تحریر: نعیم الرحمان شائق فی الحقیقت مصر میں جمہوریت کا خون ہو گیا۔ مصر کی ایک عدالت نے سابق صدر محمد مرسی سمیت 106 افراد کو سزائے موت سنا دی۔ ان پر 2011ء میں حسنی مبارک کے خلاف عوامی بغاوت کے دوران جیل توڑنے کا الزام ہے ۔ کہا یہ بھی جار ہا ہے کہ انھوں نے حماس ، حزب اللہ اور مقامی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر یہ قدم اٹھا یا تھا ۔ جس کے نتیجے میں محمد مرسی سمیت اخوان کے 34 افراد فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے تھے ۔ اس سے قبل محمد مرسی کو 20 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔
مصر میں ایک جمہوری حکومت کا گرنا اور پھراس پر مستزاد یہ کہ ایک جمہوری صدر کو سزائے موت دینے کا فیصلہ سنانا ۔۔۔ پھر اسی پر اکتفا نہ ہو ، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ 100 سے زائد لوگوں کو تختہ دار پر چڑھانے کی “نوید” سنانا ایک نہایت افسوس ناک عمل ہے ،جس کی جتنی مذمت کی جائے ، کم ہے ۔ واضح رہے کہ ان 100 سے زائد افراد میں علامہ یوسف القرضاوی بھی شامل ہیں ۔ جنھوں نے علامہ یوسف القرضاوی کو پڑھا ہوگا ، وہ ان کے علمی تعمق سے بہ خوبی آگاہ ہوں گے ۔ علامہ صاحب دنیائے اسلام کے ایک بہت بڑے عالم ہیں ۔ مصر کی جس عدالت نے علامہ صاحب جیسی علمی شخصیت کو بھی سزائے موت سنائی ہے ، اس کو یہ بات سوچنی چاہیے کہ ایک عالم کی موت سارے عالم کی موت ہوتی ہے ۔ ان کی سزائے موت سے پورے عالم ِ اسلام کو نا قابل ِ تلافی نقصان ہو گا ۔ اور اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں ، مصر کی حکومت اور اس کی عدالتیں ہوں گی ۔
مصر کے سابق صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی سزائے موت پر دنیا بھر کی سر بر آوردہ شخصیات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سیاست دانوں نے بھی مذمت کا اظہار کیا ۔ جرمنی کے وزیر ِ خارجہ فرانک والٹر نےکہا کہ یہ ایک سنگین سزا ہے اور ہمیں اس کی مذمت کرنی چاہیے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سابق صدر کی سزا کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ پس پردہ سابق مصری صدر کی سزائے موت کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہو یا نہ ہو ، لیکن امریکا کے محکمہ خارجہ نے بھی مصری عدالت کے اس فیصلے پر اظہار ِ تذمیم کرتے ہوئے کہا کہ سابق مصری صدر کی سزا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر سزائے موت کا فیصلہ سنایا ہے۔ ہمیں اس پر شدید تحفظات ہیں ۔مصر کے سابق صدر اور ان کے ہم نواؤں کی سزا کے خلاف ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے اب تک کا سب سے بڑا قدم اٹھایا۔ ان کا بیان بھی سب سے زیادہ جارحانہ ہے ۔ انھوں نے مصری صدر اور ان کی جماعت کے ساتھیوں کی سزا کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے کہا کہ مصری صدر یعنی عبد الفتاح السیسی فرعونوں کے زمانے میں واپس جار ہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے استنبول میں مصری صدر کے حق میں ایک بھرپور مظاہرہ بھی کیا ۔ جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی ۔
Saudi Arabia
سابق مصری صدر اور ان کے ہم نواؤں کی سزا کے خلاف سعودی عرب کا کوئی اقدام نظر نہیں آرہا ۔ یہ اس مسئلے کا سب سے افسوس نا ک پہلو ہے ۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ایک طرف سعودی عرب حوثی باغیوں کا کچومر نکال رہا ہے ۔ دنیا کو اس کا یہ جواز فراہم کررہا ہے کہ حوثی باغیوں نے یمن کی جمہوریت پر شب خون مارا ۔ اس لیے ان کی بیخ کنی از حد ضروری ہے ۔ لیکن مصر میں جس طرح جمہوریت پر شب خون مارا گیا ، اس پر سعودی عرب کی طرف سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی گئی ۔ یہاں تک کہ ایک سنگل پٹی کی خبر بھی اب تک میری نظر سے نہیں گزری ۔ مجھے مصر کے ضمن میں سعودی پالیسیوں سے سخت اختلاف ہے ۔ سعودی عرب کو چاہیے کہ وہ عبد الفتاح السیسی کے اس فیصلے کی نہ صرف مذمت کرے ، بلکہ اسے اس اقدام سے باز رکھے ۔ کیوں کہ صحیح معنوں میں سعودی عرب ہی مصر کو اس گھناؤنے اقدام سے باز رکھنے کا حوصلہ اور قوت رکھتا ہے ۔
Islamic World
عالم اسلام پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں احیائے اسلام کے لیے کوشاں دو اقسا م کی تنظیمیں نظر آتی ہیں ۔ ایک وہ ہیں ، جو مسلح جدوجہد کے قائل ہیں ۔ یہ مزاحمتی لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اب احیائے اسلام بہ زور ِ طاقت ہی ہو سکتا ہے ۔ اس کے لیے اگر اپنوں کا لہو بہے تو سو فی صد جائز ہے ۔ اسلام کو بہ زور ِ طاقت نافذ کرنے والوں میں سب سے نمایاں تنظیم القاعدہ ہے ۔پھر داعش ، الشباب ، بوکوحرام وغیرہ ہیں ۔ 9/11 سے پہلے ہم صرف القاعدہ سے واقف تھے ۔ 9/11 کے بعد امریکا کے سخت پالیسیوں کی بہ دولت اب کئی مسلح تنظیموں کا ظہور ہو چکا ہے ۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں ، جو اسلا م تو چاہتے ہیں ، مگر اس کے لیے مسلح جدوجہد کے قائل نہیں ہیں ۔ بلکہ جمہوری اور دوسر ے مروجہ طریقوں سے اسلام کا احیا چاہتے ہیں ۔ اس قسم کی تنظیموں میں سے ایک اخوان المسلمون بھی ہے ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس نوعیت کے لوگ غیروں سے زیادہ اپنوں کے زخم خوردہ ہیں ۔ اس کے لیے بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ جہاں جماعت ِ اسلامی زیر ِ عتاب ہے ۔ اب اگر اسلام کو جمہوری اور مروجہ طریقوں سے نافذ کرنے والوں کو اسی طرح کچلا جانے لگا تو خطرہ ہے کہ یہ لوگ مسلح جدوجہد شروع نہ کردیں ۔اور پہلی قسم کے لوگوں کے ساتھ نہ مل جائیں ۔ اگر انھوں نے بھی مسلح جدوجہد شروع کردی تو پہلی قسم کے لوگوں کو مزید تقویت ملے گی ۔ اور وہ پورے عالم ِ اسلام کے لیے ایک مستقل خطرہ بن جائیں گے ۔پھر ان سے نمٹنا بہت مشکل ہی نہیں ، نا ممکن ہو جائے گا ۔ اس کا خمیازہ ان سب مسلم حکومتوں کو بھگتنا پڑے گا ، جو اس وقت مصر میں ہونےوالے ظلم پر خاموش بیٹھی ہیں ۔ سعودی عرب کو بھی اس ضمن میں ضرور سوچنا چاہیے ۔
تحریر: نعیم الرحمان شائق ای میل: shaaiq89@gmail.com