تحریر : انجم صحرائی تقریب مقابلہ گل و لالہ مرجان ہوٹل منعقد ہوئی تقریب کے مہمان خصوصی ملک نیاز احمد جکھڑ ایم این اے تھے۔ تقریب میں لیہ شہر کے پھولوں سے محبت کرنے والوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی لیکن ہمارے بے حد اصرار کے با وجود نواب انیس اس پروگرام میں شریک نہ ہوئے۔ تقریب میں اول دوئم اور سوئم آنے والوں کو نقد انعامات اور شیلڈز دیں گئیں اور دیگر شر کاء میں سندات بھی تقسیم کی گئیں غرض یہ اپنی نو عیت کی ایک منفرد یاد گار تقریب تھی اس تقریب کے انعقاد میں الشفاء میڈ یکل سٹور کے ظہور بھائی مر جان ہوٹل کے حامد خان بھی ہمارے معاونین میں سے تھے۔
ان دنوں الشفاء میڈ یکل سٹور ہم چند دوستوں کی چو پال ہوا کر تا تھا۔ ڈاکٹر ظفر ملغا نی نے اپنی پرا ئیویٹ پر یکٹس کا آغاز الشفاء سے ہی کیا تھا اس زما نے میں ڈاکٹر ظفر ملغانی کی چیک اپ فیس دس رو پے ہوا کرتی تھی ۔ طفیل ان دنوں بھی ان کے ساتھ تھا اور آج نصف صدی گذرنے کے بعد بھی وفا نبھا رہا ہے ۔ عشاء کے بعد ڈاکٹر افتخار قریشی ، اختر خان گا ہے بگا ہے عبد الکریم گجر اور دیگر دوست الشفاء پر ہی پا ئے جاتے اور میز با نی کا شرف ظہور انصاری کے حصے میں آ تا ۔ کیا دور تھا مجھے یاد ہے اس زما نے میں جب میں نے صو با ئی اسمبلی کا الیکشن لڑا تو چند دوستوں نے عید گاہ روڈ کی آ فتاب مارکیٹ میں ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا تھا میں اس جلسہ میں جا نے کے لئے گھر سے نکلا اور الشفاء پہنچ گیا وہاں سبھی دوست میرے منتظر تھے انہیں خبر تھی عید گاہ روڈ پر ہو نے والے اس جلسہ عام کی ْ دوستوں سے مختصر سی ملاقات کے بعد جب میں نے اجازت چا ہی تو ظہور بھا ئی بو لے کس چیز پر ہو میں نے کہا کہ رکشہ لیتا ہوں ہنستے ہو ئے کہنے لگے چھوڑو یار اب امیدوار کیا رکشہ میں جا ئے گا ۔تم رکو ڈاکٹر تمہیں چھوڑ کر آئیں گے اور یوں ڈاکٹر افتخار اپنے سکوٹر پر ہمیں بٹھا کر جلسہ گاہ چھوڑ کر آئے اب جلسہ میں کیا ہوا اس کا ذکر ذرا آگے ۔۔ ابھی تو بات ہو رہی ہے نواب کے ساتھ گذرے شب و روز کی۔
وقت گذر نے کے ساتھ ساتھ نواب انیس کے ساتھ ہماری دو ستی کا بند ھن زیادہ مضبوط ہو تا گیا نواب انیس دوستوں پر خرچ کر کے خوش ہو تے تھے با ذوق لو گوں کا ایک ہجوم تھا جو ان کے دوستوں میں سے تھا ۔ اللہ بخشے نذر ملک ہمارے ایک سینئر صحافی دوست ہوا کرتے تھے انہیں سر تال سے خا صا شغف تھا انہوں نے ریاض ملک ایڈ وو کیٹ اور دیگر دوستوں سے مل کر با قاعدہ ایک میوزک اکیڈ یمی بنا ئی ہو ئی تھی جہاں یہ سب دوست رات کو اکٹھے ہو تے اور ر محفل جمتی۔ نواب انیس چو نکہ خود گا نے اور مو سیقی کے بڑے شو قین تھے یہ شوق ان دوستوں کو نواب انیس کے قریب لے آ یا اور یوں گا ہے بگا ہے نواب انیس کے گھر میں راگ و رنگ کی محفلیں منعقد ہو تیں جن میں کچھ سننے والے بھی شریک ہو تے انہی دنوں ایک پٹواری صاحب جو ہمارے بھی دوست ہیں اور سرا ئیکی شا عری کرتے ہیں ان کی ایک کتاب شا ئع ہو ئی تو نواب نے اس کتاب کی تقریب رو نما ئی کے لئے ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا یہ بھی ایک یاد گار تقریب تھی جس میں ادب ، شا عری کے ساتھ ساتھ مو سیقی کارنگ بھی غالب تھا ۔ہم جب کوٹ سلطان سے نقل مکانی کر کے لیہ شفٹ ہو ئے تو ہمیں ہا ئو سنگ کا لو نی کے جس بلاک کی گلی میں مکان کرا یہ پر ملا اسی بلاک کی ایک دوسری گلی کے کارنر پر بنا مکان نواب نے خرید لیا اور یوں میں اور نواب محلہ دار بن گئے۔
Rose
میں نے بتایا نا کہ نواب پھولوں کے بہت شو قین تھے سو انہوں نے اس مکان کے باہر پڑی خا لی زمین کو کچھ ایسے آباد کیا کہ چند ہی ہفتوں میں یہ خالی اور ویران ریت اور گند گی سے ا ٹے یہ چٹیل میدان نہ صرف خوبصوت سر سبزو شاداب گراسی پلاٹ میں تبدیل ہو گئے بلکہ نواب نے نہ معلوم کیا محنت کی تھی کیا جادو کیا تھا کہ وہاں ڈھیر سارے مہکتے کالے پیلے اور سرخ گلابوں نے بھی اپنے رنگ بکھیر دیئے ۔ رنگ بر نگیمہکتے گلا بوں کے در میان نرم نرم ٹھنڈی گھاس پر بیٹھ کر ڈھلتے سورج کے وقت چا ئے پینے کا اپنا مزہ ہو تا ہے سو ہم یہ مزہ لینے اکثر نواب کے پاس چلے جاتے اور عمو ما شام ہمارہی وہاں ہی گذرتی ۔ایک صبح مقبول نے مجھے آکر نواب کا پیغام دیا کہ نواب صاحب کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ایک دن کے لئے لا ہور جانا ہے آپ نے سا تھ چلنا ہے ۔۔ آپ تیار ہو کر آ جا ئیں نواب صاحب آپ کا انتظار کر رہے ہیں میں نے قدرے حیرا نگی سے پو چھا کہ ابھی ۔۔ مقبول نے جواب دیا ۔۔ ہاں ۔۔ ابھی ۔۔ میں نے کہا ٹھیک ۔۔ ان دنوںنواب کے پا س ایک لینڈ کروزر ہوا کر تی تھی ہم نے سفر شروع کیا تو میں نے سو چا کہ اسی لینڈ کروزر پر لا ہور جا نا ہو گا لیکن جب نواب جو گا ڑی خود ڈرائیو کر رہے تھے گا ڑی چو ک اعظم سے ملتان جانب مو ڑی تو میں نے پو چھا کہ ہم نے تو ملتان جانا تھا آپ ملتان جا رہے ہیں میری نات سن کر نواب مسکرائے اور بو لے صحرائی یار ہم ملتان جا رہے ہیں شام کی فلا ئیٹ سے لا ہور جا ئیں گے میں ان کی بات سن کر چپ ہو رہا میں نے ایئر پورٹ بھی دیکھے تھے اور جہاز بھی مگر میں نے کبھی جہاز کا سفر نہیں کیا تھا سو یہ میرے لئے ایک سر پرائز تھاکہ میں پہلی بار فلا ئیٹ کا پسنجر بننے والا ہوں۔
