تحریر: زاہد محمود ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا نقلی کی اہمیت کا اندازہ آج کل ملکی نیوز چینلز دیکھ کر ہوتا ہے۔ ایک امریکی اخبار میں چھپنے والی ایک رپورٹ نے پاکستان کے میڈیا میں کھلبلی مچا دی ہے اس رپورٹ میں پاکستان میں موجود ایک کمپنی پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو ڈگریاں دینے کے نام پر ان سے پیسے بٹور رہی ہے اور ان ڈگریوں پر ایک امریکی طاقتور شخصیت کے تصدیقی دستخط بھی موجود ہوتے ہیں۔
اس رپورٹ کے بعد پاکستان کی حکومت اور اسکے ادارے ” حرکت ” میں آئے اور اپنی پھرتیاں دکھانی شروع کردیں چند ہی دنوں میں ” ہزاروں ڈگریاں ” برآمد کر لی گئیں اور کافی سارے ریکارڈ تک ” رسائی ” بھی حاصل کر لی گئی اس کمپنی کے مالک سے ” تفتیش ” بھی کی گئی اور اس ” تفتیش ” میں وہ تفتیش کنندہ کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے اور حراست میں لے لیئے گئے بہت سارے سوالات میرے ذہن میں کھٹک رہے ہیں جن کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔
سب سے پہلے تو یہ سوال کہ ایک کمپنی پاکستان میں پچھلے لگ بھگ 10 سال سے کام کر رہی ہے اور وہ کمپنی اپنے آپ کو پاکستان کی سب بڑی آئی ٹی کمپنی بھی کہلواتی ہے کیسے اتنے بڑے پیمانے پر اتنی منظم طور پر جعلی ڈگریوں کا کاروبار کر تی رہی اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی ؟ دنیا پوری میں اس واقعے کے بعد ہمارے ” امیج ” میں مزید ” بہتری ” آئی ہے اور لوگ یا تو ہمیں نا اہل سمجھ رہے ہیں یا ٹھگ ، یا تو یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی ہمارے ساتھ کھلواڑ کر سکتا ہے یا ہمیں پیسوں کا لالچ دے کر کچھ بھی کروا سکتا ہے ، جو بھی ہو ان دونوں میں سے کوئی بھی بات ہمارے لئے قابل فخر نہیں بلکہ ایک غیرت مند قوم کے طور پر دیکھا جائے تو شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے کہ پوری دنیا میں ہم کس نظر سے دیکھیں جارہے ہیں ، اسامہ بن لادن والا معاملہ ہو یا پولیو والا معاملہ ریمنڈ ڈیوس کے ساتھ ” دیت ” والا معاملہ ہو یا یہ ایگزیکٹ کمپنی والا معاملہ ، کارگل میں اپنے فوجیوں کو پہلے کشمیری مجاہدین کا نام دینا اور پھر اپنے فوجی مان لینا ہر اک واقعہ پر ہماری پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے لیکن مجال ہے کہ ہم ، ہماری حکومتیں اور حکومتی ادارے ٹس سے مس ہوں اور بین الاقومی طور پر ہمیں شرمندگی اور سبکی سے بچانے کے لئے اپنا کردار ادار کریں۔
دوسری بات جو کہ قابل ذکر ہے اس واقعہ نے ہمارے بڑے میڈیا چینلز مالکان اور صحافی حضرات کا پول بھی کھول کر رکھ دیا ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں رہ گیا کہ صحافت میں اب صرف اور صرف پیسے اور اشتہارات کو ہی اصل صحافت مان لیا گیا ہے اور وہ میڈیا جس نے عوام کی صحیح طور پر تربیت اور راہنمائی کرنی تھی اس نے عوام کو بے اطمینانی اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے ہمارا میڈیا سچ میں نئے آنے والے چینل ” بول ” سے خوفزدہ تھا کیونکہ جب آپ اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہوں تو آپ کو یقینی طور پر یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کوئی بھی آکر آپ سے آپکی موجودہ پوزیشن چھین لے گا اور اسی بے چینی اور بے یقینی نے ” بول ” کو پوری طرح ” بولنے ” سے پہلے ہی خاموش کر وا دیا۔
Axact
