تحریر: محمد شاہد محمود دنیا کے معتبر ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے جاری تازہ ترین اعداد و شمار کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013ء میں دنیا کے ایٹمی ہتھیاروں کی مجموعی تعداد 17 ہزار 270 تھی جو اب کم ہوکر 16 ہزار 300 پر آگئی ہے۔ ان میں سے تقریباً چار ہزار ہتھیار آپریشنل یعنی حملے کے لیے تیار حالت میں ہیں۔
دنیا کی نو ایٹمی طاقتوں میں امریکہ ، روس ، چین ، پاکستان ، بھارت ، برطانیہ ، فرانس ، اسرائیل اور شمالی کوریا شامل ہیں۔پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 100 سے 120 اور بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 90 سے 110 کے درمیان ہے۔ 1945ء سے اب تک بنائے گئے سوا لاکھ ایٹمی ہتھیاروں میں سے 97 فیصد امریکہ اور روس نے بنائے ہیں۔ ان میں سے 420 ایٹمی ہتھیار مسلم ممالک اور باقی ایٹمی طاقتوں کے پاس ہیں۔ ایٹمی ممالک میں اسرائیل 200 ایٹمی ہتھیاروں کیساتھ سرفہرست ہے۔ امریکہ اور روس دنیا کے مجموعی ایٹمی ہتھیاروں کے 93 فیصد حصے کے مالک ہیں۔ 1945 میں پہلا ایٹمی تجربہ کرنے والا ملک امریکہ 7 ہزار 300 ایٹمی ہتھیاروں کا مالک ہے ان میں سے ایک ہزار 920 ایٹمی ہتھیار میزائلوں اور فوجی اڈوں پر نصب ہیں۔ امریکہ نے 2013 میں فوج پر 619 ارب ڈالر کے قریب رقم خرچ کی جو مجموعی عالمی فوجی اخراجات کا 37 فی صد ہے۔روس کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 8 ہزار ہے جن میں سے سولہ سو ہتھیار نصب ہیں۔ 2013ء میں روس نے فوجی اخراجات پر تقریباً 85 ارب ڈالر خرچ کئے۔
Nuclear Weapons
برطانیہ کے قبضے میں 225 ایٹمی ہتھیار ہیں جن میں سے 160 نصب ہیں۔ 2013ء میں برطانیہ کے فوجی اخراجات کا حجم تقریباً 58 ارب ڈالر رہا۔فرانس 300 ایٹمی ہتھیاروں کا مالک ہے جن میں سے 290 ایٹمی ہتھیار نصب ہیں۔ 2013 میں فرانس نے فوج پر 62 ارب 30 کروڑ ڈالر خرچ کئے۔چین کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 250 سے زائد ہے۔ چین نے 2013 ء میں فوجی اخراجات پر 171 ارب 40 کروڑ ڈالر خرچ کئے۔بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 90 سے 110 کے درمیان ہے۔ 2010ء میں بھارت 60 سے 80 ایٹمی ہتھیاروں کا مالک تھا۔ 2013ء میں بھارت نے فوجی اخراجات پر 47 ارب 40 کروڑ ڈالر خرچ کئے۔ 2010 ء میں یہ تعداد 70 سے 90 کے درمیان تھی۔ 20 مئی 2014ء کو پاکستان کے ایڈیشنل سیکرٹری دفاع کے بیان کے مطابق 2013ء میں پاکستان نے دفاعی اخراجات پر تقریباً 5 ارب 70 کروڑ ڈالر خرچ کئے۔ سکیورٹی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے باوجود پاکستان کے دفاعی اخراجات خطے کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے کم تھے۔1958ء میں دنیا بھر سے 10 ہزار سائنسدانوں نے ایک پٹیشن پر دستخط کرکے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ارسال کی اور التجاء کی کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤں کو روکا جائے۔
دنیا نے پاکستان کو ایک ذمہ دار ایٹمی ملک کے طور پر تسلیم کرلیا ہے اور پاکستان کی ایٹمی ہتھیاروں کی سکیورٹی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے لیکن پاکستان کو این ایس جی سے باہر ر کھنا غیر حقیقی ہے امید ہے کہ وہ جلد پاکستان کی یہ بات بھی تسلیم کرلینگے۔ جوہری مسائل کے حل کیلئے عالمی تعاون بنیادی ضرورت ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئے، یہ تاثر زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ ایٹمی سپلائی گروپ نئے قوانین اور قواعد لاگو کر رہا ہے،پاکستان کو انرجی سیکٹر میں ضروریات پوری کرنے کیلئے جوہری مواد کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کو اقوام عالم کی ضرورت ہے۔