تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید پاکستان میں پیدا ہونے ولی بد امنی اور اور دہشت گردی ہندوستان کے مقاصد کی تکمیل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔کیونکہ اس صورت حال کا فائدہ ہندوستان کو ہی ہوتا ہے گذشتہ حکومت کی نا اہلی کا فائدہ را کو بھر پور طریقے پر پہنچا ہے۔جس کے نتجے میں ثبوت اج کی کاروائیوں نے پاکستان میںبد امنی کی انتہائی کیفیت پیدا کر چھوڑی ہے۔ ہندوستان کی کاروئیوں کے پیشِ نظر سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم نہیں ہوئی ہے۔دہشت گردوں نے کراچی میں کاروائی کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا دوسرا نام ”را“ ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں را ملوث ہے۔
اس حوالے سے ہم نے ہندوستان کو ثبوت بھی فراہم کر دیئے ہیں۔نئی دہلی اپنی خفیہ ایجنسی کو کنٹرول کرے۔اور پاکستان میں دہشت گردی سے روکے ۔ ہندوستان اگر باز نہ آیاتو جواب دیں گے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں بد امنی کے پیچھے را کا ہاتھ ہے۔را پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کراچی میں گرفتار دہشت گردوں نے اعتراف کیا ہے کہ کہ ندوستانی خفیہ ایجنسی را انہیں دہشت گردی کی تربیت دیتی رہی ہے۔ اور ہندوستان میں ایسے کیمپ قائم کئے ہوئے ہیں جہاں کراچی کے نوجوانوں کو لیجایا جاتا ہے اور وہاں انہیں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔اعجاز چوہدری کا یہ بھی کہنا تھا کہ سانحہ صفورا گوٹھ میںگرفتار ہونے والے دو دہشت گرد وں نے اعتراف کیا ہے کہ کہ انہوں نے ہندوستانی خفیہ ایجنسی را سے تربیت حاصل کی ہے۔اس سانحے میں ہندوستان کی را کے شامل ہونے کے واضح ثبوت ملے ہیں اس کے باوجود ہندوستان کے طاقت ور حلقے اور وزراءپاکستان میں پاکستان کے خلاف کاﺅنٹر ٹررز کی باتیں بھی کرتے سنے جا رہے ہیں۔
ہندوستان پاکستان کو گھیرنے کیلئے ایک جانب افغانستان میں زبردست سرمایہ خرچ کر رہا ہے تودوسری جانب ایران میںایک نئی بندرگاہ کی تعمیر میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ تیسری جانب بلوچ دہشت گردوں کی پشت پناہی میں کوئی کسر اتھائے نہیں رکھ رہا ہے۔اپنے حالیہ دورہ افغانستان میں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے افغانستان کو را کی پاکستان کے خلاف سر گرمیوں کے بارے میں ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کر دیئے ہیں ۔ جس میں را کے ساتھ طالبا ن قیادتوں کی کئی خفیہ ملاقاتوں کے ثبوت بھی فراہم کر دیئے ہیں ۔افغانستان کے رستے بلوچستان میں بھی را کی واضح مداخلت کے ثبوت میں بتا دیئے گئے ہیں۔ کہ بلوچستان لبریشن آرمی،بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان ریپبلکن آرمی کو را برائے راست افغانستان کے ذریعے فنڈنگاور دہشت گردی کی تربیت فراہم کر رہی ہے۔ اور قندھار ،نمروزمیں را نے ان کے تربیتی کیمپس قائم کر کے یہیں پر بعض بلوچ رہنماﺅں کو ہندوستان کے خصوصی پاسپورٹ بھی فراہم کئے گئے ہیں۔لہٰذا افغان حکومت اپنے ملک سے ان کیمپس کا خاتمہ کرے۔جن کک متعلق تمام ثبوت فراہم کر دیئے ہیں۔ترجمان دفترِ خارجہ قاضی خلیل اللہ کا کہنا ہے کہ افغانستان کو را کی کاروئیوں سے آگاہ کر دیا ہے کہ” را“ کو اپنی سر زمین استعمال نہ کرنے دے۔ اس وقت ہندوستان کے دو اہم مقاصدیہ ہیں کہ وہ ایک جانب پاکستان کو ڈی اسٹیبلائز کرے اور دوسرے چین پاکستان اقتصادی رہداری کے منصوبے کی تکمیل نہ ہونے دے اس کھیل میں ہندوستان کے کئی اور ہمنوا بھی ہیں جن بڑاہمنوا امریکہ ہے۔