وہ محترم صحافی حضرات جنکا ضمیر جاگ گیا اور انھوں نے اس چینل سے راہ فرار اختیا ر کر لی جب اس چینل کو انکی ضرورت تھی حالانکہ اس سے پہلے بھی وہ جن چینلز کے ساتھ کام کر رہے تھے انھیں اس وقت انکی ضرورت تھی جب وہ انھیں چھوڑ کر نہایت ہی پرکشش معاوضہ پر ” بول ” میں شمولیت اختیار کرلی اگر کوئی سیاستدان اپنے حلقے کے لوگوں کی گلیاں پکی کروانے یا اگلا الیکشن جیتنے کے لئے اپنی وفاداریاں ایک سے دوسری جماعت کے ساتھ منسلک کرتا ہے تو ہماری زبان میں اسے ” لوٹا ” کہا جاتا ہے تو پھر ایسے صحافی حضرات کے لئے کونسا لفظ استعمال کیا جانا چاہئے ؟ اگر ان کے لئے کوئی لفظ استعمال نہ کیا گیا تو یاد رکھیں پھر سیاستدانوں کے لئے ” لوٹا ” کا لفظ استعمال کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگی اور میڈیا جس نے احتساب کی جانب سب سے پہلا اٹھنے والا قدم اٹھانا ہوتا ہے کی حیثیت بھی نہایت ہی برے طریقے سے مجروح ہوگی۔
اس کیس نے ہمارے سزا اور جزا کے نظام کو بھی بری طرح سے للکارا ہے کیونکہ حکم امتناعی کے سائے میں چھپنے والے لوگ اتنے زیادہ دیدہ لیر ہوجاتے ہیں اور کس حد تک چلے جاتے ہیں یہ کیس اس سطح کی تحقیق کے لئے کافی ہے لیکن کیا ایک عام آدمی میں اتنی سکت ہے کہ وہ ایک لمبے عرصے کے لئے حکم امتناعی کے زور پر اتنا آزاد رہ سکے ؟ ایک ” خوبرو ماڈل ” جس طرح سے ڈالر اسمگل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی کیا اب تک جن کے ڈالر بیرون ملک اسمگل کیے جارہے تھے ان تک رسائی ہوئی ؟ انکے نام سامنے لائے گئے ؟ نہیں یقینا نہیں کیونکہ لگتا ایسے ہی ہے کہ اس سے آگے جاتے ہوئے ” پر جلتے ہیں ” توہین عدالت کی صورت میں اسی کالم کی وساطت سے معذرت اور معافی کا طلبگار ہوں کیونکہ نہ تو سزا بھگتنے کی سکت ہے اور نہ ہی ایک لمبے عرصے کے لئے اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کی جنگ لڑنے کی ہمت ، لیکن جن معاشروں میں انصاف نہیں ہوتا وہاں پر بغاوت ہوتی ہے ، جب معاشروں میں ایک چھوٹے سے بچے کو ہتھکڑیوں سمیت اور بڑے اور بااثر لوگوں کو پروٹوکول کے ساتھ نظام کے ایوانوں میں پیش کیا جائے تو ضرور نظام عدل میں کمزوری ہے ، جب ایک سال کے عرصے میں پولیس کی طرف سے ماڈل ٹاؤن میں بیسیوں لوگوں پر سیدھی گولیاں چلائی جائیں اور 18 جانوں کا ضیاع ہو نے کے ساتھ بیسیوں لوگ زخمی ہوں اور ابھی تک ذمہ داروں کا تعین نہ ہو سکا ہو تو یقینا نظام عدل پر سوالات اٹھیں گے۔
جب لال مسجد پر بربریت کی انتہا کرنے کی پاداش میں کسی کو سزا نہ ملی ہو ، کھلے عام اپنے آپکو دہشت گردوں کے حامی ثابت کرنے والے آزاد پھر رہے ہوں ، جب لا پتہ افراد کے معاملے پر آواز اٹھانے کی پاداش میں لوگوں پر قاتلانہ حملے ہونے لگیں اور انصاف کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہو ، جب انتخابات میں دھاندلی کا پتہ لگانے کے لئے 2سال کے بعد عدالت عظمی کے چیف جسٹس پر مشتمل ایک عدالتی کمیشن قائم ہو تو بلا مبالغہ یہ درست ہوگا کہ ہماری نظام عدل اپنے کام کے اور لوگوں دونوں کے ساتھ انصاف نہیں کر پارہا ۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سب اپنی سمت کا تعین کر نے کے بعد اپنی صفیں درست اور سیدھی کر لیں ورنہ یاد رکھیں یا تو انقلاب اور انقلاب کسی کی تمیز نہیں کرتا اور یا پھر مزید پستی اور تباہی ہمارا مقدر ہوگی اور ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوگا تاریخ انسانی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