سانحہ یا واقعہ

Terrorism

Terrorism

تحریر: ایم اے شاہد
دنیا بھر میں کہیں بھی کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو اس خطے کے حکمران اور عوام اس سانحہ سے سبق عبرت حاصل کرتے ہیں اور آئندہ اس سانحہ کی روک تھام کے لئے منصوبہ بندی بھی کرتے ہیں۔آئے دن ہونے والے ناگہانی آفتات اور سانحات پر کنڑول کی انسانی قدرت شاید اتنی نہیں کیوں کہ قدرتی طور پر پیش آنے والے سانحہ کی روک تھام ممکن ہی نہیں۔

زلزلے ،آتش فشانی لاوے ،طوفانی بارشیں ،سیلاب ،سونامیوں سے بچنے کی اب تک کوئی ایسی کارگر تدبیر نہ ہو سکی ۔۔۔!البتہ ترقی یافتہ معاشرے اورزندہ قوموں کو یہ بڑے سانحے جاتے جاتے جینے کے نئے رنگ اور ڈھنگ بتا جاتے ہیں ایسے لوگوں نے نئے جوش وجذبے سے ان حادثات سے نکل کربہترین پلاننگ کے ساتھ نہ صرف اپنے لائف سٹائل کو تبدیل کیااور اپنے بنیادی انفاسٹریکچر میں بھی تبدیلیاں کیں۔تاکہ دوبارہ آنے والے قدرتی سانحات سے کم سے کم نقصانات ہو’ان قوموں کا مشاہدہ ہم آئے دنوں کرتے ہیں پاکستان میں میڈیا اور اخباروں میں مختلف واقعات کی دل دلہا دینے والی خبریں پڑھنے اور دیکھنے کو ملتی ہیں جنہیں ہم اور ہمارا میڈیا سانحہ قرار دے دیتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سانحہ نہیں یہ واقعات ہوتے ہیں اور یقینا یہ ہماری سرزمین پر یہ بڑے بڑے تخریبی واقعات اس طرح رو نما ہو رہے ہیں کہ ہمیں سانحہ اور واقع کا فرق ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔

امریکہ میں نائن الیون کا بہت بڑاواقعہ رونماہوا انہوںنے اس واقعہ کو سانحہ قرار دینے کی بجائے اس واقعہ کے پیش نظراپنی خارجی اور داخلی پالیسیوں میں یکسر تبدیلی کی اور پھر عملی اقدامات اٹھائے جو کہ وہ ضروری سمجھتے تھے انہوںنے اس کو واقعہ کی دھول کی نظر نہیںہونے دیا اور نہ ہی اس سانحہ سمجھاانہوںنے اسے واقعہ سمجھتے ہوئے اس کے پس پردہ محرکات کو اپنے طو رپر نشان عبرت بنانے کی بھرپور کوشش کی۔

Karachi Bus Firing

Karachi Bus Firing

مگر ہماری گنگا ہی الٹی بہتی ہے مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہو یا اجڑی کیمپ کا واقعہ،جنرل ضیاء کے طیارے کے حادثہ کا واقعہ ہو یا شہادت بے نظیر بھٹو ،سیالکوٹ میں دو بھائیوں کا قتل ہو یا ماڈل ٹاؤن میں پولیس گردی ‘پشاور سکول اٹیک ہو یا کوئٹہ میں آئے روز ہونے والے واقعات’ تربت میں سرائیکی وسیب کے مزدوروں کا قتل کا واقعہ ہویا کراچی صفورہ چورنگی میںاسماعیلی برادری کی بس پراٹیک تازہ ترین ڈسکہ میں تین وکلاء کا قتل یہ واقعات تھے جن کے پیچھے باقاعدہ پلاننگ ہوئی اور سماج دشمن عناصر نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے دشمن کا آلہ کار بنتے ہوئے اس مملکت پاکستان کو زخم خردہ کردیا افسوس صد افسوس ہمارے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں نے ان واقعات کو سانحہ سمجھا اور ان واقعات کی اصل حقیقت اور دشمن کے عزائم کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی۔

ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا ہمیں سانحہ کے لئے بھی تیار رہنا اور واقعات کی بیخ کنی کے لئے اپنی بھرپور استعمال کرنی ہوں گی نظریہ پاکستان اور وطن عزیز کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے افواج پاکستان کے ساتھ ایک قوم کی حیثیت سے کھڑے ہونا ہوگا اور ان رونماہونے والے واقعات میں ملوث افراد اور گرہوں کا قلع قمع کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا دشمنان پاکستان سے کبھی بھی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی وہ اپنی مکارانہ چال بازیوں سے مدینہ ثانی پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میںاس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک وہ ہمیں گروہ بندی ،قرفہ بندی ،لاثانی ،صوبائی ،مذہبی اور علاقائی تفرقوں میں تقسیم کرنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکتے۔

ضرورت اس امر کی ہے قدرتی آفتات اور سانحوں اور روز مرہ دہشتگردی کے واقعات میں بہت فرق ہے ہمیں ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے اور اپنی اصلاح و احوال بھی کرنی ہو گی۔

M.A-Shahid

M.A-Shahid

تحریر: ایم اے شاہد
0301-8671180