شام کی فلا ئیٹ لینے کے لئے ہم ایئر پورٹ پہنچے نواب کے پاس ایک بڑا سا لکڑی کا صندوق تھا مجھے نہیں پتہ تھا کہ لکڑی کے اس بکسے میں کیا ہے جب یہ صندوق کلینرنس کے لئے مشین پر رکھا گیا تو کلینرنس کر نے والے کو سمجھ نہیں آئی کہ بکسے میں کیا ہے اس نے کمپیوٹر پر آ نے والی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے پو چھا یہ کیا ہے ؟ میں نے کمپیوٹر پر تصویر دیکھی تو ایسا لگا جیسے ہڈ یوں کا ایک ڈھا نچہ ہو صندوق میں بند ۔ نواب مسکراتے ہو ئے آ گے بڑھے اور بو لے یار کھول کر دیکھ لو ۔ کلیرنس کر نے والے بندے نے صندوق کا ڈھکنا اٹھا یا تو لکڑی کے بکسے میں ہا ر مو نیم تھا ۔ لا ہور پہنچے جہاں ایئر پورٹ پر میزبان ہمارے استقبال کے لئے مو جود تھے ۔ در اصل لا ہور کے دوستوں نے نواب حاحب کو اپنے ہاں ہو نے والی محفل مو سیقی میں شر کت کے لئے خصو صی طور پر بلا یا تھا ۔ایک پو ش علا قہ کے ایک بڑے سے بنگلے میں ہو نے والی یہ ایک فیملی تقریب تھی جس میں پر ویز مہدی بھی اپنے فن کے اظہار کے لئے آ ئے ہو ئے تھے ۔پر ویز مہدی کے ہو تے ہو ئے جب نواب نے ہار مو نیم پر “میں آ واہ ہوں ” کی دھن چھیڑی تو اک سماں بندھ گیا ۔ لو گوں کا والہانہ پن دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے ہار مو نیم کی دھنوں نے ان پر سحر طاری کر دیا ہو۔ مگر اس محفل کا حسن یہ تھا کہ اس میں کو ئی بھی نہیں بہکا ۔رات گئے جب محفل ختم ہو ئی تو نواب کہنے لگے بندہ تمہیں ہوٹل چھوڑ آ تا ہے میں آ جا ئوں گا ۔ میں نے کہا ٹھیک۔۔ اس وقت رات کے ساڑھے تین یا چار بجے ہوں گے میں ہوٹل کے ڈبل روم میں بیڈ پر لیٹا الٹی سید ھی سو چوں کے تانوں با نوں میں ہی الجھا ہوا تھا کہ دروازے پر دستک ہو ئی دروازہ کھو لا با ہر نواب تھے لمبا سا اوور کوٹ پہنے ہاتھ میں ہزار دانوں کی تسبیح لئے کہنے لگے ابھی سو ئے نہیں۔۔
Election
نہیں ابھی سو نے کی تیاری کر رہا تھا میں نے جواب دیتے ہو ئے غور سے نواب کو دیکھا تو اتنے نکھرے لگے جیسے ابھی نہا کر آ ئے ہوں ۔ ڈاکٹر افتخار نے اپنے سکوٹر پر ہمیںآفتاب مار کیٹ پہنچا یا جہاں ہو نے والا جلسہ بلا شبہ ایک بڑا جلسہ تھا اور میں اس اجلسہ میں اکیلا مقرر ۔ یہ جلسہ ہماری الیکشن مہم کا آخری جلسہ تھا یہ تو میں آپ کو بتا ہی چکا ہوں کہ میں بھی ان انتخابات میں امیدوار صوبا ئی اسمبلی کی حیثیت سے لنگوٹ کسے ہو ئے تھا اکتوبر 1993 میں ہو نے والے ان نتخابات میں مسلم لیگ ن ، پی پی پی اور اسلامک فرنٹ ایک دوسرے کے مد مقا بل تھیں ۔