Narendra Modi
کے علاوہ گذشتہ سال ماہ اکتوبر میں مودی کا وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے امریکہ نے انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔ جب امریکہ کے صدر اوبامہ نے ہندوستان کا دورہ کیا تودورے کے دوران اوبامہ سے ملاقات میں موصوف نے اوبامہ سے بھی پاکستان کی اقتصادی اور فوجی امداد پر سوال اٹھایا تھا۔گذشتہ ماہ مودی نے فرانس اور کینیڈا دونوں ممالک کی قیادتوںسے بھی پاکستان سے تعاون پر اپنے اعتراضات کا اظہار کیا تھا۔سفارتی مبصرین کا ماننا ہے کہ نرندر مودی پوری ڈھٹائی کے ساتھ پاکستان کے خلاف باتیں کرتے ہی اور ہماری موجودہ حکومت ہندوستان کو دوست بنانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتی رہی ہے۔
نریندمودی چونکہ امریکہ کے سرٹیفائڈ دہشت گرد قرار دیئے جانے کے باوجود اوبامہ کی خوشامد میں کمی نہیں آنے دے رہے ہیں۔اس خوش آمد کے ضمن میں وہ اپنے ماضی کے چائے بنانے کے ہنر کا بھی عملی مظاہرہ خوش آمد کے طور پر پیش کر چکے ہیں۔ دہشت گرد قرار دیئے گئے ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم اور دہشت گرد قرارار دینے والے واحد سُپر پاور کے صدر کے مابین یہ خوشامدوں کا رشتہ ایسے ہی نہیں ہے۔بلکہ اس کے پیچھے جو بات ہے وہ یہ کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پورے نہیں ہونے دیئے جائیں گے۔اس مقصد کے لئے ہندوستان اپنی بد نام ترین دہشت گرد ایجنسی را کو ایک مدت سے پاکستان کے خلاف استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔اب اس ایجنسی کو یہ کام سونپا گیا ہے کہ پاک چین راہداری کے منصوبے کی بیل منڈھے نہیں چڑھنے دینی ہے جس کے لئے یہ پاکستان میں اپنے زر خریدسیاسی مہروں کو بالکل اُسی طرح استعمال کرے گی جس طرح کالا باغ ڈیم کے خلاف اس کے زر خرید شور کرتے رہے اور اس منصوبے کو تمام فیزیبلیٹی ورک مکمل ہونے کے باوجود عملی شکل اختیار کرنے نہیں دی ہے۔
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کے پہلے دورے کے دوران چینی صدر شی چن پنگ سے اپنی گفتگو کا محورپاکستان سے متنازعہ امور کو ہی رکھا۔ جس میں پاکستان کی اقتصادی راہداری کا معاملہ سر فہرست تھا۔جس پر 46،ارب ڈالر لاگت آئے گی ہندوستانی وزیر اعظم نے دیگر امور کے علاوہ چینی صدر شی چن پنگ سے یہ شکایت بھی کی کہ یہ راہداری پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر سے ہو کر گذرتی ہے۔اس شکایت پر چینی قیادت نے کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔بلکہ چینی صدر نے اس حولے سے ایک معنی خیز مسکراہٹ پر اکتفا کیا۔جس پر ہندوستان وزیر اعظم دل مسوس کر رہ گئے۔ پاکستان کو ہر لحاظ سے تباہ اور پاک چین راہداری منصوبے کو سبوتاج کرنے کے لئے را نے ایک خصوصی ڈیسک بھی قائم کر لیا ہے۔وجہ اس یہ ہے کہ پاکستان کو کسی طرح بھی ترقی کی منازل طے کرنے دینے کی ہر گز اجازت نہ دی جائے ۔دوسری جانب نریندر مودی کے دورے کے اگلے دن چین کے مرکزی ٹیلیویژن نے ہندوستان کا ایک ایسا نقشہ دنیا کو دکھا دیا جس میںجموں و کشمیر اور اروناچل پردیش کو ہندوستانی نقشے میں نہیں دکھایا گیا ۔جس پر ہندوستانی میڈیا اور بڑ بولے تلملا کر رہ رہ گئے اور نریندر مودی کے پاس خاموش رہنے کے سوائے تھا ہی کچھ نہیں۔اس وقت ہماری حکومت اور عسکری ادروں کو ہندوستان کے رویوں پر کڑی نظر رکھنا ہوگی اور پاکستان کے بکاﺅ سیاسی ٹولوں پر بھی نظر رکھنا ہو گی۔
Shabbir Khurshid
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbir4khurshid@gmail.com