تحریر: شفقت اللہ خان سیال اللہ کا شکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور پیارے نبی کریم ۖ کے امتی ہیں۔ آج کے اس دور میں جس طرف دیکھوں وہی اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصرف عمل ہے۔ ہر طرف ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر کوئی کرپشن میں نمبر ون بننے کی کوشش کر رہا ہے۔
آج اس مہنگائی کے دور میں روٹی مشکل سے پورئی ہوتی ہے ۔اور ان کے بچے پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔گھروں کے اخراجات وی آئی پی کی طرح۔گاڑیوں میں آفس آنا جانا۔یہ سب کہا سے آرہا ہے کبھی کسی نے غور بھی کیا ہے ۔کہ نہیں جس نبی کے ہم امتی ہے۔کیا اس نے ہم کو یہی درس دیا ہے۔
نام مسلمان کہ تم اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ حرام کی دولت سے بھرو۔آج ہم کو تو یہ بھی معلوم نہیں اس دوڑ میں کہ ہم نے تو چکن ۔مٹن وغیرہ اور ساتھ میں کتنی چیزئے کھالی ۔پتہ نہیں کہ ساتھ جو ہمسائے ہے ۔ان کو کھانا کھایا کے نہیں ان کے گھرمیں کوئی بچہ بھوکھا تو نہیں جس نے دودھ بھی پیا ہے کہ نہیں ۔مگر آج ہمارئے پاس اتنا ٹائم بھی نہیں ہے ۔کہ ہم ان کا پتہ بھی کر ان سے بات چیت کرلے۔کبھی آپ نے سوچا بھی ہے کہ نہیں ۔آج آپ مسجدوں کو دیکھوں تو چند ایک نمازی نظر آئے گئے۔اور کسی سنماگھر یاجو ڈرامے لگے ہوتے ہیں ۔وہاں آپ کو اتنا رش نظر آئے گا ۔کہ لو گ ٹکٹ خرید کرتے وقت ایک دوسرئے کو دھکے دئے رہے ہوتے ہیں۔
آج کے مسلمان دوکاندار کوہی دیکھ لے۔جو ان کو گورنمنٹ کی ریٹ لسٹ ملی ہوتی ہے۔اس سے زیادہ ریٹ وصول کررہے ہوتے ہے۔جھنگ سٹی کے بازار۔باب عمر گیٹ ۔ریل بازار ۔میلاد چوک۔جھنگ صدر ۔ایوب چوک۔پکہ کوٹ روڈ ۔چوک ریل بازار۔شہید روڈ۔ویڑرنری ہسپتال کے باہر۔فوار چوک سے لیے کر اسلامیہ ہائی سکول جھنگ صدر۔سبزی منڈی کے کے باہر جو دوکاندار حضرات وغیرہ اپنی من مرضی کے ریٹ وصول کر رہے ہے۔لا قانونیت کا بازار گرم ہے ۔جس کو جو دل کر رہا ہے وہی ریٹ وصول کر رہا ہے ۔کوئی پوچھنے والا نہیں فروٹ۔دودھ۔دھی۔سبزیاں۔گوشت وغیرہ سب کے ریٹ زیادہ وصول کیا جارہے ہیں۔اور اگر کوئی شخص ان دوکاندار حضرات سے بولے کہ سرکاری ریٹ پر آپ پیسے لیے تو وہ ناکس قسم کا سامان تھیلے میں ڈال کر دے دئیے گا۔کیا ہم میں یہی مسلمانیات رہے گئی ہے۔
Poor People
ان کوئی پوچھنے والا نہیں ۔اگر ایسے دوکانداروں کو کوئی پوچھتا تو یہ ایسے شرعام غریب آدمی کو کبھی نہ لوٹتاندھا راجا بے دار نگری۔آج عوام تو جاگ رہی ہے ۔مگر انتظامیہ جھنگ نہ جانے کیوں خاموش ہے۔اور تو اورٹی ایم اے جھنگ کے تحت ہونے والے کرڑوں روپے کی ترقیاتی سکیمے سیوریج کی ہے۔جن کا لیول ایک پرائیوئیٹ شخص کر رہا ہے۔جو پہلے بھی تمام سکیموں کے لیول دیئے رہا تھا۔اور اب بھی وہی شخص لیول دیئے رہا ہے۔اور اسی پر یہ سرکاری ملازمین کام کروانے میں مصروف عمل ہے۔اور جو لیول اس پرائیویٹ شخص نے دے دیا۔
وہ ٹی ایم اے کے افسران اور ٹھیکیدار حضرات کے لیے حرف آخر ہو یہ جاتاہے۔ٹی ایم اے جھنگ کے سب انجیئنیروغیرہ کو اگر لیول کے بارئے علم ہوتا توسیوریج کا لیول ضرور چیک کرتیمگر لیول اس کا دیا ہواچیک کرئے کون اور کیسے کرئے ۔چیک کرنے والوں کو اس بارے علم ہوا تو چیک کرئے گئے۔یہ جو آج ٹھکیداربنے ہوئے ہیں۔جنہوں لسٹ منٹ کروائی ہے۔لسٹ منٹ کی سرکاری فیس بھی یہ ساتھ ادا کرتے ہے۔لسٹ منٹ کرتے وقت افسران نے کبھی بھی کسی شخص سے یہ نہیں پوچھا کہ تم کوان کے بارئے علم ہے بھی کہ نہیں ۔جو تم کوان کے بارئے علم ہے بھی کہ نہیں جو تم ٹھیکیدار بنے کے لیے آگے ہوئے ۔پہلے ایک بات سنا کرتے تھے۔کہ جس کو کوئی کام نہیں آتاوہ شخص ڈرائیور وغیرہ۔
اب میں تو یہ کہائوں کا کہ جس کو کوئی کام نہیں آتا تھا۔اور اس کے پاس پیسہ ہے۔اور ساتھ میں شفارش تو وہ ٹھیکیدار بن جاتا ہے۔آج جن ٹھیکیدار حضرات کے کام چل رہے ہیں۔یا جن لوگوں نے ٹی ایم او میں لسٹ منٹ کروا کر ٹھیکیدار بنے ہے۔ان حکام بالا اپنی خصوصی ٹیم بھیج کر کام چیک کروائے۔اور ساتھ میں ان سب ٹھیکیدا رکا انٹرویو لیا جائے۔تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ٹی ایم اے جھنگ نے لاتعدادکام کروائے۔اور لاتعداد سکیموں کا کام جاری ہے اگر وہ ٹیم ایمانداری سے آکرتمام سکیموں کو چیک کرئے ۔جن کا اخبار اشتہار دیا جاتا ہے۔تو سب کچھ آپ کے سامنے ہو گا۔کام تو پہلے بھی ہو رہے ہے۔اور کئی ٹیموں نے آکر چیک بھی کیا مگران کو کام دیکھائے جاتے ہیں ۔جو اچھے ہو۔میں تو یہی کہوں گا ۔کہ ایماندار افسران کی ٹیم ہو جوآکر تمام سکیموں کو چیک کرئے۔اور غلظ کام کرنے والوں کے ٹھیکیداری کے لائیسنس کینسل کیے جائے۔اور ان کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