مئی کا مہینہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔28مئی 1998 کومیاں نواز شریف نے ڈاکٹر عبدالقدیرخان اور انکے ساتھیوں کی محنت کے بعد ایٹمی دھماکے کئے اور پاکستان کے دفاع کو مضبوط کیا۔ایٹمی پاکستان آج دشمنوں کو کھٹکتا ہے ۔ یوم تکبیر پاکستان کے دفاع کے حوالہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اس وقت بین الاقوامی قوتیں ایٹمی پاکستان کو نقصانات سے دوچار کرنے کی خوفناک سازشیں کر رہی ہیں۔ منظم منصوبہ بندی کے تحت دہشت گردی اور فرقہ واریت کو پروان چڑھایاجارہا ہے۔ ہم سب کو متحد ہو کر ان سازشوں کو ناکام بنانا اور قوم میں اتحادویکجہتی کا جذبہ پیداکرنے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم محمد نواز شریف نے جوہری سلامتی کے غیر رسمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جوہری سلامتی ایک مسلسل اور قومی ذمہ داری ہے اور جوہری سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے قومی اور عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔ جوہری عمل کو مؤثر بنانے کیلئے اسے وسعت دینے کی ضرورت ہے اور جوہری توانائی ادارے کے رکن ملک کانفرنس کے فیصلوں کی پاسداری یقینی بنائیں۔ اس وقت یہ تاثر زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ ایٹمی سپلائی گروپ نئے قوانین اور قواعد لاگو کر رہا ہے اور 2016ء کے بعد جوہری تحفظ سے متعلق مزید قریبی تعاون پر توجہ دینا ہوگی اور آئی اے ای اے اقوام متحدہ ایٹمی تحفظ کنونشن متعلقہ عالمی فورمز میں ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ جوہری تحفظ میں ہم آہنگی کیلئے آئی اے ای اے قائدانہ کردار ادا کر سکتی ہے اور جوہری تحفظ کے سربراہوں کی حمایت نچلی سطح پر لانا بھی بہت ضروری ہے،اس حوالے سے جوہری تحفظ کے مجوزہ عمل میں اعلیٰ حکام اور ماہرین کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔ پاکستان 40سال سے محفوظ ترین جوہری پروگرام پر عمل پیرا ہے،جوہری تحفظ کے حوالے سے پاکستان نے ہمیشہ تعمیری کردار ادا کیا،یہ ہماری قومی ذمہ داری اور عالمی ترجیح ہے،جوہری سہولتیں اور مواد محفوظ بنانے کیلئے اقدامات جاری رہنے چاہئیں،تاکہ جوہری مواد کی دہشتگردی سے بچا جا سکے۔
پاکستان کے پاس سول جوہری توانائی پیداوار کے لئے تجربہ،افرادی قوت ڈھانچہ موجود ہے ہم سب کو ہسپتالوں،صنعت اور تحقیق کیلئے تابکاری مواد کی ضرورت ہے تاہم ہمیں ان کے خطرات سے بھی آگاہ رہنا ہوگا، پاکستان جوہری تحفظ کو بے حد اہمیت دیتا ہے کیونکہ یہ ہماری قومی سلامتی کا معاملہ ہے،پاکستان ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے،ہم جوہری عدم پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ کم سے کم جوہری ہتھیاروں پر یقین رکھتے ہیں، ہمارے خطے کی ترقی کے لئے امن اور استحکام ناگزیر ہے، ہماری جوہری سلامتی کے پانچ ستون ہیں،جن میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی کی قیادت میں مضبوط کمان اینڈ کنٹرول سسٹم انٹیلی جنس کا مضبوط نظام اور اس مواد سے بھرپور عالمی تعاون شامل ہے۔ پاکستان جوہری مواد کے فزیکل تحفظ کے کنونشن(سی پی پی این ایم) میں فریق ہے،ہم آئی اے ای اے کے ساتھ ملکر تابکاری ذرائع اور جوہری مواد کی غیر قانونی نقل وحرکت کیخلاف ملکر کام کر رہے ہیں،ہم باقاعدہ طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1540کمیٹی کو ان اقدامات کے بارے میں رپورٹس دیتے رہتے ہیں جو حساس مواد اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر کنٹرول کیلئے کئے جاتے ہیں۔ جوہری سلامتی کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیشرفت کو مزید مضبوط بنانا ہو گا۔