اسلامک فرنٹ کے سر براہ جماعت اسلا می کے قا ضی حسین احمد تھے اخبارات میں ظالمو قا ضی آ رہا ہے کے دلچسپ عنوان سے شا ئع ہو نے والے اشتہارات الیکشن 1993 کی انتخابی مہم کا ہی حصہ تھے ۔الہکشن کمیشن آف پا کستان کی جانب سے الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد میں نے بھی لیہ شہر کی سیٹ کے لئے اپنے کا غذات نا مزدگی جمع کرا دیئے ۔ کا غذات نا مزدگی جمع کرانے والوں میں ملک غلام حیدر تھند ، مہر فضل حسین سمرا کے علاوہ عبد الکریم گجر بھی شا مل تھے۔
اسلامک فرنٹ بھی شہری حلقہ سے اپنا امیدوار لا نے کا خواہشمند تھا جماعت اسلامی کے اصغر گجر اپنی آ با ئی سیٹ سے الیکشن لڑ رہے تھے میں نے ملک غلام محمد اعوان سے جو اس وقت ضلعی امیر تھے رابطہ کیا اور ان سے در خواست کی کہ وہ میری سپورٹ کریں اور اسلا مک فرنٹ کا ٹکٹ دلوادیں ۔ انہوں نے کہا ٹھیک بات کرتے ہیں چند دنوں کے بعد ملک صاحب نے مجھے دفتر جماعت میں بلا یا اور پنجاب جما عت اسلامی کے قیم میاں مقصورد احمد سے فون پر میرا انٹر ویو کرایا آ دھے پون گھنٹے کے انٹر ویوز کے آ خر میں میاں صاحب نے مجھ سے پوچھا آپ کے پاس کتنا بجٹ ہے الیکشن کے لئے ،میں نے عرض کیا کہ جناب میں ایک سیاسی کارکن ہوں میرے پاس بجٹ کہاں ۔ اگلا سوال تھا کہ جماعت سے آپ کیا امید رکھتے ہیں کچھ زیادہ نہیں بس ایک ڈا لہ ایک لا ئوڈ سپیکر اور چند ورکر ۔ دیواروں پر لگا نے کے لئے اشتہارات لو گوں میں تقسیم کر نے کے لئے پمفلٹ ، ہینڈ بل اور کھانے کے لئے گڑ بھنے ہو ئے چنوں کے ساتھ اور پینے کے ٹھنڈے پا نی کے کو لر کا انتظام ہم خود کر لیں گے میں نے جواب دیا میں نے یہ بھی کہا کہ امیدوار کو ئی بھی ہو رزلٹ ایک جیسا ہی ہو گا لیکن اگر مجھے اسلامک فرنٹ نے اپنا امیدوار بنا یا تو حلقہ کے ہر گھر میںاسلامک فرنٹ کا پیغام اور جما عت اسلا می کی دعوت ضرور پہنچ جا ئے گی یہ میرا وعدہ رہا ۔انہوں نے جواب دیا کہ سو چتے ہیں ۔۔ چند دنوں کے بعد جب اسلامک فرنٹ کے سر براہ قا ضی حسین احمد لیہ کے دورہ پر آئے تو انہوں نے صدر بازارکے شما لی گیٹ پر استقبا لی ہجوم سے خطاب کرتے ہو ئے اپنے ساتھ کھڑے عبد الکریم گجر کا ہا تھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند کرتے ہو ئے عوام سے اپیل کی کہ وہ ملک میں اسلامی انقلاب لا نے کے لئے اسلامک فرنٹ کے امیدوار عبد الکریم گجر کو ووٹ دیں۔ باقی اگلی قسط میں