تحریر: مجیداحمد جائی دنیا میں کیا ہور ہا ہے۔؟ چھوڑیں پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔؟ کس کو خبر نہیں ہے؟ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں آگئے ہیں۔ کیا ہونے چلا ہے ؟دوسے لمحے کیا ہو جائے گا۔ خوف وہراس ہر سو وحشی درندے کی طرح دندنا رہا ہے۔ ہر چہرہ اداس ہے۔ ہر لب پہ شکوے ہی شکوے ہیں۔ اسکول کی چھتیں گِر کر مستقبل کے معماروں کو نِگل رہی ہیں۔ کہیں دہشت گرد اسکولوں کو نشانہ بنا کر مستقبل تاریک کرنے پر تلے ہیں۔بازار سنسان ہیں۔ سڑکیں خون ابل رہی ہیں۔ کہیں مسافروں کو بسوں میں مار ا جارہا ہے۔ مسافروں کو لوٹا جا رہا ہے۔راہ چلتے کو گن پوائینٹ پر موبائل ،نقدی چھینی جا رہی ہے۔کہیں موٹر سائیکلوں پر اسلحہ لہراتے غنڈے گھوم رہے ہیں۔شرافت شرمندہ ہے۔بے حیائی عروج پکڑ چکی ہے۔
پاک دھرتی پہ رشوت خوروں کی بہتات ہو گئی ہے۔رشوت لی جا رہی ہے،رشوت دی جا رہی ہے۔سود دیا جا رہا ہے،سود لیا جا رہا ہے۔سرمایہ دار دولت دونوں بلکہ چاروں ہاتھوں سے جمع کرنے میں لگے ہیں۔ملاوٹ کے اژدھے قوم کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ہر چیز کی چار چار اقسام دریافت ہو گئیں ہیں۔ایک نبمر،دو نمبر،تین نمبر کے نام سے اشیاء فروخت کی جا رہی ہیں۔ہر کوئی دیکھ رہا ہے۔قبضہ مافیا سرگرم ہے۔لوٹ رہا ہے ،مار رہا ہے،مروا رہا ہے۔غریبوں ،یتیموں کی جائیدایں ہضم کی جا رہی ہیں۔ہڑتالوں سے روز روڈ بلاک کئے جا رہے ہیں۔ٹائر جلائے جا رہے ہیں۔املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔عوام ذلیل ہو رہی ہے۔عوام ذلیل کر رہی ہے۔مریض روڈ وں پر ہی دم توڑ رہے ہیں۔ایمولینس سائرن پہ سائزن بجا رہی ہے مگر ہر کسی کے کانوں میں روئی ٹھونسی ہوئی ہے۔سارے کے سارے بہرے ہو گئے ہیں۔
تعلیم کو مذاق سمجھا جا رہا ہے۔دکانوں میں اسکول بنائے جا رہے ہیں۔سرکاری اسکولوں میں جانور بندھے ہیں۔سرکاری اسکول کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں اور پرائیوٹ اکیڈمیاں ہر گلی ہر محلے میں زوروں پر ہیں۔نہ کوئی نقشہ،نہ نقشہ کے خواب،دکان کو اسکول بنائو،فیسں وصول کرو۔کس نے پوچھنا ہے،کون پوچھ سکتا ہے۔پوچھنے والے خاموش ہیں۔ہاتھ ان کے بندھے ہیں،زبان پر قفل لگے ہیں۔ضمیر سو گئے ہیں،آنکھیں شرما رہی ہیں۔مگ دل ناتواں اور دو اور دو کی گردان لگا رہا ہے۔ جاگیردار جاگیرداری دیکھا رہا ہے۔مزارعوں کی عورتیں نیلا م ہو رہی ہیں۔ان کی عزتوں کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں،کہیں غریب کی بیٹٰی ونی کی بھنیٹ چڑھ گئی ہے۔کہیں کسان کے گھر کو آگ لگا دی ہے۔آنچل مٹی میں روندے جا رہے ہیں۔
Alcohol
شراب کی بھٹیاں سرعام پک رہی ہیں۔جواری جواء کھیل رہے ہیں۔شراب بک رہی ہے۔ پولیس کدھر ہے۔؟ کون سے پولیس؟ جن کو قوم کا محافظ کہا جاتا ہے۔سو رہی ہے۔ سیاستدانوں کے آگے پیچھے گھوم رہی ہے۔مجرم پاگل کتوں کی طرح شہر شہر آزادانہ گھومتے ہیں۔غریب ،مظلوم بے گناہ سلاخوں کے پیچھے سانسس گن رہے ہیں۔پولیس نے قانون کو گھر کی لونڈی بنا لیا ہے۔اندھا دھند گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔کون مر رہا ہے۔نہیں معلوم بس۔۔۔۔مارو۔۔مارو کا فارمولا چل رہا ہے۔انصاف اپنا بوریا بستر گول کئے پردیس روانہ ہے۔سیاست چمک رہی ہے،سیاست چل رہی ہے۔سیاست ہو رہی ہے۔پولیس گردی عام ہے۔کس کس کا رونا روئیں۔ افراتفری کا عالم ہے۔امن سو گیا ہے۔خوف نے پہرے لگا لئے ہیں۔انسان محفوظ ہے نہ حیوان۔قوم مر رہی ہے،قوم ما ر رہی ہے۔ہر کسی نے قانون کو ہاتھ میں لے رکھا ہے۔صبر کی لاٹھی ٹوٹ گئی ہے۔امن شرم سے منہ چھپائے پھرتا ہے۔
دھاندلی،لوٹ مار،رشوت ،سیاست ،کرپشن روزانہ ہزاروں بچے جنم دے رہی ہے۔کیا یہی ہے پاکستان۔؟انسانوں کو جانوروں کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ہر طر ف آگ ،ہر طرف باردو۔کبھی کراچی جل رہا ،کبھی کوئٹہ تو کبھی پشاور۔کیا ہو گیا ہے اس وطن کے باسیوں کو۔کن کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔ کیا پاکستان اس لئے حاصل کیا گیا تھا ۔خون ریزی، قتل وغارت، اف میرے خدایا۔اس قوم کو صبر کی لاٹھی پھرسے تھما دے۔ نفرت کی آگ بوجھا دے۔محبت ہو جائے ۔میرا پاکستان پھر سے امن کا گہوراہ بن جائے۔اُخوت بھائی چارے پر عمل پیرا ہو جائے۔ہمیں یہ پاکستان نہیں چاہیے ہمیں امن والا پاکستان لوٹا دے۔ ہمارا پاکستان ،صرف ہمار پاکستان۔امن والا پاکستان۔