تحریر : وقار النسا ڈسکہ میں ہونے والے ناخوشگوار واقعہ نے ایک دفعہ پھر لاقانونیت اور ظلم وبربریت کی ایک اور تاریخ رقم کر دی- جب تھانہ میں جانے والے وکلاءاور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ اوکے درمیان تکرار بڑھی تو جھگڑے کی صورت اختیار کر گئی تھانے کے ایس ایچ اوتوایسے غیض وغضب سے بھر گئے کہ پاس کھڑے اہل کار کی بندوق لے کر فائر داغ دیا اس پر بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو پے در پے کئی گولیاں سينے میں اتار دیں-اس کے پیچھے کیا بات تھی کہ غصہ کی انتہا ہی کر دیدو وکلاء کو موت کی وای میں دھکیل دیا اس کے ساتھ ایک راہ گیر بھی فائرنگ کی زد میں آکر زندگی کی بازی ہار بیٹھا-یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کتنے بے گناہ پولیس کے ھاتھوں اس دنیا سے رخت سفر باندھ گئے–
لیکن ان بے تاج بادشاہوں سے کوئی ہے جو پوچھ سکے ؟؟ لوگوں میں برداشت کا مادہ تو ہے ہی نہیں جس کا دل چاہے قانون کو ھاتھ میں لے لے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں – یہی ایس ایچ او پہلے بھی کسی قتل کیس کے بعد فرار ہو کر دبئی چلا گیا تھا جس کے بعد مقتول کے لواحقین سے کچھ لے دے کر کیس سے بھی بری ہوگیا اور حیرت کی بات اپنے عہدے پر بھی بحال ہوگیا -کون تھا اس کے پیچھے؟ جس نے ایک قاتل کو ایک مجرم کو اس عہدے پرمتمکن رکھا – جب کوئی مجرم ایک دفعہ اپنی قوت کے بل بوتے پر اور اپنے پیچھےبڑے لوگوں کی پشت پناہی سے بچ نکلے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہ آئندہ اس سے بڑھ کر کسی اور جرم کا مرتکب بھی ہو گا اور بے خوف بھی ہو گا
جب کوئی مجرم جرم کر کے بچ جائے گا اور طاقتور کمزورکی جان کو مثل چيونٹی مسل کر رکھ دے تو پھر اس ریاست میں ریاست کا نہیں جنگل کا ہی قانون ہو گا – ایس ایچ او کو گرفتار بھی کر لیا گیا یہ جز وقتی کاروائی تھی یا کل وقتی ؟ ھمیشہ کی طرح اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا- کیوںکہ حالات ملک کے ایسے ہیں کہ اسی قماش کے انسان ان عہدوں پر براجمان ہیں –کہیں پھر یہ صاجب اسی محکمے میں بڑی پوسٹ پر نظر آئیں –کیا کہا جا سکتا ہےاب وکلاء کو دیکھ لیں وہ بھی بہتی گنگا میں ھاتھ دھونا ضروری سمجھتے ہیں –اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جن گھروں سے جنازے اٹھے ان کی تکلیف اور درد کا احساس ہر درد مند دل کر سکتا ہے
Lawyers Protest
لیکن جو اس واقعہ کے بعد ہوا اس کی برائی کو بھی پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا اس ایس ایچ او کو بالکل سزائے موت ہونی چاہیے جس نے اتنی عدم برداشت کا مظاہرہ کیا اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا کہ لوگوں کوسفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا تاکہ دوسروں کے لئے بھی عبرت ہو – وہ گھرانے تو شدت غم سے نڈھال تھے –پھر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا ؟اوراتنا شدید رددعمل کہ ڈی ایس پی کا دفترہی جلا ڈالا ھاتھ میں پٹرول کی بوتلیں لئے آگ لگاتے ہوئے یہ لوگ بھی کسی طور پر انسان نہیں لگ رہے تھے دفتر جلانے کے بعد گھر کو بھی جلا دیا گیا –اب اس گھر کے لوگون کا کیا قصور ہے اصل خطا کار تو تحویل میں تھا اس کو سزا ملنی ضروری تھی نا کہ تمام محکمے کو نشانہ بنایا جاتا احتجاج ضرور ہوتا عوام بھی ساتھ دیتی لیکن اس طرح نہیں کہ کسی کا جرم کسی اور کے سر ! دفتر کے ساتھ ریکارڈ بھی جلا ڈالا جس کو لوگ کیمرے کے سامنے بے خوف وخطر پھاڑ اور پھینک رہے ہیں
کچھ نےچہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا اور کچھ ویسے ہی یوں دندناتے پھر رہے تھے جیسےاختیار کل انہی کے پاس ہے دو تین لوگوں کو سامنے دکھایا گیا جو لوہے کا ایک بڑا ٹرنک لا کر اس کا تالا توڑ رہے ہیں ان کی کیا کوشش تھی وہ کونسا ریکارڈ تلف کرنا ـچاہتے تھے ؟ یہ بھی سوالیہ نشان ہے – کيا کچھ ایسا تھا ریکارڈ میں کہ قيل وقال کے بڑھنے سے اتنا بڑا واقعہ ہو گیا ؟ابھی اس راز سے پردہ نہیں اٹھا- تصویر کے دونوں پہلوؤں کو دیکھنا چاہیۓ –قانون کا سبق پڑھے لوگوں کو کسی صورت قانون کو ھاتھ میں نہیں لینا چاہیے ملکی املاک کو تباہ کرنا ان کو نقصان پہنچانا یہ کس قسم کا احتجاج ہے؟ پہلے ہیی ملک کے حالات ابتر ہیں کتنا سرمایہ لگا کر سرکاری اورنجی املاک بنائی جاتی ہیں
Law
ان کو یوں بیدردی سے تباہ وبرباد کر دینا کہاں کی انسانیت ہے ؟ اور کھلے عام قانون کو قدموں تلے روندنا سوہان روح ہے اس سے قبل بھی وکلاء غنڈہ گردی کی کئی داستانیں لکھ چکے ہیں خدارا اس ملک پر رحم کریں اس کو یوں برباد نہ کریں –گورنمنٹ کو حقیقی طور پر ایسا قدم اٹھانا ہو گا کہ لوگ قانون کا مذاق نہ اڑائیں ان کی پکڑ ہو جب تک انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا چائے گا ملک جنگل کے قانون کا ہی نقشہ پیش کرتا رہے گا –اور مجرم بےلگام پھرتے رہیں گے-