سب کے سامنے عیاں ہے لیکن دنیا ٹی وی کے میاں عامر بھی اس جنگ میں شامل ہو چکے ہیں اور ایک کردار مسلم لیگ ن کے میڈیا سیل کا ہے جس کی قیادت مریم نواز کے ہاتھوں میں ہے ایک رقابت نے پاکستان کے تین بڑے ٹی وی چینلز ایکسپریس ، دنیا ،اور جیو کو بول کے خلاف متحد ہونے پر محض اس لئے مجبور کر دیا کہ بول ٹی وی کی نشریات کا قارئین کو شدت سے انتظار تھا لیکن ا س سے قبل ہی صحافتی اخلاقیات کی دھجیاں اُرانے والوں نے نیو یارک تائمز کو آلہ کار بنا کر مفادات اور مقاصد کے حصول کو یقینی بنایا گیا ایک محب وطن ٹی وی چینل کو ابھی بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرنا ہے ”بول ٹی وی ” کے خلاف کہانی کا سکرپٹ لکھنے والوں نے ابھی پس پردہ کئی کھیل کھیلنے ہیں مگر سچائی کا سفر مزاحمتوں کو عبور کرتا ہوا جاری رہتا ہے